Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • پاکستان کے ’’غریب عوام‘‘ کہاں جائیں؟

    پاکستان کے ’’غریب عوام‘‘ کہاں جائیں؟

    دنیا ’اے آئی‘ کے ذریعے روز نت نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے مگر پاکستانی قوم اسی فکر میں مبتلا ہے کہ وہ فائلر ہے یا نان فائلر۔ حکومت کی جانب سے حالیہ کچھ دنوں سے فائلر اور نان فائلر کا باجا اس زور سے بجایا گیا ہے کہ ہر جانب اسی کی گونج ہے۔ گھر ہو یا دفتر، شادی کی محفل ہو یا میت کا مجمع، سب اسی فکر میں ہلکان ہو رہے ہیں کہ ان کا شمار کس خانے میں ہوتا ہے۔

    ایف بی آر کو محصولات میں کمی کے بعد جہاں منی بجٹ کی گھنٹی بجنے لگی، وہیں محصولات بڑھانے اور غریبوں کو شکنجے میں کسنے کے لیے حکومت نے 50 ہزار تنخواہ پانے والے ملازم کو فائلر قرار دیتے ہوئے اس بات کا بھی پابند کر دیا ہے کہ اب وہ اپنے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرائے، بصورت دیگر اسے کئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان پابندیوں میں بینک اکاؤنٹ اور موبائل فون کی سِم کی بندش سے لے کر بجلی، گیس اور پانی کے بل بھی منقطع اور گھر، گاڑی کی خریداری اور بیرون ملک سفر جیسی سہولتوں کے حصول سے روکنے کا انتباہ بھی شامل ہے۔ ایف بی آر کے مطابق بینک اکاؤنٹ اور سم کی بندش کے فیصلے پر عمدرآمد یکم اکتوبر سے شروع کر دیا جائے گا اور اس سے وہ لوگ بھی متاثر ہوں گے جن کی تنخواہوں سے براہ راست انکم ٹیکس کی کٹوتی ہو جاتی ہے، لیکن وہ کیونکہ گوشوارے نہیں بھرتے تو نان فائلر کے زمرے میں شمار ہوں گے۔ اب اس دھمکی پر کس حد تک عمل ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن حکومتی اقدامات نے ملک کے غریب عوام کا ناطقہ بند کر دیا ہے اور وہ یہ سوچ رہا ہے کہ پابندیوں کے پیچ در پیچ پھندے سے بچنے کے لیے آخر وہ کیا کرے اور کہاں جائے؟

    اگر دیکھا جائے تو ملک کی 100 فیصد آبادی علاوہ (حکمراں اور اشرافیہ طبقہ) ٹیکس دہندہ ہے۔ کوئی بچہ 10 روپے کا بسکٹ، چاکلیٹ، ٹافی بھی لینے جاتا ہے تو وہ بلواسطہ ٹیکس دیتا ہے۔ شیر خوار بچے کا دودھ بغیر ٹیکس کے نہیں مل سکتا۔ سینئر ریٹائرڈ سٹیزن، جن کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں، ان کی دوا بغیر ٹیکس کے نہیں مل سکتی۔ گھروں میں امور خانہ داری اور کوئی ذرائع آمدن نہ رکھنے والی خواتین کچھ بھی بلواسطہ ٹیکس دیے بغیر کچھ خریدنے کی جرات نہیں کر سکتیں، تو پھر فائلر اور نان فائلر کا جھگڑا کہاں سے آگیا؟ بقول سابق چیئرمین ایف بی آر کہ دنیا میں کہیں بھی فائلر اور نان فائلر کی کٹیگری نہیں ہوتی، پاکستان میں یہ غیر منطقی ہے۔ وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ فائلر اور نان فائلر شریف برادران کے پسندیدہ الفاظ ہیں۔ بہرحال اگر فائلر اور نان فائلر، اتنا ہی ضروری ہے تو جو براہ راست اپنی تںخواہ سے ٹیکس دے رہا ہے وہ اگر حکومتی ریکارڈ میں نان فائلر ہے تو یہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی نا اہلی کچھ اندرون خانہ معاملات کہے جا سکتے ہیں کہ جب ٹیکس دینے کے باوجود اگر وہ ریکارڈ پر نہیں آتا تو اس کو کیا کہیں گے؟ ویسے بھی ہمارے سرکاری ادارے تو کرپشن کرنے میں ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔

    وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے سوال ہے کہ جس 50 ہزار آمدن والے غریب شخص سے، جس کی تنخواہ سے پہلے ہی ٹیکس کٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ باقی ماندہ تنخواہ جو گھر لے جاتا ہے، اس سے بھی ہر چیز کی خریداری پر ایڈوانس ٹیکس کے وصول کیا جاتا ہے۔ اس پر اب ٹیکس گوشوارے داخل کرنے کی شرط قابل عمل ہے؟ کیا اس کو اس قابل چھوڑا ہے کہ وہ ہر ماہ ٹیکس کٹوتی کے ساتھ دنوں کے حساب سے بڑھتی مہنگائی کا بھی مقابلہ کرے اور پھر سال میں ایک بار ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کر کے اضافی رقم بھی خرچ کرے؟

    محترم وزیر اس کے ساتھ ہی زیادہ نہیں چار افراد کے گھرانے کا 50 ہزار میں بجٹ بنا کر دکھا دیں اور دیکھیں کہ اس بجٹ میں گھر کا کرایہ، خوراک، تعلیم، علاج، بجلی، گیس اور پانی کے بلوں کی ادائیگی کے بعد کچھ بچتا بھی ہے یا نہیں۔ غریب تنخواہ دار کی تو حالت یہ ہے کہ تنخواہ ہاتھ میں آتے ہی اس کے لبوں سے اس مشہور زمانہ نغمے کا مصرع کچھ تحریف کے ساتھ اس طرح جاری ہونے لگتا ہے کہ ’’آئی ہو ابھی، بیٹھو تو سہی، جانے کی باتیں جانے دو۔‘‘ اور حسب حال ہے بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ تنخواہ جس کا کوئی تنخواہ دار ملازم اور اس کے اہل خانہ مہینہ بھر انتظار کرتے ہیں وہ صرف چند دن کی مہمان ہوتی ہے اور پھر اخراجات کے لیے قرض کا کاسہ پھیلانا پڑتا ہے، ایسے میں وہ فائلر بننے کے لیے اضافی خرچ کہاں سے لائے گا اور کس کے آگے کاسہ گدائی پھیلائے گا؟

    جہاں تک بات پابندیوں کی ہے کہ تو حکومت سے کوئی ارسطو بتائے گا کہ 50 ہزار ماہانہ آمدن کمانے والا آج گھر کا ماہانہ بجٹ نہیں بنا سکتا تو وہ گھر یا گاڑی خریدنے کا جاگتی آنکھوں کبھی نہ پورا ہونے والا خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔ رہی بات اکاؤنٹ اور سِم بند کرنے کی تو ان ہی بینک اکاؤنٹ میں آنے والی سیلری سے حکومت کو براہ راست ٹیکس جاتا ہے اگر یہ بند کر دیا تو اس شخص سے زیادہ یہ حکومت کا ہی نقصان ہوگا۔ ہاں اگر پابندیوں پر عمل ہوا تو اس سے غریب کی یہ ملک کی ایلیٹ حکمراں طبقے میں شمولیت کی خواہش ضرور پوری ہو سکتی ہے کیونکہ بیرون ملک جانے پر پابندی کا مطلب نام ای سی ایل میں آنا ہے اور اس فہرست میں اب تک تو صرف حکمرانوں اور بیورو کریٹس اشرافیہ کے نام ہی آتے رہے ہیں۔

    جس طرح سے فائلر اور نان فائلر کی گردان اور انہیں حاصل سہولتوں اور پابندیوں کی میٹھے لہجے میں دھمکیاں مل رہی ہیں۔ لوگوں کو تو اب یہ ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں فائلر اور نان فائلر کے قبرستان الگ الگ نہ کر دیے جائیں۔ یا ان کے شادی کرنے پر ہی پابندی عائد نہ کر دی جائے، اگر ایسا ہوگیا تو یہ بھی ملک کے مفاد میں ہوگا کہ پاکستان کی آبادی پر قابو پایا جا سکتا ہے، جو 2.5 کے تناسب سے تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کی روک تھام میں مدد مل سکے گی۔

    آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کے تین سالہ قرض پروگرام منظور ہونے اور پہلی قسط ملنے پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں اور فخر سے بتایا جا رہا ہے کہ قرض کی پہلی قسط ملتے ہی ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گیا ہے، لیکن اس کے عوض کڑی شرائط کے ساتھ ہونے والی مہنگائی سے غریب عوام کی جیب جو خالی ہو رہی ہے، کیا اس کی کسی کو فکر ہے۔ اس قرض پروگرام کی جو حکومت پاکستان کی جانب سے منظور کی گئی کڑی شرائط سامنے آئی ہے اس پر عملدرآمد سے تو عوام کا مزید کچومر نکل جائے گا۔ ان شرائط میں یہ بھی ہے کہ بجلی قیمتوں میں ریلیف نہیں دیا جائے گا۔ حکومت غذائی اجناس کی امدادی قیمتوں کا تعین تک نہیں کر سکے گی۔ ضمنی گرانٹس بھی جاری نہیں کی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی حکومتی اسٹرکچر میں نظر ثانی کی بھی تاکید ہے لیکن کبھی تو آئی ایم ایف واضح طور پر کہہ دے کہ حکمراں اور مقتدر طبقے، اشرافیہ، بیورو کریٹس جن کی تنخواہیں لاکھوں میں اور مراعات اس سے کئی گنا زائد ہیں وہ مفت میں ہزاروں یونٹس بجلی، گھر، پٹرول، گاڑی، علاج، تعلیم کی سہولتیں لے رہے ہیں اس کو بھی مکمل طور پر ختم کیا جائے۔

    یہ بھی انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ ہمارا حکمراں طبقہ غریب عوام (جو پہلے ہی ایسی چادر پہنی ہے جو سر پر اوڑھتی ہے تو پیر کھلتے ہیں اور پیر ڈھکتی ہے تو سر ننگا ہوتا ہے) کو کفایت شعاری کا درس اور فوائد بتاتی ہے لیکن جب عوام ان سیاسی مبلغین کا طرز رہائش دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ کفایت شعاری ان کے قریب سے نہیں گزرتی۔ یہ وہ طبقہ ہے جو کبھی شادی کی تقریبات میں کھانے پر پابندی لگاتا ہے لیکن اپنی تقریبات میں انواع و اقسام کے کھانے سجاتا ہے۔ غریبوں سے ان کی آمدنی سے زیادہ بجلی اور گیس کے بل اور ٹیکسز وصول کرتا ہے لیکن لاکھوں کی آمدنی کے باوجود یہ سب مراعات مفت پاتا ہے۔

    حکومت کی جانب سے بھی عوام پر قدغن لگانے والے حکومتی اقدامات تو مسلسل سامنے آتے ہیں، لیکن اب تک مبہم اعلان کے علاوہ کبھی اس پر عملدرآمد نہیں ہوا جس میں حکمراں، اشرافیہ، مقتدر طبقے اور بیورو کریٹ س کی مفت بجلی، پٹرول، گھر، نوکر چاکر، علاج، بیرون ملک سفری سہولتیں اور پرتعیش قیام و طعام کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا گیا ہو۔ کیونکہ اس سے خود حکمرانوں اور ان ہی کے قبیل کے لوگوں کے مفادات کو زک پہنچتی ہے تو ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔

    وقت آگیا ہے کہ جب آئی ایم ایف ہی کی منظوری سے ملک کے بجٹ بن رہے ہیں تو یہ عالمی مالیاتی ادارہ جس طرح غریب عوام پر سبسڈی حرام قرار دیتا ہے، اسی طرح بیک جنبش قلم حکمراں اور ایلیٹ کلاس کی تمام مراعات اور مفت سہولتوں پر بھی نشان تنسیخ کھینچ دے کہ اب شاید واحد یہی چیز رہتی ہے جو ملک کے غریب عوام کو کچھ سکون کا سانس فراہم کر سکتی ہے۔

