Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • خط بنام نواز شریف!

    خط بنام نواز شریف!

    محترم نواز شریف!

    طویل عرصے بعد گزشتہ دنوں آپ ٹی وی چینل پر ’’قوم سے خطاب‘‘ کے لیے جلوہ افروز ہوئے، ساتھ ہی آپ کی سیاسی وارث صاحبزادی اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی موجود تھیں۔ عوام کو مخاطب کرتے ہوئے، آپ نے جس معصومانہ انداز میں اور جس طرح غریب کے دکھ اور تکالیف کا احاطہ کیا، یقین جانیں وہ ہم سب کو بہت ہی بھایا۔

    جناب نواز شریف، آپ نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے گزشتہ ادوارِ حکومت کی بہترین کارکردگی پر بھرپور روشنی ڈالی۔ پھر یہ ذکر بھی کیا کہ عمران خان کی حکومت میں کس طرح آپ کے کارناموں پر مٹی ڈال کر ان کو ملیا میٹ کر دیا۔ یہ سب میٹھے میٹھے لفظوں‌ میں گوش گزار کرنے کے بعد آپ نے اپنی باتوں کا رُخ ہماری یعنی عوام کی جانب کیا۔ پھر آپ کے منہ سے غریب عوام کی پریشانیوں اور بالخصوص بجلی بلوں کے باعث ہونے والی عوامی مشکلات کا ایسا سیلاب امڈا کہ ہم آپ کی اس عوامی ہمدردی کے سیلاب میں بہہ گئے۔ جب اس کے ازالے کے لیے آپ نے اپنے بھائی کی مرکز اور پھر پنجاب میں اپنی بیٹی کی حکومت کی کوششوں کا ذکر کیا، تو ہمیں ایک امید ہو چلی کہ آج عوام کے لیے حقیقی ریلیف کا اعلان ہوگا اور پھر ایسا ہی ہوا کہ آپ نے 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے 14 روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت کم کرنے کا اعلان کیا۔ ابھی آپ کی ان نوازشات پر دل پوری طرح جھوما بھی نہ تھا کہ آپ کی یہ بات برسات کے موسم میں کسی آسمانی بجلی کی طرح ہم پر گری کہ اس ریلیف کے حقدار صرف پنجاب کے لوگ ہوں گے۔

    محترم ایک لمحے کو ہمیں اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ چلو پنجاب بھی پاکستان کا حصہ ہے اور وہاں کے رہنے والے بھی پاکستانی ہی ہیں، دل کو تسلی دی کہ دائمی نہیں، دو ماہ کے لیے ہی صحیح، ملک کے کسی حصے میں ہم غریبوں کی اشک شوئی تو ہوئی، لیکن دل کے ساتھ دماغ بھی ہمارا بچّہ ہو چکا کہ ایک ساتھ کئی چبھتے سوال نما متضاد خیالات ذہنوں میں کلبلانے لگے اور گستاخی معاف ہم آپ سے یہ سوالات پوچھنے کی جسارت کر رہے ہیں۔

    آپ ایک بار پنجاب کے وزیراعلیٰ اور تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہے، یہ وہ اعزاز ہے جو آج تک پاکستان کے کسی سیاستدان کو نہیں مل سکا۔ محترم آپ کو ایک بار تو وزیر اعلیٰ صرف پنجاب کے عوام کے ووٹوں نے بنایا، مگر تین بار جو آپ وزیراعظم بنے تو یہ پورے ملک کے عوام نے بنایا تھا اور وزیراعظم کا منصب بھی پورے ملک کے لیے ہوتا ہے۔ اب آپ کے پاس وزارت عظمیٰ کا منصب نہیں، لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور اصل معنوں میں وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے کرتا دھرتا تو آپ ہی ہیں جناب۔

    محترم! ملک بھر کے عوام مہنگی سبزی، گوشت، اجناس، گیس، پٹرول اور مختلف جہتوں میں ہونے والی مہنگائی کے ساتھ دنیا کی مہنگی ترین بجلی خرید رہے ہیں لیکن آپ کی نظر کرم صرف پنجاب کے عوام پر ہوئی۔ یہ اعلان اگرچہ ایک حد تک قابل ستائش ہے لیکن صرف پنجاب کی حد تک ریلیف کا اعلان ٹی وی پر آ کر کرنا آپ کے شایان شان نہیں۔ آپ خود کو ملک بھر کے ’’کروڑوں عوام کے دلوں کی دھڑکن اور امید‘‘ قرار دیتے ہیں۔ تین بار کے سابق وزیراعظم اور پارٹی کے صوبائی سطح کے نہیں بلکہ بانی اور کرتا دھرتا ہیں، آپ کی جانب سے صوبائی سطح پر ریلیف کا اعلان سیاسی قد کاٹھ کو گھٹانے کی بات ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ مخالفین جو ہمیشہ موقع ڈھونڈتے ہیں وہ اس حوالے سے ہرزہ سرائی ضرور کریں گے۔ یہ اعلان جو بذات خود ایک بڑا اعلان تھا اگر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اپنے ساتھ وزرا کے ساتھ ٹی وی اسکرین پر جلوہ افروز ہوکر کرتیں تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ وہ بھی تو اصل میں آپ کا ہی چہرہ ہیں۔