    (یہ تحریر مصنّف کی ذاتی رائے، خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارہ کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)

  • کاؤس: نیٹ فلیکس پر مقبول ترین برطانوی ویب سیریز کا پہلا سیزن

    کاؤس: نیٹ فلیکس پر مقبول ترین برطانوی ویب سیریز کا پہلا سیزن

    آپ اگر یونانی اور رومی دیومالائی قصّوں اور اساطیر سے واقف ہیں تو یہ ویب سیریز آپ ہی کے لیے ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ یہ دیو مالائی کردار اور مختلف دیوتا دکھائی دیتے اور آج کے دور میں موجود ہوتے تو کیسے نظر آتے؟

    دنیا بھر میں لاکھوں ناظرین نیٹ فلیکس پر کاؤس نامی یہ ویب سیریز دیکھ رہے ہیں اور انہیں اس سوال کا جواب مل چکا ہے۔ آپ بھی ان دیو مالائی کرداروں پر مبنی یہ انوکھی ویب سیریز دیکھ سکتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ کاؤس ہندی اور اردو ڈبنگ میں بھی دستیاب ہے۔

    یونانی اور رومی دیومالائی کردار اور تاریخ

    نیٹ فلیکس کی ویب سیریز کاؤس یونانی اساطیر، قدیم یونان کی ادبی روایات، ان کے دیوتاؤں، ہیروز، کائنات کی نوعیت، اس سے متعلق غور و فکر اور یونان اور روم کی افسانوی تاریخ سے متعلق ہے۔ یونان اور روم کی یہ تاریخ افسانوی صورت میں آج بنیادی طور پر یونانی ادب کا حصّہ ہے جس میں بالخصوص ہومر (Homer) کی طویل نظمیں الیاڈ (Iliad) اور اوڈیسی (Odyssey) کے ساتھ ساتھ اس کے ہم عصر شاعر اور داستان گو ہیسیوڈ (Hesiod) کے کلام ورکس اینڈ ڈیز (Works and Days) اور تھیوگونی (Theogony) کے علاوہ دیگر ادبا کے لکھے ہوئے افسانے اور ڈرامے شامل ہیں۔ یہ ویب سیریز ان تاریخی، ادبی اور دیو مالائی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ایک تھیم کے تحت اس کے کردار حاضر اور غائب ہوتے ہیں۔

    یونانی اور رومی ادب کے جہان میں دیوتاؤں اور دنیا کی تخلیق، بالادستی کے لیے دیوتاؤں کے درمیان لڑائی اور پھر زیوس کی فتح، دیوتاؤں کا آپس میں تعلق، ان کا پیار اور جھگڑے، اور فانی دنیا میں ان کی مہم جوئی کا ذکر ہے۔ انہی مختلف طاقتوں کی وجہ سے رونما ہونے والے واقعات کو بھی پُراثر انداز میں پیش کیا گیا ہے اور ان کا تعلق ثقافتی مقامات یا رسومات سے ہے۔ اسی طرح دیوتاؤں کی قدرت کے کئی مظاہر کو اجاگر کیا گیا ہے جیسا کہ گرج چمک کے ساتھ بارش یا موسموں کا تغیّر وغیرہ۔ یہ ویب سیریز انہی کرداروں کو انسانوں کی طرح دکھائی دینے والے کردار بنا کر پیش کرتی ہے اور پھر انوکھے واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اس ویب سیریز کو سمجھنے کے لیے یونانی اساطیر اور رومی دیو مالائی تاریخ سے واقفیت ضروری ہے ورنہ آپ کے لیے اس ویب سیریز کا فلسفہ اور اس تخلیقی تجربہ کو سمجھنا دشوار ہوگا۔ اردو زبان میں اس موضوع پر کئی کتب موجود ہیں، جن سے آپ استفادہ کرسکتے ہیں۔

    مرکزی خیال/ کہانی

    اس ویب سیریز کے پہلے سیزن کی کہانی کا مرکزی کردار یونانی دیوتا زیوس ہے، جس کو تمام یونانی دیوتاؤں پر برتری حاصل ہے۔ یہ سب سے طاقتور دیوتا ہے، اور دوسرے دیوتا اس کے زیرِ نگرانی اپنے کام انجام دیتے ہیں۔ یہ ان سب کو خاص قسم کی طاقت بخشتا ہے۔ لیکن ایک دن اس کو یہ شک ہوجاتا ہے کہ اس کی لافانی طاقت کے خلاف سازش ہو رہی ہے، جس میں کچھ دیوتا اور انسان شامل ہیں اور پھر زیوس ان کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ انہیں سزا دے سکے۔

    یونانی اور رومی دیو مالا اور اساطیر کی تاریخ کے مطابق زیوس یونانی دیوتاؤں میں سب سے عظیم اور برتر تھا۔ وہ دیوتاؤں میں سب سے عظیم اور بلند درجہ پر فائز تھا۔ وہ بے پناہ طاقت اور کئی قوتوں کا مالک تھا۔ اسے کوہِ اولمپس کا حاکم بتایا گیا ہے جس کے قبضۂ قدرت میں خاص طور پر طوفان اور آسمانی بجلی تھی۔ اپنے اس اختیار کی وجہ سے زیوس کو غضب اور قہر میں بھی دوسرے دیوتاؤں پر خاص برتری حاصل تھی۔ علامتی طور پر زیوس کو اکثر بجلی کے کوندنے، بلوط، سانڈ اور چیل سے بھی ظاہر کیا جاتا ہے۔ زیوس کرونس اور ریہہ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ اس کی شریکِ حیات کا نام ہیرہ تھا۔ تاہم، کچھ مدت کے لیے ڈایون بھی اس عظیم دیوتا کی شریکِ‌ سفر رہی۔ زیوس کے دو بھائی پوسائڈن اور ہادس تھے۔ اس کی تین بہنیں بھی تھیں جن کے نام ہیسٹیہ، ڈیمیٹر اور ہیرہ تھے۔ انہی بنیادی تصورات پر ویب سیریز کاؤس کو تخلیق کیا گیا ہے۔ اس ویب سیریز کی تھیم چارلی کوویل کے ذہن میں آئی جو برطانوی اسکرپٹ نویس اور اداکارہ ہیں، جب کہ اس ویب سیریز کے ہدایت کار جارجی بینکس ڈیوس (Georgi Banks-Davies) اور رونیارارو میپفمو (Runyararo Mapfumo) ہیں۔ اس میں انسانوں کے تین مرکزی کرداروں کے ساتھ ساتھ اس دور کے دیوتاؤں میں سے کوئی آدھے درجن دیوتاؤں کو کہانی میں بطور کردار پیش کیا گیا ہے۔ یہ دل چسپ اور تاریخ کو پیش کرنے کا نیا اور انوکھا طریقہ ہے۔ پھر یہی نہیں ہے کہ صرف تاریخی کرداروں کو بیان کرنے پر زور دیا گیا بلکہ انسانوں کے مابین تعلقات، محبت، نفرت، قربانی، تکبر، ڈر اور بغاوت جیسے جذبات کی ترجمانی بھی کی گئی ہے۔

    اس کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ عظیم اور سب سے طاقتور لیکن کسی وجہ سے خود کو غیر محفوظ خیال کرنے والا یونانی دیوتا زیوس اپنے ساتھی دیوتا پرومیتھیس کو ایک چٹان سے باندھ کر رکھتا ہے اور اپنی مطلق العنان حکومت میں مداخلت اور من مانی کے راستے میں آنے کی جرأت کرنے پر بطور سزا اذیت دیتا ہے۔ پرومیتھیس، جو اس ویب سیریز میں پوری طرح سے راوی کے طور پر کام کرتا ہے، ایک پیش گوئی کے بارے میں بتاتا ہے کہ "ایک لکیر ظاہر ہوتی ہے، ترتیب ختم ہوتی ہے، خاندان گر جاتا ہے، اور کاؤس کا راج ہوتا ہے۔” کئی سال تک اپنا وقت گزارنے کے بعد، پرومیتھیس اب پیش گوئی کے بَل پر زیوس کو معزول کرنے کے اپنے منصوبے پر عمل شروع کرتا ہے۔ اب لافانی دیوتاؤں کی اس کہانی میں تین فانی انسانوں، یوریڈائس، کینیئس اور ایریڈنے کی نادانستہ شمولیت بھی ویب سیریز کا اہم حصّہ بنتی ہے۔ اس پلاٹ پر عمدہ طریقے سے کہانی بُنی گئی ہے اور اس کا دوسرا سیزن بھی متوقع ہے۔

    ویب سازی، اداکاری و دیگر پہلو

    اسپین اور اٹلی میں عکس بند کی جانے والی اس ویب سیریز کا پروڈکشن ڈیزائن انتہائی پختہ ہے۔ موسیقی، سینماٹوگرافی اور کاسٹیوم کے علاوہ متن کی پیشکش، اساطیری کرداروں میں جدّت طرازی اور روایتی خیالات کو نیا پہناوا اور اس کے ساتھ ساتھ بہترین اداکاروں کی شمولیت نے اس ویب سیریز کو اس قابل بنا دیا ہے کہ اسے دیکھا جائے۔ کاؤس کے مرکزی خیال سے ہم اختلاف کر سکتے ہیں، مگر اداکاروں کی کاوشیں متاثر کن ہیں، بالخصوص امریکی اداکار جیف گولڈ بلم (زیوس)، برطانوی اداکارہ جینٹ میکٹیر (ہیرہ)، امریکی اداکارہ ارورا پیرینیو (یوریڈائس)، نیوزی لینڈ کے اداکار کلف کرٹس (پوسیڈن)، آئرش اداکار کلین اسکاٹ (اورفیس)، اور برطانوی اداکار نبہان رضوان (ڈائیاناسیز) شامل ہیں۔ اوّل الذّکر اداکار جیف گولڈ بلم اور مؤخر الذّکر اداکار نبہان رضوان نے اپنی اداکاری سے خود کو دیگر اداکاروں سے بہت بلند ثابت کیا ہے، اور ان کا کام دیکھنے کے لائق ہے۔

    حرفِ آخر

    آپ اگر یونانی اور قدیم روم کے فلسفے اور تاریخ میں دل چسپی رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ آپ کو بلیک کامیڈی بھی پسند ہے تو آپ یہ ویب سیریز ضرور دیکھیں، کیونکہ اس میں کہانی تین تہوں میں بیان کی گئی ہے، جو پُرلطف اور دلچسپ ہے البتہ جنہیں ان موضوعات سے رغبت نہیں، وہ کسی قدر اکتاہٹ کا شکار ہوسکتے ہیں۔ تمام فلمی ویب سائٹس پر مقبولیت سمیٹنے والی یہ ویب سیریز نیٹ فلیکس کے ٹاپ ٹین میں شامل ہونے کے علاوہ آئی ایم ڈی بی کی فلمی ویب سائٹ پر رواں برس کی ٹاپ فائیو ویب سیریز میں سے ایک ہے۔ اور پُر لطف بات یہ ہے کہ کئی ہفتے یہ اس ویب سائٹ پر اوّل پوزیشن پر موجود رہی ہے، جسے تخلیقی دنیا میں ایک غیرمعمولی کام یابی کہا جاسکتا ہے۔

  • مصنوعی ذہانت اور انسانوں کا روزگار

    مصنوعی ذہانت اور انسانوں کا روزگار

    آج کل آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) یا مصنوعی ذہانت کا چرچا ہر طرف ہے مگر میرا روبوٹک ذہانت سے پہلا تعارف سال 2001ء میں ریلیز ہونے والی ہالی ووڈ مووی اے آئی کے ذریعے ہوا تھا۔ یہ میری دانست میں پہلا موقع تھا کہ آرٹیفشل انٹیلیجنس کو متعارف کرایا گیا تھا۔ اس سے قبل روبوٹک ذہانت کے حوالے سے اسّی کی دہائی میں ٹرمینیٹر سیریز نے بھی بہت دھوم مچائی تھی۔ مصنوعی ذہانت یا کمپیوٹر کے ازخود سیکھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے ماہرین نے بہت سے خدشات کا اظہار اس کی ایجاد کے فوری بعد ہی شروع کردیا تھا۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ ان خدشات میں اضافہ بھی ہوتا رہا۔ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے انسانوں کے لیے ممکنہ مسائل پر بہت بحث ہوئی چکی ہے اور یہ بحث آج بھی جاری ہے۔

    انسانوں کے لئے ملازمت کے مواقع پیدا کرنا پالیسی سازوں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اقوام متحدہ کے شعبہ برائے معاشیات و سماجیات کے مطابق اس وقت بھی دنیا میں 7 کروڑ 10 لاکھ سے زائد افراد بے روز گار ہیں اور سال 2050ء تک دنیا کی آبادی 9.8 ارب نفوس پہنچ جانے کا امکان ہے جس میں سے 6 ارب افراد ملازمت کی عمر کے ہوں گے۔ بعض پالسی سازوں کا کہنا ہے کہ ایسے میں نئی ٹیکنالوجیز محنت کی منڈی میں مسائل کو جنم دے سکتی ہیں۔ اور آنے والی دہائی میں 80 فیصد ملازمتوں انسانوں کی جگہ کمپیوٹرز سے کام لیا جارہا ہوگا۔

    میری سوچ بھی مصنوعی ذہانت کے خلاف تھی جس کی بڑی وجہ انسانوں کی جگہ میشنوں کا استعمال تھا۔ اسی سوال کے جواب کی تلاش میں کہ کیا واقعی مصنوعی ذہانت اور مشین انسان کو بے روزگار اور ناکارہ کر دے گی، میں پہنچا ایس اے پی کے پاکستان، افغانستان، عراق اور بحرین کے لئے کنٹری منیجر ثاقب احمد کے پاس جنہوں نے ایک مقامی ہوٹل میں صحافیوں سے ملاقات کا بندوبست کر رکھا تھا۔ کمرے میں داخل ہوا تو میرے صحافی دوست نے ثاقب احمد سے سوال داغا کہ کیا وجہ ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں پاکستان چھوڑ رہی ہیں۔ میں ایک مایوس کن جواب سننے کا منتظر تھا۔ مگر توقع کے برخلاف ثاقب احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مشکل وقت ختم ہوگیا ہے۔ جو کمپنیاں پاکستان سے جارہی ہیں۔ ان کی اپنی کاروباری وجوہات ہوسکتی ہیں۔ کم از کم معاشی وجہ تو نہیں ہے۔ میں نے گفتگو کا رخ موڑتے ہوئے وہ سوال پوچھ ہی لیا کہ کیا مصنوعی ذہانت انسانوں کو بے روزگار کر دے گی؟ ثاقب احمد نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مشینوں کی آمد سے اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے محنت کش کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کانوں کی کھدائی میں انسانوں کی جگہ میشنییں آئیں، زراعت میں ٹریکٹر آیا، کشتی میں چپو اور باد بان کی جگہ انجن لگا تو انسان نے ترقی کی اور ایسا ہی مصنوعی ذہانت، تھری ڈی پرنٹنگ اور روبوٹ کے معیشت کے اس چکر میں شامل ہونے سے ہوگا۔

    ثاقب احمد کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت یا اے آئی سے متعلق یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اس سے بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار ہوں گے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مصنوعی ذہانت سے بہت سی موجودہ ملازمتیں ختم ہوں گی مگر جتنی ملازمتیں ختم ہوں گی اس سے دگنی ملازمتوں کے مواقع پیدا بھی ہوں گے۔ اس وقت مصنوعی ذہانت کی مارکیٹ 638 ارب ڈالر سے زائد ہے جس کے سال 2034ء تک 3600 ارب ڈالر تک پہنچ جانے کا تخمینہ ہے۔ پاکستان اس مارکیٹ میں سے ایک بڑا حصہ حاصل کرسکتا ہے۔ اگر وہ فوری طور پر اقدامات کرے۔

    مصنوعی ذہانت کے ذریعے بہت سا کام جس کے لئے لوگ رکھنا پڑتے تھے اب وہ آسانی سے یا ایک کلک پر مکمل ہوجاتا ہے۔ ملازمت کی درخواستوں میں مطلوبہ افراد کی شارٹ لسٹنگ ہو یا پیداواری عمل میں ڈیٹا کا تجزیہ یہ سب اے آئی ایک سوال پوچھنے پر پورا نظام از خود کھنگال کر جواب بتا دیتی ہے۔ اپنی بات کی دلیل دیتے ہوئے ثاقب احمد نے امریکی مردم شماری کی بنیاد پر بتایا کہ 1950ء سے 2106ء کے درمیان امریکا میں درج 270 پیشوں میں سے صرف ایک پیشہ ختم ہوا ہے۔ اور وہ ہے لفٹ آپریٹر۔ ثاقب احمد کی یہ بات سنتے ہی میرا ذہن میڈیا میں ہونے والی تبدیلیوں کی جانب چلا گیا۔ ماضی میں کسی بھی اخبار میں صحافیوں سے زیادہ کاتب، پیسٹر، وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ مگر اب یہ پیشے ختم ہوگئے ہیں۔ ہاتھ سے اخبار لکھنے کا دور ختم ہوا۔ جس سے اخباروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اور اخباروں کے پاس یہ گنجائش پیدا ہوئی کہ ادارتی عملے میں اضافہ کریں۔

    ثاقب احمد کا کہنا تھا کہ 2015ء سے پہلے جاب مارکیٹ مختلف تھی۔ آپ نے ایک ہنر سیکھ لیا تو ساری زندگی اسی ہنر سے کمایا کھایا۔ مگر اب ٹیکنالوجی کی تیزی سے تبدیلی ہورہی ہے اور اسی حساب سے ملازمت اور کمائی کے طریقۂ کار بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ اگر ہر دو یا تین سال بعد اپنی صلاحیت کو نہیں بڑھایا تو نہ ملازمت پر رہیں گے نہ کاروبار میں۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی وجہ سے لوگوں کو ملازمت اختیار کرنے کے لئے نئی اور جدید صلاحیتوں اور ہنر کو سیکھنے کی ضرورت ہوگی۔ ہم جب تعلیم حاصل کررہے تھے تو بہت سی ایسی ملازمتیں جو کہ اس وقت موجود ہیں، اس وقت ان کا تصور بھی نہ تھا۔ تعلیم کے مکمل کرنے کے بعد ایسے ہنر سیکھے جن کی وجہ سے ملازمت پر موجود ہیں۔ بصورت دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار ہوسکتے تھے۔

    خیام صدیقی میرے دیرینہ دوست ہیں اور تقریبا دو دہائیوں سے ان سے تعلق ہے۔ وہ اسلام آباد میں ایک بڑی موبائل فون کمپنی کے فن ٹیک سے وابستہ ہیں۔ کراچی آنے پر ملاقات ہوئی تو مصنوعی ذہانت کے استعمال پر بات چیت ہونے لگی۔ خیام کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال مالیاتی صنعت کو تبدیل کر رہا ہے۔ قرض کی منظوری جو کہ پہلے انسان دیا کرتے تھے۔ اب مصنوعی ذہانت پر مبنی سافٹ ویئر دیتے ہیں۔ اور یہ عمل چند سیکنڈز میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اب موبائل فون کے ذریعے قرض کی رقم کی منظوری دینے والوں کے بجائے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔

    یہ بات تو طے ہے کہ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے انسان فوری طورپر تو بے روز گار یا ناکارہ نہیں ہورہا ہے۔ مگر یہ طے ہے کہ تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئی ملازمت کی منڈی میں خود کو کسی بھی طرح اہل اور کارآمد رکھنے کے لئے ہر چند سال بعد نیا ہنر سیکھنا ہوگا۔ آپ انجینئر ہیں، ڈاکٹر ہیں، آڈیٹر ہیں یا صحافی مصنوعی ذہانت فیصلہ سازی میں آپ کی مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کو اپنا دشمن سمجھنے کے بجائے اسے اپنا کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔

  • آئینی ترامیم کا مسودہ اور ایک ’’ہاں‘‘!

    آئینی ترامیم کا مسودہ اور ایک ’’ہاں‘‘!

    ملک کے سیاسی افق پر اس وقت جو سب سے اہم معاملہ چھایا ہوا ہے، وہ مجوزہ آئینی ترامیم کا ہے۔ آئینی ترامیم کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، مگر موجودہ وقت یہ گواہی دے رہا ہے کہ اس وقت حکومت سمیت ’’سب‘‘ کی جان مولانا فضل الرحمان کے پاس موجود طوطے (ہاں) میں ہے۔

    کچھ عرصہ قبل جب ملک میں آئینی ترامیم کا زور اپنے پورے شور کے ساتھ اٹھا، تو حکومت کی جانب سے اس آئینی ترامیم کے مسودے کو اس طرح چھپایا گیا کہ جیسے یہ کوئی قانون سازی کا مسودہ نہیں بلکہ ایک نامحرم دوشیزہ ہو جس کا دیدار اپوزیشن پر تو حرام، لیکن خود حکومتی وزرا بھی اس کی جھلک دینے سے محروم رہے۔ اس آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے، جہاں حکومت اور اس کے حمایتیوں نے اپنا ہر حربہ استعمال کیا۔ وہیں اپوزیشن جماعت بالخصوص تحریک انصاف نے بھی اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پی ٹی آئی کا یقین کی حد تک گمان یہ ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے پی ٹی آئی کا راستہ روکا جائے گا اور بانی پی ٹی آئی عمران خان جنہیں سول عدالتوں سے ہر مقدمے میں بریت یا ضمانت مل رہی ہے، انہیں فوجی عدالتوں کے سپرد کر دیا جائے گا۔

    آئینی ترامیم کے پہلے راؤنڈ میں تو بظاہر پی ٹی آئی کی جیت ہوئی اور فضل الرحمان کے آئینی ترامیم کا مسودہ مسترد کرنے اور منظوری کی حمایت سے دو ٹوک انکار کے بعد کچھ دن یہ معاملہ دب گیا۔ اسی دوران صدر مملکت کے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کی منظوری دے دی جو حیران کن طور پر اسی قانون سازی کی نفی ہے، جس کی موجودہ حکمرانوں نے گزشتہ سال پی ٹی ایم کی حکومت میں منظوری دی تھی جب کہ قومی اسمبلی سمیت وفاقی حکومت اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے حکومتوں کے زیر سایہ صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز نے الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر عملدرآمد کا خط لکھ کر ایک اور لڑائی کا میدان کھول دیا ہے بلکہ حقیقت میں تو مولانا فضل الرحمان کی ویٹو کی پوزیشن ختم کرنے کی کوشش ہے، کیونکہ سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے سے جہاں حکومت کی دو تہائی اکثریت ختم ہوگئی تھی اور مولانا کی 8 نشستوں کی قدر وقیمت بڑھ گئی تھی۔ اب ان خطوط پر عملدرآمد کی صورت میں جہاں حکومت کو واپس دو تہائی اکثریت مل سکتی ہے وہیں مولانا کے نہ ماننے کی صورت میں ان سے کنارا بھی کیا جا سکتا ہے، جب کہ پی ٹی آئی کا ایوان سے صفایا ہوسکتا ہے۔

    مولانا فضل الرحمان کا سیاست میں کردار کچھ جماعتوں کے نزدیک متنازع رہا ہے اور ماضی میں وہ اکثر ہر حکومت کے پشتی بان کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اسی لیے وہ بالخصوص اپنے اپنے وقت کی اپوزیشن جماعتوں کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ تاہم پہلے حکومت کا حصہ نہ بن کر انہوں نے اپنے ناقدین خاص طور پر پی ٹی آئی کو حیران کیا اور اب آئینی ترامیم پر تمام تر پرکشش حکومتی پیشکشوں کے باوجود اب تک ہاں کی اقرار نہ کرنے سے ان کا سیاسی قد جو پہلے ہی بلند ہے، مخالفین کی نظر میں بھی بلند ہوگیا ہے اور وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ان کی مولانا کے بارے میں ماضی میں جو رائے تھی، وہ غلط تھی۔ اس معاملے کے ذریعے پی ٹی آئی اور جے یو آئی میں جو دوریاں ہوچکی تھیں وہ بھی قربت میں تبدیل ہو رہی ہیں، جو ملکی سیاست کے لیے اچھا شگون کہا جا سکتا ہے۔