    بات چل رہی تھی پنجاب اور ملک کے غریب عوام کی اور کہاں پہنچ گئی، لیکن مسائل اتنے ان گنت ہیں کہ جس طرح حکومت کی گاڑی اپنے ٹریک پر نہیں آتی، اسی طرح آج ہمارا قلم ایک ٹریک پر نہیں آ رہا، بہرحال قضیے کی طرف چلتے ہیں۔

    جناب منہ پر آ ہی گئی ہے تو کہتے چلیں کہ صرف پنجاب کے عوام ہی غریب نہیں ملک کے 98 فیصد عوام جن کا تعلق پنجاب کے ساتھ سندھ، کے پی، بلوچستان، جی بی، کشمیر سے ہے سب غریب ہیں۔ کشمیر والوں نے تو سڑکوں پر نکل کر مہنگائی سے جان چھڑا لی، لیکن شاید باقی علاقوں کے رہائشی ایسا دل گردہ نہیں رکھتے کہ بغیر کسی سیاسی چھتری تلے صرف اپنے حق کے لیے سڑکوں پر نکل کر اپنا حق لے سکیں اور وہ صرف آپ اور دیگر سیاستدانوں کے خوش نما لفظوں کے ہیر پھیر کے طلسم کا انتظار کرتے ہیں کہ جیسے ہی عوامی ہمدردی کے بیان جاری ہوں، تو وہ اس کے سحر میں کھو جائیں اور اپنا موجودہ حال بھلا کر مست ملنگ بن جائیں۔

    ہم عوام جو پہلے ہی آپ کی صاحبزادی اور حلیف جماعتوں کے سربراہان کی جانب سے رواں سال الیکشن سے قبل تک 300 یونٹ تک مفت بجلی اور آدھی قیمت پر بجلی فراہمی کے پر فریب نعروں کے ڈسے ہوئے ہیں اور آپ کو ووٹ دینے والوں کی اکثریت نے بھی یہی خواب آنکھوں میں سجا کر ووٹ دیا ہوگا کہ کچھ نہیں مفت بجلی تو ملے گی، لیکن آپ کے حلیفوں اور سیاسی وارثوں نے تو وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا، کے مصداق کیا۔ پہلے ہی آپ کے بھائی کی ڈیڑھ پونے دو سالہ حکومت نے ہم غریبوں کا کچومر نکال دیا تھا اور بجلی مفت کرنے کا لالی پاپ دینے کے بعد موجودہ حکومت میں مہنگائی کا گراف جس طرح بڑھا اور جس برق رفتاری سے بجلی کے بل بڑھائے گئے اس سے تو رہا سہا خون بھی نچوڑ لیا گیا ہے۔

    جناب اعلیٰ! عوام جہاں سیاستدانوں کے عوامی ہمدردی کے بیانات سن سن کر اور حقیقت حال اس کے برعکس دیکھ دیکھ کر پہلے کی اکتائی بیٹھی ہے اور اس پر متضاد آپ ہی کی سیاسی جماعت کے رہنماؤں کے یہ اقوال زریں جیسے بیانات ’’ایک روٹی چار بھائی تقسیم کر کے کھالیں یا قوم چائے کی ایک پیالی پینا کم کر دے‘‘ کے بالکل الٹ اسی حکمراں اور مقتدر اشرافیہ کے اللوں تللوں اور بے جا مراعات دیکھ کر ان کا سیاستدانوں پر اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔ اس صورتحال عارضی یا مخصوص لوگوں کو ریلیف ان میں احساس محرومی کے ساتھ غم وغصے کو بھی بڑھا دے گا اور حالات خدانخواستہ کنٹرول سے باہر ہوئے، تو یہ ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