    اس آئینی ترامیم میں ایسا کیا ہے کہ جس کی منظوری کے لیے حکومت اور اس کے حمایتی اپنا پورا زور لگا رہے ہیں، تو پی ٹی آئی اس کی شدید مخالفت کر رہی ہے۔ میڈیا پر اس حوالے سے جو بھی مسودے گردش کر رہے ہیں ان کے بارے میں حکومتی وزرا خود کہہ چکے ہیں کہ وہ اصل نہیں۔ اصل کیا ہے شاید یہ حکومت کو بھی علم نہیں، یا پھر کچھ خاص کو ہی علم ہے لیکن ایک بات جو اب سیاسی رہنماؤں بالخصوص بلاول بھٹو اور پی پی رہنماؤں نے کہنا شروع کر دی ہے، کہ وہ آئینی عدالت قائم کر کے رہیں گے کیونکہ ملک میں عوام انصاف کے لیے رُل رہے ہیں لیکن عدالتوں کو سیاسی مقدمات نمٹانے سے فرصت نہیں۔

    بات اس حد تک تو درست ہے، لیکن باقی میڈیا میں زیر گردش مصدقہ وغیر مصدقہ مسودے کے مطابق اگر آئینی عدالت میں چیف جسٹس کا تقرر وزیراعظم کرے اور وہ چیف جسٹس آف پاکستان کہلائے۔ سپریم کورٹ کو اس کا ماتحت کر دیا جائے اور اس کا چیف صرف چیف جسٹس سپریم کورٹ کہلائے جب کہ اس کی تقرری بھی آئینی عدالت کا چیف جسٹس کرے۔ ہائی کورٹ کے ججز کا کہیں بھی تبادلہ کر دیا جائے اور جہاں ان کا تبادلہ ہو وہاں وہ چیف جسٹس نہیں بن سکتے، سمیت ایسے کئی مجوزہ اقدامات بتاتے ہیں کہ اگر کام ٹھیک بھی ہے تو کرنے کی نیت ٹھیک نہیں ہے اور کسی بھی عمل کی صداقت کا پیمانہ تو نیت پر ہی منحصر ہوتا ہے۔

    سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کی منظوری کے شور میں چند روز یہ معاملہ دبا رہنے کے بعد اب دوبارہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں اطراف سے فضل الرحمان کی جانب سے ان کے موقف کی حمایت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے جب کہ فضل الرحمان کی حال ہی میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو نے بھی کچھ ابہام پیدا کر دیا ہے تاہم جے یو آئی رہنماؤں نے واضح کیا ہے کہ ان کی جماعت اس معاملے پر کسی کے ساتھ نہیں اور جو بھی ملک وقوم کے لیے بہتر ہوگا وہی فیصلہ کریں گے لیکن ایک بات اب ابھی دہرائی گئی ہے کہ جے یو آئی کو آئینی ترامیم کا مسودہ اب تک نہیں ملا جب کہ چالیس ترامیم میں سے صرف ایک ترمیم کے بارے میں فضل الرحمان کو آگاہ کیا گیا ہے۔

    ماہر قانون عابد زبیری نے تو انکشاف کیا کہ آئین کے آرٹیکل 190 کے مطابق سپریم کورٹ کے جو احکامات ہیں سب اس کو ماننے کے پابند ہوں گے۔ وہاں سے حکومت نے سپریم کورٹ کا لفظ ہی نکال دیا ہے اور اس کی جگہ وفاقی آئینی عدالت لکھ دیا گیا ہے یعنی سپریم کورٹ اس ترمیم کی منظوری کے بعد ایک ماتحت عدالت گی اور آئینی عدالت کے فیصلوں کو سپریم کورٹ کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔ ان ترامیم کے بعد سپریم کورٹ کی حیثیت ایک سول کورٹ جیسی رہ جائے گی، جس کے چیف کی حیثیت بھی سول کورٹ کے جج جتنی ہوگی۔ وفاقی آئینی عدالت کی موجودگی میں سپریم کورٹ میں صرف چھوٹے موٹے دیوانی فوجداری جیسے مقدمات نمٹائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹس کے پاور اور اختیارات کو بھی ختم کردیا گیا ہے، ترمیمی مسودے کے مطابق ہائی کورٹس نیشنل سیکیورٹی کے مسائل بھی نہیں حل کرسکے گا۔ قانونی ماہرین کے مطابق آئینی ترامیم میں وفاقی آئینی عدالت کے جج کی عمر 68 سال ہوگی اور سپریم کورٹ کے تین سینئر ججز میں سے کسی کا بھی تقرر چیف جسٹس کیا جا سکے گا۔

    کچھ قانونی ماہرین آئینی عدالت کو انتہائی ضروری بھی قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے 50 سے زائد ترقی یافتہ ممالک میں آئینی عدالتیں موجود ہیں، لیکن جہاں ہر معاملے پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی جانے لگے تو پھر ہر تبدیلی پر شکوک اور انگلیاں تو اٹھتی ہیں۔

    26 ویں آئینی ترمیم منظور ہوتی ہے یا نہیں، یہ تو ابھی زیر بحث ہے۔ لیکن توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کا نظام انصاف اس وقت عالمی سطح پر 130 ویں نمبر پر ہے اور وہ نچلے چند نمبروں سے ہی اوپر ہے۔ ایسے میں انصاف کو سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے درمیان پنڈولم بنا دینے سے پاکستان کے حصے میں مزید جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس اہم مسئلے پر انا اور سیاسی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر یکجا ہوں اور آئینی ترامیم کا ایسا پیکیج لائیں جس سے کا کوئی فریق نشانہ بھی نہ ہو اور عوام کو بروقت انصاف بھی مل سکے، لیکن پاکستان کے سیاسی ماحول میں کیا ایسا ممکن ہو سکے گا۔

    نوٹ: (یہ مصنف کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی تحریر ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے)

  • ذاکر نائیک کی آمد اور سوشل میڈیا پر جنگ

    ذاکر نائیک کی آمد اور سوشل میڈیا پر جنگ

    بات تلخ ہے لیکن اس تلخیوں بھرے معاشرے کی حقیقت ہے۔ لوگ شاید یہ سوچتے ہوں کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سننا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا سچ میں وہ نائیک کو سننے کے لیے انھیں خوش آمدید کہہ رہے ہیں؟

    سوشل میڈیا پر میں نے 100 کے قریب پوسٹوں کا بہ غور مطالعہ کیا۔ مجھے یہ نتیجہ ملا کہ وہ انھیں سننا نہیں چاہتے، بلکہ ان کے ذریعے اپنے عقائد کی سر بلندی چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مخالف عقائد کا ابطال ہو، ان کی تذلیل ہو۔ جو مخالف عقائد والے ان کی آمد کے خلاف ہیں، وہ انھیں اس لیے نہیں مسترد کر رہے ہیں کہ وہ ان کے عقائد کو کسی نئی اور بڑی دلیل کے ساتھ غلط قرار دیں گے۔ بلکہ اس لیے کہ ان کی آمد سے مقامی سطح پر جاری مسلکی چپقلش کو مزید ہوا ملے گی، اور ان کی تذلیل کا نیا موقع تخلیق ہوگا۔

    ہر دو طرف کے لوگ یہ جانتے ہیں کہ نائیک کے پاس کوئی نئی دلیل نہیں ہے۔ وہ در حقیقت دلیل کا آدمی ہے ہی نہیں، وہ حوالہ جات کا آدمی ہے۔ اس لیے جہاں دلیل ’تخلیق‘ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں حوالہ غیر متعلقہ ہو جاتا ہے۔ چناں چہ ایسے کئی معاملات ہیں جہاں ذاکر نائیک کے غیر متعلقہ حوالہ جات مضحکہ خیز حد تک صورت حال کو خراب کر دیتے ہیں، اور مذہبی منافرت کو ہوا ملتی ہے۔

    اب اس سارے پس منظر کو دیکھیں تو ایک اہم نکتہ سامنے آتا ہے۔ یہ افراد اپنی دینی تربیت میں تو جیسے ہوں گے، ہوں گے؛ ان کی ثقافتی تربیت نہیں ہو سکی ہے۔ جدید دنیا میں ملازمین کو ثقافتی آگاہی کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ثقافت اور سوچ اور فکر والے افراد کے ساتھ بہتر طور پر کام کر سکیں اور کام کے حوالے سے بہتر نتائج حاصل ہو سکیں۔

    طلبہ کی ثقافتی تربیت پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے تاکہ وہ نسل، جنس، مذہب، فکر اور رائے کے اختلاف کی نوعیت سمجھتے ہوئے، مل کر درپیش چینلجز سے نمٹنا سیکھ سکیں۔ ذاکر نائیک کی آمد کا مذکورہ تنازعہ اکثر تنازعات کی طرح ثقافتی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ یعنی ایک دوسرے کے عقائد اور رائے اور خیالات کو بے رحمی سے مسترد کرنا۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ مہمان کی آمد کے ساتھ اس بے رحمی میں اضافے کا بھرپور خدشہ ہے۔
    ثقافتی تربیت کی عدم موجودی کے باعث انسان کے سماجی رویوں میں بہتری اور ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔ اور اس تربیت کی مدد سے مختلف لوگوں کے متنوع نقطہ نظر اور پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور ان کو سراہنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے کیوں کہ غلط فہمیوں کا امکان کم سے کم ہو جاتا ہے۔

    ایک فریق اور بھی ہے، جو مذہب بے زار ہے، جس کی رائے ہے کہ ذاکر نائیک جیسے مہمان اس ملک سے دور رہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا انھیں پاکستان آنا چاہیے؟ وہ نائن الیون کے بعد امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، اور برطانیہ کے دورے کر چکے ہیں۔ پانچ اور دس سالہ ویزے ملے انھیں۔ 2006 میں ویلز میں بھی ایک قدامت پسند رکن پارلیمنٹ نے ان کی آمد پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن پھر یہ تسلیم کیا گیا کہ ذاکر نائیک مذاہب کے درمیان مماثلت پر بات کرتے ہیں اور غیر متنازعہ افراد میں سے ایک ہیں۔ کسی بھی شخص پر صرف اس لیے پابندی نہیں لگائی جا سکتی کہ اس کی رائے دوسرے لوگوں کو ناگوار لگتی ہے۔ اب برطانیہ اور کینیڈا میں مخصوص گروپس کے دباؤ کی وجہ سے ان پر پابندی عائد ہے۔

    اس قضیے کا ایک اہم ترین سوال سیاسی ہے۔ اگلے مہینے کے ابتدائی ہفتے میں ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم کا دورہ پاکستان متوقع ہے، اور انھی دنوں ملائیشیا ہی میں مقیم ذاکر نائیک بھی پاکستان آ رہے ہیں۔ یہ سیاسی گٹھ جوڑ ہی اس قضیے کا بڑا سوال ہے۔ اسے اس پسِ منظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برسوں میں نائیک کو ملائیشیا میں بہت اثر و رسوخ حاصل ہوا ہے، کچھ لوگ اگر ان کی موجودی کو مسلمانوں کے لیے خیر کا باعث سمجھتے ہیں تو کچھ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ملائی مسلم برتری کے کمپلیکس میں اضافہ کیا ہے۔ یوں اگر اعلان نہ بھی کیا جاتا ہے تو انھیں پاکستان میں ایک اسٹیٹ گیسٹ کی حیثیت حاصل ہوگی۔

    یہاں مختلف عقائد کے افراد سوشل میڈیا پر نائیک کے آنے پر لڑ رہے ہیں، بہ ظاہر یہ اختلاف اور لڑائی سادہ نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نائیک کی آمد کا تمام قضیہ ہی ایک ڈسکورس ہے۔ جس میں ایک بار پھر سیاست اور مذہب بغل گیر ہیں۔

    (یہ تحریر مصنّف کی ذاتی رائے اور‌ خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے)
  • حکومت کی آمدنی بڑھانے کے چند مفید نسخے

    حکومت کی آمدنی بڑھانے کے چند مفید نسخے

    ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہ ہونے پر ایک بار پھر منی بجٹ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ اور غالب امکان یہی ہے کہ منی بجٹ کی صورت مہنگائی کا ایک اور بم پاکستان کے غریب عوام پر گرا ہی جاتا ہے۔

    وہ ملک اور ہوتے ہیں جہاں بجٹ عوام کے مفاد میں بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ہر بجٹ عوام کے نام پر بنایا جاتا ہے، لیکن اس میں صرف اعلان اور نام کی حد تک عوام کا مفاد ہوتا ہے۔ ان بجٹوں میں اعداد و شمار کا گورکھ دھندا دکھا کر عوام کو ہی پیس دیا جاتا ہے۔ ہمارا سالانہ بجٹ ہو یا وقفے وقفے سے آنے والے منی بجٹ، حقیقت میں نئے ٹیکسز عائد کرنے کے پروانے ہوتے ہیں۔

    اطلاعات کے مطابق حکومت کو ابھی سے مالی سال کے اختتام پر ٹیکس ہدف پورا نہ ہونے کا خوف سوار ہے، جس کا اشارہ ستمبر میں 150 ارب روپے کے شارٹ فال سے مل رہا ہے۔ حکومت نے اسی خطرے کے پیش نظر ایک کھرب روپے کا منی بجٹ لانے کی تیاری شروع کر دی ہے، جس میں سیلز ٹیکس استثنیٰ ختم اور ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے۔

    ہمیشہ کی طرح امید نہیں بلکہ 100 فیصد یقین ہے کہ اس بار بھی ٹیکس کا نزلہ پاکستان اس غریب اور تنخواہ دار طبقے پر ہی گرے گا، جس کی حالت پہلے ہی سالانہ بجٹ اور حکومتی اقدامات نے ’’آمدنی اٹھنی اور خرچہ روپیہ‘‘ کے مترادف کر دی ہے، اور اس کا پیدا ہونے والا بچہ بھی پیدائشی لگ بھگ تین لاکھ روپے کا مقروض پیدا ہو رہا ہے۔ دوسری جانب امیر تو پہلے ہی ٹیکس کیا قرضے تک ڈکار جاتے ہیں۔ امرا اور اشرافیہ اول تو ٹیکس دیتے نہیں، اگر دیتے بھی ہیں تو وہ ان کی دولت کے مقابلے میں ایسا ہی ہے جیسے کہ آٹے میں نمک، بلکہ شاید اس سے بھی کم۔

    اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ریاستیں عوام کے ٹیکس سے ہی چلتی ہیں، مگر ان ٹیکسز سے اس ملک کے عوام کو ہی فائدہ پہنچایا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں اس کا الٹ ہے۔ عوام 40 کے قریب مختلف ٹیکس در ٹیکس دے کر بھی اپنی جان و مال کی حفاظت، تعلیم، صحت، صفائی کا بندوبست خود کرنے پر مجبور ہیں۔ بجلی بیچ کوئی اور رہا ہے، لیکن سیلز اور انکم ٹیکس عوام سے وصول کیا جا رہا ہے اور یہ مہذب دنیا میں عوام سے کیا جانے والا شاید سب سے سنگین اور رنگین مذاق ہے۔ لیکن کیا کریں کہ ہماری قوم بھی بوجھ تلے دب، دب کر اب اس کی عادی ہو گئی ہے اور حکمرانوں کو بھی احساس ہوچکا ہے کہ نام کی زندہ دل قوم، اندر سے اتنی سکت بھی نہیں رکھتی کہ خود اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھا سکے۔ جب کہ وہ لوگ جو ٹیکس دینے میں بخیل ہیں وہ لاکھوں تنخواہ کے ساتھ مذکورہ مراعات مفت میں حاصل کرتے ہیں اور یہی اس ملک کا المیہ ہے۔

    درجن بھر ظاہر اور مخفی ٹیکسوں سے لبالب بجلی بلوں پر شاید اب ایک یہی ٹیکس باقی رہ گیا ہے کہ جو پرندے آزادانہ اس کے تاروں پر بیٹھنے کی جرات کرتے ہیں اس کا کرایہ بھی وصول کیا جائے، کہ جب زمین پر بے زبان انسانوں کو کوئی چھوٹ نہیں تو پھر آسمان پر اڑتے بے زبان کیوں اس رعایت سے مستفید ہوں۔ بس طے یہ کرنا ہوگا کہ یہ کرایہ کس طور وصول کیا جائے۔ آیا کہ جس گھر کے تار کے آگے پرندے بیٹھیں گے، اس کا کرایہ اسی صارف سے وصول کیا جائے یا جس طرح بجلی چوری اور شارٹ فال کا لوڈ صارفین پر مشترکہ ڈالا جاتا ہے، اسی ترکیب کو بروئے کار لایا جائے۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ قوم اس ٹیکس کو بھی بہ رضا و رغبت قبول کر لے گی اور کچھ نہیں کہے گی، کیونکہ جب وہ بغیر پی ٹی وی دیکھے، ریڈیو سنے اور اپنے خرچ پر گھر اور محلے کی صفائی کرانے کے باوجود یہ تمام ٹیکسز دے سکتی ہے تو پرندوں کے تار پر بیٹھنے کا ٹیکس تو خدمتِ بے زباں کے جذبے سے سرشار ہو کر ہنستے کھیلتے دے دے گی۔

    دوبارہ آئیں منی بجٹ کی نعمت مترقبہ کی جانب، تو اب تک حکومت کے معاشی ماہرین سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہوں گے کہ اب کون سے ایسے گوشے رہ گئے ہیں جہاں نئے ٹیکس لگائے جائیں جو جونکوں کی مانند عوام کا خون مزید چوس سکیں۔ اس کے لیے ہم حکومت کی مدد کر دیتے ہیں، امید ہے کہ حکومت کے زرخیز ذہن اس پر توجہ مبذول کرتے ہوئے قابل عمل بنانے کی راہ ڈھونڈ لیں گے، کیونکہ جہاں ان کا فائدہ اور عوام کی عار کا معاملہ ہو تو سب مل جل کر راہ نکال ہی لی جاتی ہے۔

    اب آجاتے ہیں اصل بات کی طرف کہ حکومت کی آمدنی کیسے بڑھائی جائے۔ قدرت نے ایسے بیش بہا خزانوں سے پاکستان کو مالا مال کیا ہے اور عوام اب تک مفت میں ان خزانوں سے مستفید ہو رہی ہے۔ ان نعمتوں میں چند ایک یہ ہیں، جن پر ٹیکس لگا کر عوام کو لگام اور حکومتی خزانے کو بھرا جا سکتا ہے۔ عوام پر سال کے 10 ماہ چمکتے دمکتے سورج سے مستفید ہونے اور سولر چلانے، فرفر چلتی ہوا سے لطف اندوز ہونے اور سانس لے کر زندہ رہنے پر ٹیکس عائد کر دیا جائے۔ سردی میں دھوپ سینکنے، گرمی میں بارش سے پانی سے نہانے، چاند کی چاندنی سے محظوظ ہونے، لوڈشیڈنگ کے دوران اچانک بجلی اور گیس آ جانے پر حاصل ہونے والی خوشی پر بھی ٹیکس لگایا دیا جائے۔

    بجلی لوڈشیڈنگ کے دوران جب لوگ گرمی سے بچنے کے لیے خودکار دستی پنکھے جھلتے ہیں تو وہ مفت میں ورزش کرتے ہیں۔ جب حکومت مفت کی کوئی بھی سہولت غریب عوام پر حرام بنانے پر تُل گئی تو پھر اس بے مول ورزش پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے۔ ٹیکسز اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبنے کے باوجود ڈھیٹ عوام زندہ کس طرح ہے، اس کی زندگی پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے کہ لاہور میں مرنے کے بعد قبروں پر ٹیکس تو پہلے ہی لگ چکا ہے۔
    ٹیکس تو مزید کئی دیگر معاملات پر بھی لگائے جا سکتے ہیں، لیکن حکومت نے اس منی بجٹ کے بعد اگلا منی بجٹ بھی کچھ ماہ بعد پیش کرنا ہوگا تو کچھ مشورے اگلے مرحلے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ یقین ہے کہ جس طرح قانونی موشگافیاں کرتے ہوئے ہمارا حکمراں طبقہ ہر مسئلے کا حل نکال لیتا ہے اور مرضی کی قانون سازی کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وہ ان ٹیکسوں کو نافذ کرنے میں کوئی بھی تُک بندی کر کے کامیاب ہوسکتا ہے، بس اس کے لیے صرف تھوڑا سا مزید بے حس اور آنکھوں سے شرم ختم کرنا ہوگی۔

  • امریکا میں بنیادی شرح سود میں کمی اور پاکستان

    امریکا میں بنیادی شرح سود میں کمی اور پاکستان

    19 ستمبر کو امریکی مرکزی بینک یعنی فیڈرل ریزو نے اپنی بنیادی شرحِ سود جس کو بینکاری اصلاح میں پالیسی ریٹ بھی کہتے ہیں، میں کمی کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی پاکستان سمیت متعدد ملکوں کی اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی دیکھنے میں آئی۔ پاکستان اسٹاک ایکس چینج جہاں مارکیٹ چند ہفتوں سے تیزی اور مندی کے درمیان ہچکولے کھا رہی تھی، اس میں زبردست تیزی دیکھنے میں آئی اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بھی جشن کا سماں رہا۔

    امریکی مرکزی بینک فیڈرل ریزو نے سال 2020ء کے بعد پہلی مرتبہ اپنی بنیادی شرحِ سود یا پالیسی ریٹ میں کمی کی ہے۔ ادارے نے اپنے مانیٹری پالیسی بیان میں کہا کہ بنیادی شرحِ سود آدھا فیصد کم کردی ہے۔ اور پالیسی ریٹ 5 فیصد کی سطح پر آگیا ہے۔ فیڈرل ریزو نے نہ صرف بنیادی شرح سود میں کمی کا اعلان کیا ہے بلکہ مستقبل میں بھی اس میں کمی لانے کی توقع ظاہر کی ہے۔ فیڈرل زیرو کے مطابق رواں سال 2024ء کے اختتام تک امریکا پالیسی ریٹ مزید اعشاریہ چھ فیصد کمی سے 4.4 فیصد اور سال 2025ء میں مزید ایک فیصد کم ہوکر 3.4 فیصد ہوجائے گا۔ یعنی مرکزی بینک سال 2025 تک پالیسی ریٹ میں 2.1 فیصد تک کی کمی کرنے کا عندیہ دے رہا ہے۔ امریکا میں معاشی سست روی اور طلب میں کمی کے بعد مرکزی بینک نے بنیادی شرحِ سود میں کمی کی ہے۔