    اس وقت حالت یہ ہے کہ پوری قوم کا پیمانۂ صبر چھلک رہا ہے، ملک میں مہنگائی کا طوفان بدتمیزی پوری طرح سے محو رقص ہے۔ شہباز شریف تو صرف کرسی پر براجمان ہیں۔ ان کی صورت میں ہم پر اصل حکومت تو ’’آپ‘‘ ہی کی ہے، تو ہمارے حکمرانوں کو صورتحال کا پورا احساس ہونا چاہیے۔ آپ کے سیاسی منصب اور قامت کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف سے بھی ملک بھر کے عوام کو اسی طرح کا بجلی بلوں میں ریلیف اور مستقل بنیادوں پر دلوائیں۔ جو ریلیف دو ماہ کے لیے ہو سکتا ہے، ہماری اشرافیہ، بیورو کریٹس کی غیر ضروری اور بے تحاشا مراعات ختم کر کے بھی غریب عوام کو مستقبل بنیادوں پر دیا جا سکتا ہے۔ گیند اب بھی آپ کی کورٹ میں ہے۔

    طالبِ توجہ
    غریب عوام

  • شدید گرمی اور بارش میں کراچی کے بے گھر افراد کو مشکلات کا سامنا

    شدید گرمی اور بارش میں کراچی کے بے گھر افراد کو مشکلات کا سامنا

    تیس سالہ مٹھو کا گھر پاکستان کے دو کروڑ کی آبادی والے سب سے بڑے شہر کراچی میں کے پی ٹی انٹرچینج فلائی اوور کے نیچے ہے۔ مٹھو کے ساتھ اُن کے بیس عزیز و اقربا بھی ساتھ رہتے ہیں جو کئی سال پہلے بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں دو سو کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ٹنڈو الہ یار سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ آس پاس کے بلند و بالا اپارٹمنٹس اور دفاتر میں رہنے والے لوگوں کے برعکس، اِن کے پاس سخت موسمی حالات سے بچنے کے لئے فی الحقیقت کوئی پناہ گاہ موجود نہیں ہے۔

    جولائی کے آخر کی جُھلسا دینے والی گرمی کے ایک دن جب ان کی بہن سوتری سرخ اینٹوں کے عارضی چولہے پر روٹیاں بنا رہی تھیں تو اُس وقت مٹھو نے اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے بتایا کہ “ہمیں رفع حاجت یا غسل کے لئے خالی پلاٹوں پر جانا پڑتا ہے، چاہے اِس طرح کی شدید گرمی ہی کیوں نہ ہو۔ ہم یہاں پانی قریبی کالونیوں سے خالی ڈبوں میں بھر کر لاتے ہیں۔ حکومت ہمارے لئے کیا کرے گی؟ ہمیں حکومت پر بھروسہ نہیں ہے کہ وہ ہمیں شدید گرمی کے دوران یا بارشوں میں ہماری مدد کرے گی۔”

    کراچی میں بے گھر افراد کی تعداد کے حوالے سے کوئی قابل اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، جس کی وجہ سے شدید گرمی اور بارشوں سے نمٹنے میں اِن کی مدد کے لئے کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے

    مٹھو کا خاندان، بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، کسی بھی سرکاری اعداد و شمار میں شامل نہیں ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ڈائریکٹر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اسماء غیور نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ “آپ کو اِن بے گھر افراد کے بارے میں کوئی اعداد و شمار، ڈیٹا، یا منصوبے نہیں ملیں گے۔ زیادہ سے زیادہ، یہ لوگ انتخابات کے قریب ممکنہ ووٹرز کے طور پر کام آسکتے ہیں۔ اِس سے ہٹ کر، اِن کے مسائل کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔”

    1988 میں قائم ہونے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم شہری – سٹیزن فار اے بیٹر انوائرنمنٹ (سی بی ای) کی جنرل سکریٹری امبر علی بھائی نے بے گھر افراد کو “اِس بڑے شہر کے کسی کو نظر نہ آنے والے لوگ” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ “آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات جیسے سیلاب کے دوران پولیس اِن بے گھر افراد کو پولیس اسٹیشنوں میں عارضی پناہ دے سکتی ہے، لیکن اُن کے پاس بھی مناسب جگہ کی کمی ہوتی ہے، لہذا اِن بے گھر افراد کو عام طور پر کسی دوسرے مقام پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اِن بے گھر افراد کی نگرانی اور اِن کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لئے نادرا [نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی] کو بھی اِس مربوط عمل میں شامل کرنا ضروری ہے۔”