    سال 2008ء میں آنے والے مالیاتی بحران کے بعد امریکا میں اشیاء کی طلب تیزی سے کم ہوئی تھی۔ اور کم ہوتی اس طلب کی وجہ سے امریکا میں افراطِ زر یا سی پی آئی انفلیشن بھی تیزی سے کم ہوا تھا۔ اور خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ امریکا میں ڈیفلیشن کا عمل نہ شروع ہوجائے۔ معیشت کو سہارا دینے کے لئے فیڈرل ریزو نے بنیادی شرحِ سود صفر کے قریب کر دی تھی۔ اور سال 2008ء سے 2019ء تک یہی صورتِ حال رہی۔ کورونا وبا اور پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روز گاری میں اضافہ ہوا جس پر امریکا سمیت تقریباً تمام ممالک میں حکومتوں نے عوام کو مالیاتی ریلیف دیا۔ مگر معاشی سرگرمیاں اور انسانی محنت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے اس اضافی سرمائے نے لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد نہ صرف امریکا بلکہ تمام امیر اور ترقی پذیر ملکوں میں مہنگائی کا ایسا سیلاب برپا کیا جس سے افراطِ زر یعنی اضافی سرمائے کی وجہ سے عام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا۔ پاکستان میں افراطِ زر 40 فیصد تک پہنچ گیا جبکہ امریکا میں افراطِ زر 4 سے 5 فیصد تک پہنچ گیا۔ جس کو کم کرنے اور اضافی سرمائے کو جذب کرنے کے لئے پالیسی ریٹ میں اضافہ کیا گیا۔ امریکا میں 5.5 فیصد جبکہ پاکستان میں 21.5 فیصد تک بڑھایا گیا۔ اس عمل کے تنائج آنے میں وقت لگا پاکستان میں بھی دو مرتبہ کمی کے بعد اس وقت بنیادی شرح سود 17.5 فیصد ہوگئی ہے جبکہ سی پی آئی انفلیشن 10 فیصد سے کم ہوگیا ہے۔

    امریکا اور پاکستان میں پالیسی ریٹ میں کمی سے سرمایہ کاروں اور کاروبار کرنے والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جمعرات کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی دیکھی گئی اور کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس 82 ہزار پوائنٹس کی سطح کو چھو گیا۔ اور تیزی کا یہ سلسلہ جمعے کے روز بھی جاری رہا۔ کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا۔
    اسی طرح زرمبادلہ مارکیٹ میں بھی روپے کی قدر میں بہتری دیکھی گئی ہے۔ جمعرات کو پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر کم ہو گئی اور ڈالر 24 پیسے سستا ہوکر 277 روپے 80 پیسے کا ہو گیا۔

    بجلی کی قیمت میں کمی:
    مقامی اور امریکی بنیادی شرح سود میں کمی سے پاکستان میں بجلی سستی ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ آئی پی پیز کے معاہدے کے تحت ایک یونٹ بجلی کی پیداواری قیمت میں امریکی سی پی آئی انفلیشن، امریکی شرح سود، پاکستان میں سی پی آئی انفلیشن اور مقامی اور امریکا میں بنیادی شرح سود کو شامل کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے جب امریکا میں پالیسی ریٹ میں اضافہ ہو یا مہنگائی بڑھے تو دونوں صورتوں میں پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کی تحقیق کے مطابق سال 2019 سے 2024 بجلی کا ٹیرف تین گنا مہنگا ہوگیا تھا۔ جس کے دوران امریکا میں ہونے والی مہنگائی یا انفلیشن کی شرح 4 فیصد تھی جس کی وجہ سے فی یونٹ قیمت میں 235 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ پاکستان کے اندر افراط زر کی وجہ سے بجلی کے ٹیرف کی قیمت میں 98 فیصد کا اضافہ ہوا۔ پاکستان میں اس دوران بنیادی شرح سود بلند ترین سطح پر رہی۔ مقامی اور درآمدی کوئلہ بھی مہنگا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے بجلی کے ٹیرف میں ورکنگ کیپٹل لاگت 716 فیصد بڑھ گئی۔ ریٹرن آن ایکویٹی میں 184 فیصد، قرض کی اصل رقم کی ادائیگی پر 169 فیصد اور ملکی غیر ملکی قرض پر سود میں 343 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

    اب چونکہ امریکا میں پالیسی ریٹ، افراط زرکم ہوگیا ہے۔ ساتھ ہی پاکستان میں بھی افراط زر کے بعد پالیسی ریٹ بھی کمی کی جانب گامزن ہے تو توقع یہی ہے کہ آنے والے چند ماہ میں پاکستان کے اندر بلوں میں لگنے والے کیپسٹی چارجز میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔

    مقامی اور غیر ملکی قرضوں پر سود میں کمی:
    بلند ترین پالیسی ریٹ کی وجہ سے حکومت کو قرضوں پر سود کی ادائیگی ایک ایسا بوجھ بن گئی تھی جسے سہارا دینا حکومت کے لئے مشکل ہورہا تھا۔ اور قرض پرسود کی ادائیگی دفاعی بجٹ اور ترقیاتی بجٹ سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ جس کی وجہ سے حکومت کی مالیاتی صورتحال مخدوش ہورہی تھی۔ فیڈرل یرزو کے بنیادی شرح سود میں کمی کے اعلان سے پاکستان کے غیر ملکی قرضوں پر سود میں کمی کے امکانات ہیں۔ اسی طرح اسٹیٹ بینک کی جانب سے بھی پالیسی ریٹ میں 3 فیصد کی کمی کے ساتھ بنیادی شرح سود 17.5 فیصد کردی گئی ہے۔ اس سے مقامی کرنسی میں لئے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی میں ریلیف ملے گا۔

    پاکستان کی برآمدات میں بہتری:
    امریکا میں افراط زر کی وجہ سے لوگ ملازمتوں سے محروم ہورہے تھے۔ اور مہنگائی کی وجہ سے روز مرہ کے اخراجات میں مشکلات کا سامنا تھا۔ جس کی وجہ پاکستان سمیت امریکا اور مغربی ملکوں کو اشیا برآمد کرنے والے ملک مشکلات کا شکار تھے۔ اب پالیسی ریٹ میں کمی سے امریکی عوام اپنے اخراجات کو بڑھائیں گے اور عام استعمال کی اشیاء کی خریداری بڑھے گی جس سے پاکستان سمیت متعدد ملکوں میں معاشی سرگرمی میں اضافے کا امکان ہے۔

    انٹرنیشنل مارکیٹ سے قرض:
    امریکا میں پالیسی ریٹ میں اضافے کے بعد سے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں نے بڑے پیمانے پر ڈالر میں سرمایہ کاری کی تھی۔ جس کی وجہ پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں مالیاتی رسک موجود ہے کو انٹرنیشنل قرضہ مارکیٹ سے سرمائے کے حصول میں مشکلات کا سامنا تھا۔ مگر اب چونکہ ریٹنگ ایجنسیاں پاکستان کی ریٹنگ کو بہتر کررہی ہیں تو دوسری طرف سرمایہ کار اور رسکی سرمایہ کاروں کے ساتھ زیادہ منافع کمانے کی خاطر پاکستان اور اس جیسے ملکوں میں سرمایہ کاری کے رجحان میں اضافہ ہوگا اور پاکستان ماضی کی طرح اچھے ریٹس پر قرضہ حاصل کرسکے گا۔

    امریکا میں پالیسی ریٹ کم ہونے سے پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ملکوں کی معیشت میں بہتری کے امکانات روش ہوئے ہیں۔ اور عالمی سطح پر معیشت میں بہتری ہو رہی ہے جس سے پاکستان کو معاشی میدان میں سانس لینے کا موقع مل سکتا ہے۔

  • زخم کاری-انتقام (سیزن3)

    زخم کاری-انتقام (سیزن3)

    ایرانی سینما بہت مضبوط رہا ہے اور عالمی سطح پر خاصی شہرت رکھتا ہے، لیکن ڈرامے کی صنعت اور اب ویب سیریز کے تناظر میں ابھرتی ہوئی نئی صنعت میں ایران دھیرے دھیرے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ ویب سیریز زخم کاری- انتقام (سیزن تھری) ایران سمیت دنیا بھر کے کئی اسٹریمنگ پورٹلز پر دیکھی جارہی ہے۔ اس کی یہ مقبولیت ایران کی ڈرامہ اور ویب سیریز کی پسندیدگی کی ایک مثال ہے، لیکن ابھی ایران کو اس میڈیم کی مختلف اور نئی اصناف میں آگے آنے کے لیے مزید محنت کرنا ہو گی، جس کی ابتدا ہو چکی ہے اور ویب سیریز زخم کاری اسی کی ایک عملی تصویر ہے۔

    مرکزی خیال/ کہانی

    بنیادی طور پر اس کہانی کا مرکزی خیال، برطانوی کلاسیکی ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کے مشہور زمانہ ناٹک میک بیتھ سے لیا گیا ہے۔ اس ناٹک کو ناولٹ کی شکل دینے والے معروف ایرانی ادیب محمود حسینی زاد ہیں، جنہوں نے انتہائی مہارت سے اس کہانی کو ایران کے پس منظر میں عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالا۔ وہ پیشہ ور مترجم بھی ہیں۔ انہوں نے عہدِ حاضر میں جرمن ادب کو فارسی زبان میں منتقل کیا ہے، اور ان ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں جرمنی کا معتبر اعزاز گوئٹے میڈل دیا جا چکا ہے۔

    اس ڈرامے کی کہانی محبت، کاروبار، دولت اور جرائم جیسے موضوعات کے اردگرد گھومتی ہے۔ اس میں ایک ایسے خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو تجارت اور کاروبار سے وابستہ ہے اور کس طرح رشتے داریوں میں نشیب و فراز آتے ہیں۔ ایک طرف محبت اور دولت کے حصول کی کوشش تو دوسری طرف قربانیوں اور محرومیوں کی المناک داستان ہے۔

    اس کہانی میں ایران کا موجودہ ثقافتی منظر نامہ بھی دکھائی دیتا ہے، وہاں کا سماج اور معاشرتی رویے بھی، جن کی مدد سے آج کے ایران کو براہ راست سمجھا جا سکتا ہے۔

    ویب سازی و دیگر لوازمات

    ایرانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے ابھرتے ہوئے فلم ساز محمد حسین مہدونی نے اپنے کیریئر کا پہلا ڈرامہ و ویب سریز تخلیق کی ہے۔ اس سے پہلے وہ فیچر فلمیں بناتے رہے ہیں۔ نئی فلمی صنعت میں ان کی بہت مانگ ہے۔ وہ باصلاحیت بھی ہیں، جس کا اندازہ ان کے تخلیقی سفر کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ اس ویب سیریز کے تین سیزن بالترتیب نمائش کے لیے پیش کیے جا چکے ہیں، جن میں 2021 اور 2023 میں دو سیزن اور تیسرا سیزن رواں برس ریلیز کیا گیا ہے۔ عصرِ حاضر میں یہ ایران کے ہوم ٹیلی ویژن پر سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ڈرامہ ہے اور مختلف آن لائن اسٹریمنگ پورٹلز پر بھی لاکھوں کی تعداد میں ناظرین اسے دیکھ چکے ہیں۔

    اس ویب سیریز کی ہدایت کاری اچھی ہے مگر اس میں مزید بہتری کی گنجائش نظر آتی ہے۔ بہت سے فریم ایک جیسے ہیں، جس سے یکسانیت کا تاثر ابھرتا ہے، البتہ آؤٹ ڈور مناظر کافی اچھی طرح فلمائے گئے ہیں۔ سینماٹو گرافی، لائٹنگ، کاسٹیوم اور ایڈیٹنگ اور دیگر شعبوں میں اچھا کام ہوا ہے، لیکن کہانی کی رفتار تھوڑی اور بڑھا کر پیش کرتے تو شاید یہ کہانی مزید توجہ حاصل کرتی۔ بہرحال، اس کے باوجود کہانی ناظرین کو جکڑ لیتی ہے، جس کا کریڈٹ ہدایت کار کی بجائے کہانی نویس اور اداکاروں کو جاتا ہے، جنہوں نے اپنے کام سے بھرپور انصاف کیا ہے۔

    اداکاری و موسیقی

    اس ویب سیریز کے سب سے مضبوط حصے اداکاری اور موسیقی ہیں۔ یہ سیزن، جس کو تیسرا سیزن کہا گیا ہے، اس میں شامل اداکاروں نے اپنے کرداروں سے خوب انصاف کیا۔مرکزی کردار نبھانے والے جاوید عزتی (ملک مالیکی) پوری کہانی میں چھائے رہے اور بہت شان دار اداکاری کی۔ ان کے ساتھ معاون اداکاراؤں میں رعنا آزادویر (سمیرا بخشی) الہٰی حسیاری (کاظم)، مہرواشرفینیا (پنتیا) کےعلاوہ جاوید ہاشمی، کاظم دیرباز، سعید چنگیزین سمیت سب نے اچھا کام کیا ہے۔ تین سیزن کی کل اقساط 43 ہیں جن کو تین سال میں پیش کیا گیا ہے۔ گزشتہ دو سیزن کو زخم کاری- بازگشت کا نام دیا گیا تھا جب کہ موجودہ سیزن کو زخم کاری- انتقام کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس ویب سیریز کی پسِ پردہ موسیقی، ٹائٹل سونگ بہت شیریں اور سریلے ہیں۔ اس ویب سیریز کے موسیقار حبیب خازئیفر ہیں۔

    حرفِ آخر

    ایرانی سینما کی طرح ڈرامہ اور ویب سازی میں کہانی بیان کرنے کے طریقے پر کافی اچھی طرح کام ہوا ہے، البتہ ویب سازی اور فلمی دنیا میں جتنی جدّت آچکی ہے، ابھی ایران وہاں تک تو نہیں پہنچا، مگر ان کے ہاں کہانی کا عنصر ہمیشہ سے بہت مضبوط رہا ہے۔ اسی لیے ان کی فلمیں اور ڈرامے دیکھے جاتے ہیں۔ اب انہوں نے ویب سازی کی دنیا میں قدم رکھا ہے اور مذکورہ ویب سیریز کو دیکھنے والوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد ایران کے لیے کامیابی کے نئے دروازے کھول رہی ہے۔ آپ اس ویب سیریز کو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے کہیں کہیں ہمیں پی ٹی وی کا کلاسیکی دور بھی یاد آتا ہے۔ یہ ویب سیریز مختلف اسٹریمنگ پورٹلز پر باآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔

  • ترجمے کے حوالے سے دو اہم نکات

    ترجمے کے حوالے سے دو اہم نکات

    کچھ عرصے کے دوران سوشل میڈیا پر اردو تراجم کے حوالے سے وقتاً فوقتاً ایسی آرا سامنے آتی رہی ہیں کہ ایک تاثر تشکیل پاتا ہے جیسے اردو ترجمہ پڑھنا بہ ذات خود ایک کم تر اور پست ذہن کا کام ہو۔ کچھ لوگ انگریزی زیادہ اچھے سے پڑھ لیتے ہیں اور وہ ایک ادائے دل بری سے کہہ دیتے ہیں کہ وہ تو براہ راست انگریزی ہی میں کتاب پڑھنا پسند کرتے ہیں (جیسے اردو ترجمہ پڑھنا ایسا ہو جیسے ہماری زبان میں کچھ پیشوں اور کچھ ذاتوں کو ’نیچ‘ کے درجے پر رکھ دیا گیا ہے)۔ بعض لوگ یہ بھی سمجھ نہیں پاتے کہ جو انگریزی کتاب وہ پڑھ رہے ہیں، وہ انگریزی میں نہیں لکھی گئی، بلکہ خود کسی دوسری زبان سے کیا گیا ترجمہ ہے۔ یعنی مسئلہ ترجمہ نہیں ہوتا، بلکہ انگریزی زبان سے جڑی ’برتری‘ کی غیر منطقی سوچ ہوتی ہے۔ جس نے نفسیات میں گھر کر لیا ہے۔ یہ پوسٹ کولونیل دور کی ایک حقیقت ہے۔ اور قابل ہم دردی بھی۔

    اردو ترجمے سے متعلق عام طور سے ترجمے کے کئی مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ مجھے ان میں سے کسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے، میں ان میں دو مزید اہم نکتے شامل کرنا چاہتا ہوں۔ شاید اسے عام قارئین کے لیے سمجھنا تھوڑا سا مشکل ہو، کیوں کہ اس قسم کی باتیں مخصوص اصطلاحات میں کی جاتی ہیں، تاکہ طویل وضاحتی اقتباسات سے بچا جا سکے، ورنہ ایک ہی بات کے متعدد پہلوؤں کو تفصیلاً بیان کرنا پڑتا ہے۔ میں پھر بھی کوشش کرتا ہوں کہ میری بات سہولت سے سمجھ میں آ سکے۔

    ثقافتی ڈسکورس (کلامیہ): تراجم کے ذریعے ثقافتی ڈسکورس کی منتقلی ممکن ہو جاتی ہے۔ یعنی جس زبان میں ادب لکھا گیا ہے، وہ زبان جس معاشرے میں بولی جاتی ہے، اس معاشرے میں وہ زبان کس طرح اور کیوں معنی سازی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ ایک عام جملہ گرائمر کے اصولوں کی پیروی کرتا ہے، لیکن ایک ڈسکورس جملے اور جملوں کے درمیان ربط سے پیدا ہونے والا ایک نیا معنیٰ ہے، جو زیادہ تر سیاسی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانوی کالونی کے طور پر برصغیر سے متعلق یہ جملہ بہت عام رہا ہے، اور لوگ اسے اپنے مضامین میں کوٹ کرتے رہے ہیں: ’’برصغیر کے عوام ثقافتی اور علمی طور پر پس ماندہ ہیں۔‘‘ اپنے ظاہری معنی میں یہ ایک عام سا جملہ تھا لیکن دراصل یہ کالونیل دور کے ’’آقاؤں‘‘ کا انھیں ’’تہذیب یافتہ‘‘ کرنے کا حیلہ تھا۔ اسی سے جڑا ہوا ایک جملہ اب بھی عام ہے، ’’برصغیر کے عوام آج تک ذہنی غلامی سے آزادی حاصل نہیں کر سکے‘‘ یہ بھی اپنے ظاہری معنی سے کہیں زیادہ معنی اور سیاسی معنی کا حامل جملہ ہے۔ اس کے ذریعے آج کے پوسٹ کالونیل دور کے ’’آقا‘‘ ان افراد پر حملہ کرتے ہیں جو ’’مقامی سامراج‘‘ کو بے نقاب کرتے ہیں اور وہ جواب میں انھیں کبھی ’’مغرب کے پروردہ‘‘ کبھی وطن اور کبھی دین کے ’’غدار‘‘ قرار دیتے ہیں۔

    کسی زبان میں ڈسکورس کی تشکیل کے عمل کو اس زبان کے علم کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا، لیکن ادب ایک ایسی شے ہے جو اپنے ترجمے کی صورت میں ایک اجنبی اور غیر متعلقہ ڈسکورس کو بھی مانوس اور متعلقہ محسوس کرا دیتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے معاشرے کے لوگوں کی سوچ کتنی تہہ دار ہے، وہ اپنی زندگی کے لیے رہنما اصول کس گہرائی کے ساتھ تشکیل دیتے ہیں۔ اگر کوئی اس امر سے واقف ہے کہ ہماری زبان اور ہماری زندگی میں ڈسکورسز کا کتنا عمل دخل اور اثر ہے، وہ تراجم کی اس اہمیت کو بھی بہ خوبی سمجھ سکتا ہے۔ چناں چہ ہمارے درمیان اگر کوئی اچھا مترجم موجود ہے تو اسے مختلف ثقافتوں کے درمیان ایک مذاکرات کار کا درجہ حاصل ہے۔

    معنی کا فہم: مترجمین کے بارے میں بھی بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ لفظ کی بجائے معنی کے فہم تک رسائی کرے؟

    یعنی مصنف نے اگر کسی لفظ کو ڈسکورس بنا کر پیش کیا ہے، تو محض اس کا قاموسی معنیٰ (لغت/ڈکشنری) ترجمے کے عمل کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے تراجم اسی لیے ہمیں بے مزا محسوس ہوتے ہیں۔ اور لگا کرتا ہے جیسے مصنف نے ادب لکھتے ہوئے بھی اس کی زبان کو اُسی کے محاسن سے پاک رکھا ہے۔

    لغت میں مترجم کو متبادل لفظ تو مل جائے گا، لیکن جیسا کہ ساختیات بتاتی ہے کہ معنیٰ کا بھی معنیٰ ہوتا ہے، اگر اس معنی کا فہم حاصل نہیں ہو سکا ہے تو ترجمے کے عمل میں ثقافتی صورت حال ہاتھ سے چھوٹ سکتی ہے۔ ایک عام سے جملے کا ایک عام سا ترجمہ ممکن ہو جاتا ہے، لیکن اس جملے کا ایک معنیٰ تہذیبی اور سیاسی تناظر میں بھی تشکیل پاتا ہے، اس معنی تک پہنچنے کے لیے مترجم کو ڈسکورس کے جدید لسانیاتی اور فلسفیانہ تصور سے شناسائی مددگار ہوتی ہے۔

    اوپر میں نے زبان کے محاسن کی بات کی ہے، اس کا اشارہ کلام کے محاسن کی طرف تھا۔ ہم اپنی گفتگوؤں اور تحاریر میں عموماً اپنے آئیڈیاز پیش کیا کرتے ہیں۔ ادب میں ہم اس مقصد کے لیے کلام کے محاسن سے کام لیتے ہیں اور اس طرح اپنے بیان میں معنی کی ایک سے زائد پرتیں تشکیل دیتے ہیں۔ ان ایک سے زائد اور مختلف پرتوں تک رسائی ترجمے کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ اکثر اسی سبب ترجمہ ناقص قرار پاتا ہے، یا مترجم خود کو ایک مشکل صورت حال میں گرفتار پاتا ہے۔

    معنی کے فہم کے سلسلے میں ایک بنیادی نکتہ تراجم کے ضمن میں عموماً یہ مذکور کیا جاتا ہے کہ معنیٰ ثقافتی تناظر میں تشکیل پاتا ہے۔ اس بات کا صاف مطلب ہوتا ہے کہ مترجم کے پاس ایک لمحے کے لیے بھی اس تناظر سے رشتہ توڑنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ترجمے کے اندر بھی معنی سازی کا عمل متن کی زبان کے اپنے ثقافتی تناظر میں آگے بڑھتا ہے۔ یعنی ترجمہ اگر کسی فکشن کے متن کا ہے تو صرف کہانی ہی منتقل نہیں ہوتی، اس میں موجود ثقافتی، سماجی، معاشی اور سیاسی نظریات کا ایک پیکج بھی ساتھ منتقل ہوتا ہے۔ مترجم اگر ثقافتی یا تہذیبی تصادم جیسے کسی نظریے پر یقین رکھتا ہو، تو اصل میں وہ نقب زن ہے مترجم نہیں۔ اپنے تصادمی سوچ کے باوجود وہ دوسری زبان کے متون میں دل چسپی لے رہا ہے لیکن ترجمے کے عمل میں اسے پورا پیکج قبول نہیں۔ یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ ایک طرف اگر وہ اُس متن کے معنی کے پیکج کو مسترد کرتا ہے تو دوسری طرف عین استرداد کے اُسی لمحے میں وہ معنی کے اس نظام کو منہدم کر کے اپنی پسند کی معنویت تشکیل دے دیتا ہے۔ یعنی معنی کے ایک نظام کا انہدام از خود ایک اور نظام کی تشکیل کے مترادف ہوتا ہے۔ اس طرح تصادمی سوچ ترجمے کے عمل کو مہملیت کا شکار بنا دیتی ہے۔ اس عمل میں موجود ایک حماقت کو صاف دیکھا جا سکتا ہے جو ترجمے کے میدان کو تہذیبوں کے تصادم کا میدان سمجھ کر کارفرما ہوتی ہے۔

    اس تمام قضیے کی جو بنیادی الجھن ہے وہ اس سوال کی صورت میں ہے کہ جس زبان کے متن کا ترجمہ ہدف ہے، کیا وہ برتر زبان ہے؟ کیا ترجمہ اس کے آگے محض حاشیائی اہمیت کا حامل ہے؟ میں نے اس پر ڈی کنسٹرکشن کو متعارف کرانے والے فلسفی ژاک دریدا کی فکر کے تناظر میں جتنا غور کیا ہے، اس کی جڑیں میں نے کسی زبان میں مسلسل آنے والی تبدیلی و ترقی کے عمل میں پیوست پائی ہیں۔ کوئی بھی متبادل لفظ ترجمے کی زبان ہی کا لفظ ہونا چاہیے، اس یونیورسل رعایت کے ساتھ کہ زبانیں مشترک الفاظ کا ایک ذخیرہ بھی رکھتی ہیں۔ زبان کو ایک اصطلاح کی منتقلی کے دوران خود کو وسعت آشنا بنانے کا موقع بھی ملتا ہے۔ جاپانی پروفیسر کے ساتھ ژاک دریدا کی خط و کتابت میں "ڈی کنسٹرکشن” کے جاپانی متبادل پر گفتگو ہوئی اور خود انگریزی و فرانسیسی میں اس اصطلاح کے اندر موجود پیچیدگی زیر بحث آئی، لیکن دریدا کا مؤقف تھا کہ اس کا جاپانی متبادل جاپانی زبان کے اپنے پس منظر میں ہونا چاہیے۔ ایک زبان دوسری پر تسلط قائم نہیں کر سکتی۔ ایک اصطلاح کے لیے دوسری زبان میں موزوں متبادل کی تلاش کی یہ کوشش اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ زبان کے ماہرین کے درمیان یہ معمول کی ایک سرگرمی ہے۔ زبان میں اگر ترقی کا عمل جاری ہے تو وہ دیگر زبانوں کے ثقافتی پیکجز سے نہ تو گبھراتی ہے نہ اس کے آگے خود کو اس کا "دوسرا” محسوس کرتی ہے۔

  • کاربن کریڈٹ مارکیٹ: زرِ مبادلہ کمانے کا اہم موقع

    کاربن کریڈٹ مارکیٹ: زرِ مبادلہ کمانے کا اہم موقع

    موسمیاتی تبدیلیاں پوری دنیا کو متاثر کررہی ہیں۔ اور پاکستان، جس کا حصہ فضائی آلودگی میں بہت ہی کم ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے 10 ملکوں میں سرفہرست ہے۔

    تقریباً ہر سال ہی سیلاب ملک کے کسی نہ کسی حصے میں تباہی مچاتے ہیں۔ مگر سال 2022 میں سندھ میں کلاوڈ برسٹ کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو تاحال آباد نہیں کیا جاسکا ہے۔

    ان تباہ کن بارشوں کے بعد اقوم متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتھونی نے ستمبر میں پاکستان کا دورہ کیا۔ دورے کے اختتام پر بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ کی جانے والی میڈیا ٹاک کو بطور صحافی راقم نے براہِ راست کور کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ وہ جو کچھ دیکھ کر آئے ہیں، بہت ہی تباہ کن ہے۔ مگر جو تباہی پاکستان میں آئی ہے، اس میں پاکستان ذمہ دار نہیں ہے۔ اس تباہی کی ذمہ داری مغربی ملکوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے ترقی کے نام پر فضا کو بہت زیادہ آلودہ کردیا ہے۔ اور اب مغرب کو اس تباہی سے ہونے والے گھروں کے انفرااسٹرکچر کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

    اسی سال موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے بھارت کے مرکزی بینک کے سابق گورنر رکھو رام راجن نے جیکبسن لیکچر سیریز سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ منطقۂ حرارہ جنوبی کے ملکوں کے پاس جس میں ایشیائی اور افریقی ملک شامل ہیں اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ موسمی تبدیلیوں سے نمٹ سکیں اور اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ لوگ ان ملکوں سے مغرب کی جانب ہجرت شروع کر دیں، ایسے مہاجرین کو کلائمٹ ریفوجی کہا جاتا ہے۔ اس لئے مغرب کو ان افراد اور حکومتوں کی مدد کرنا ہوگی جو موسمی تبدیلیوں سے متاثر ہورہے ہیں۔

    انتھک سفارتی کاوشوں کے بعد پاکستان نے سال 2023 میں دنیا کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ سال 2022 میں ہونے والی بارشوں سے ہونے والی تباہی کے بعد اب تعمیر نو کے لئے فنڈز مہیا کرے۔ پاکستان نے عالمی بینک اور دیگر امداد دینے والے غیر ملکی اداروں کے اشتراک سے بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 16 ارب ڈالر لگایا ہے۔ جس میں سے پاکستان 8 ارب ڈالر اپنے وسائل سے خرچ کرے گا جبکہ 8 ارب ڈالر کی معاونت عالمی برادری سے طلب کی گئی ہے اور کلائمٹ ریزیلینٹ فنڈز کے ذریعے عالمی برادری نے 9 ارب ڈالر فراہمی کا وعدہ کیا مگر یہ رقم تاحال موصول نہیں ہوسکی ہے۔

    شدید بارشوں اور سیلاب کے علاوہ پاکستان میں موسم کی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ شدید سردیاں اور گرمی کے مہینوں‌ میں بلند درجہ حرارت، بے وقت بارشیں اور سیلاب جیسے چند مسائل ہیں جن کا سامنا پاکستان کر رہا ہے۔ سخت موسمی حالات کی وجہ سے صنعتوں میں پیداواری عمل، محنت کشوں اور مصنوعات کی بروقت نقل و حرکت میں خلل، افرادی قوت کی پیداواری صلاحیت میں کمی، بیماریوں اور اموات کی وجہ سے بھی معاشی نقصان بڑھ جاتا ہے۔ اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے سالانہ 4 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوتا ہے جو کہ آئی ایم ایف کے سالانہ معاونت سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔

    موسمی تبدیلیاں ہو کیوں رہی ہیں۔ اس کا جواب سائنس دان یوں دیتے ہیں کہ مغربی ملکوں کی صنعتوں سے ماضی میں اور اس وقت بھی ایسی گیسوں کا اخراج جاری ہے جس سے کرۂ ارض میں موجود ہوا آلودہ ہوگئی ہے۔ اور اس آلودگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ گیسوں، گاڑیوں اور ڈیری کے جانوروں سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں جن میں آبی بخارات، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اوزون ون، نائٹرو آکسائیڈ اور اس جیسی دیگر گیسیں شامل ہیں، بہت زیادہ مقدار میں فضا میں شامل ہوگئی ہیں، فضا میں ان گیسوں کے جمع ہونے سے موسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سورج کی تپش سے فضا یا یہ گیسیں بہت زیادہ گرم ہوجاتی ہیں جس سے مجموعی درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق میتھین گیس کا ایک مالیکیول چالیس سال تک فضا میں موجود رہتا ہے۔

    اب سوال یہ ہے کہ اگر مغرب فضاؤں کو آلودہ کررہا ہے۔ اور اس حوالے سے پاکستان جیسے ملکوں کی معاونت کو تیار بھی نہیں تو اس کا حل کیا ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سالانہ چار ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے تو پاکستان مغربی کمپنیوں سے سالانہ کم از کم فوری طور پر ایک ارب ڈالر کاربن کریڈٹس کی رضا کارانہ مارکیٹ میں فروخت سے کما سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں 5 کروڑ ڈالر مالیت کے کاربن کریڈٹس کے چھ منصوبے چل رہے ہیں۔ دنیا میں کاربن کریڈٹ مارکیٹ کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے اور یہ مارکیٹ 950 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اور آنے والے وقتوں میں یہ مارکیٹ مذید بڑھ سکتی ہے۔

    جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ مغربی ملکوں کی صنعتیں بڑے پیمانے پر گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کر رہی ہیں۔ اب ان کمپنیوں کو حکومت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ جتنی گیس وہ فضا میں چھوڑ رہی ہیں اس کے مساوی کاربن کریڈٹ کو خرید لیں اور اس کا جمع تفریق صفر ہو۔ یعنی کاربن کا اخراج اور کاربن کریڈٹس یعنی فضا سے کاربن کم کرنا ہے۔ کاربن کریڈٹ یا فضا سے کاربن اخراج کو صفر رکھنے کے لئے مختلف طریقہ کار استعمال ہوتے ہیں۔ جن میں ایمیشن ٹریڈنگ، کاربن کیپ ٹریڈنگ، کم کاربن کا اخراج کرنے والی ٹیکنالوجیز، متبادل توانائی میں سرمایہ کاری اور مستحکم ترقی جیسے منصوبے شامل ہیں۔

    اگر ایک درخت لگانے سے ایسے طریقوں سے کاشت کرنے جس سے زیادہ سے زیادہ گرین ہاؤس گیسز فضا سے ختم ہوں۔ اور ان اقدامات کی وجہ سے اگر ایک ٹن کاربن ڈآئی آکسائیڈ گیس فضا سے ختم ہو تو اس کو ایک کاربن کریڈٹ کہتے ہیں۔ ہر ملک میں کاربن کریڈٹ کی قیمت مخلتف ہے۔ یورپی یونین کے کسی ملک میں اگر ایک کاربن کریڈٹ دستیاب ہو تو اس کی قیمت 30 سے 50 یورو کے درمیان ہو گی۔ جبکہ پاکستان میں ایک ٹن کاربن کے اخراج کو جذب کرنے پر 10 سے 15 ڈالر کا ایک کاربن کریڈٹ ہوگا۔

    کاربن کریڈٹ حاصل کرنے کے لئے کیا کرنا ہوگا؟ اگر آپ کے پاس ایک قطع زمین موجود ہے تو آپ کو کاربن کریڈٹ کی رپورٹ تیار کرنے والی کسی کنسلٹنٹ کمپنی سے رابطہ کرنا ہوگا جس کی شہرت کاربن کریڈٹ مارکیٹ میں اچھی ہو۔ یہ کنسلٹنٹ آپ کے لئے کاربن کریڈٹ رپورٹ تیار کرے گا۔ جس کے کئی مراحل ہیں جیسا کہ ڈیٹا جمع کرنا، تجزیہ کرنا، زمین کی ساخت، موسمی حالات کے حوالے سے موضوع درخت کی قسم، درختوں کی تعداد جیسی معلومات پر مبنی رپورٹ۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر ایک تیسری پارٹی اس کا جائزہ لیتی ہے۔ اور سرٹیفکٹ جاری کرتی ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری میں چند ہزار ڈالر سے لے کر ایک لاکھ ڈالر تک اخراجات ہوسکتے ہیں۔ یہ اخراجات اس پر منحصر ہیں کہ رپورٹ کی پیچیدگی کتنی ہے۔ رپورٹ کاربن کریڈٹس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کا دس فیصد تک ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ کی تیاری اور تصدیق کے بعد کریڈٹس کو فروخت کر لئے مارکیٹ میں بروکرز کمپنیاں موجود ہیں انہیں فروخت کرنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ جو کہ 10 سے 15 فیصد تک کمیشن لیتے ہیں۔ یعنی ایک کاربن کریڈٹ کے باغبانی اور زراعت کے منصوبے میں رپورٹ کی تیاری اور فروخت پر 25 فیصد تک اخراجات فیس کی صورت میں نکل سکتے ہیں۔ یعنی اگر ایک کاربن کریڈٹ 10 ڈالر کا ہے تو اس میں سے 2.5 ڈالر رپورٹ کی تیاری اور فروخت کے کمیشن کی نذر ہوجائیں گے۔ اور آپ کو 7.5 ڈالر ملیں گے۔

    کاربن کریڈٹ کی رضاکارانہ مارکیٹ میں فروخت کو پاکستان اپنے لئے قیمتی زرمبادلہ کمانے کا موقع بنا سکتا ہے۔ پاکستان گرین انیشیٹو کے پاس 7 کروڑ 96 لاکھ ہیکٹر زمین زراعت کے لیے دستیاب ہے۔ جس میں سے 2 کروڑ 41 لاکھ ہیکٹر زیر کاشت ہے اور حکومت کے پاس 91 لاکھ ہیکٹر زمین بے آباد پڑی ہے۔ اور اسی بے آباد زمین میں سے 48 لاکھ ہیکٹر پاکستان گرین انیشیٹو کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ باقی ماندہ زمین پر کاربن کریڈٹس کے لئے درخت لگا کر مقامی ماحولیات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پھل دار درختوں کے ذریعے مقامی خوارک اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے جبکہ اسی کاربن کریڈٹس کو فروخت کر کے سالانہ کم از کم ایک ارب ڈالر بھی کمائے جاسکتے ہیں۔