    شہری منصوبہ ساز اور کراچی اربن لیب کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر محمد توحید نے بے گھر افراد کی مدد کے حوالے سے موجودہ مشکلات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ” جب تک بے گھر افراد کی صحیح تعداد اور ان کے مقامات کا علم نہ ہو، وسائل مختص کرنا، ہنگامی ردعمل کی منصوبہ بندی کرنا، اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے طویل مدتی حل نافذ کرنا مشکل ہے۔” یہ مسائل شدید گرمی کے واقعات سے کہیں زیادہ ہیں۔ کچھ سول سوسائٹی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مجموعی طور پر بے گھر افراد کی آبادی تقریبا 20 ملین (دو کروڑ) یا اِس کی آبادی کا 9 فیصد ہے، لیکن سول سوسائٹی کے شعبے میں بھی کراچی جیسے شہروں کے بارے میں کوئی خاص معلومات موجود نہیں ہیں اور اِن مسائل کو حکومتی سطح پر اُجاگر کرنے کے لئے اعداد و شمار ناکافی ہیں۔

    علی بھائی نے کہا کہ بے گھر افراد سے نمٹنے کے لئے موجودہ قوانین، جیسے سندھ ویگرنسی آرڈیننس 1958 اور اس کی 1983 کی ترمیم کے باوجود، کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) نے “اپنی ذمہ داریوں سےمکمل کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ جب آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات، جیسے گرمی کی لہریں یا شہر میں سیلاب آتے ہیں تو متاثرہ افراد کو خیرات دینے والے افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

    رؤف فاروقی، جو 2013 سے 2015 کے درمیان کراچی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کے لئے کے ایم سی کے سب سے اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز رہے، نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ بے گھر افراد کے لئے کوئی سرکاری اہتمام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، “زیادہ سے زیادہ، ہم اِنہیں عارضی پناہ کے لئے پولیس کے پاس یا ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس لے جاتے تھے۔”

    پاکستان کے محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز نے کہا کہ موسم کی شِدّت سے بچاؤ کے لئے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کے بے گھر افراد کو اِس موسم گرما میں شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ 23 سے 30 جون کے دوران اور 16 سے 23 جولائی کے دوران درجہ حرارت اوسط سے 4 سے 6 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔ “1990 کی دہائی کے وسط سے پاکستان میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے گھر افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔”

    ایدھی فاؤنڈیشن، جو پاکستان کی محروم طبقے کی کمیونٹیز کی خدمت کرنے والی ایک سماجی تنظیم ہے، کے کنٹرول روم کے انچارج محمد امین نے بتایا کہ اس سال اموات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ “15 سے 30 جون کے درمیان، ہمیں اپنے مردہ خانوں میں 1,540 لاشیں موصول ہوئیں جو کہ روزانہ کی اوسطاً 35 سے 40 لاشوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔” اس کے ساتھ ہی انہوں نے متنبہ کیا کہ اِن سب ہلاکتوں کو پوری طرح سے گرمی کے اثرات سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے رپورٹ کی جانے والی ہلاکتوں کی بڑی تعداد نے اس سال جون کے آخر میں آٹھ روز تک چلنے والی گرمی کی لہروں کے دوران سرکاری طور پر 49 اموات کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔

    ڈاکٹر احمر، جو کراچی کے گنجان آباد علاقے صدر میں واقع کراچی ایڈوینٹسٹ اسپتال کے ایمرجنسی روم میں کام کرتے ہیں نے کہا کہ انکا پورا نام ظاہر نہ کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں اس سال گرمی سے متعلق ہر قسم کے کیسز موصول ہوئے اور خاص طور وہ لوگ جو کسی مناسب چھت یا سایہ سے محروم ہیں وہ لُو ، تیز بخار، لو بلڈ پریشر اور چکر جیسی علامات کے ساتھ آئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگر مون سون کی بارشیں جاری رہیں تو آلودہ پانی کی وجہ سے اسپتال گیسٹرو اینٹرائٹس (معدے اور آنتوں کی سوزش) کے مریضوں سے بھر جائے گا۔ جہاں تک بے گھر لوگوں کا تعلق ہے تو میں نے ان کے لئے کوئی خاص انتظامات یا اقدامات نہیں دیکھے ہیں۔ وہ تمام عملی مقاصد کے لئے غیر رجسٹرڈ شہری ہیں حالانکہ وہ واقعی بہت سی مصیبتوں کا شکار ہیں۔

    صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) سندھ کے ڈائریکٹر جنرل سید سلمان شاہ نے کراچی میں 2015 میں گرمی کی لہروں کے بعد کی صورتحال پر روشنی ڈالی، جس کے بعد ہیٹ ویومینجمنٹ پلان تشکیل دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ گرمی کی لہروں میں بے گھر افراد یا سڑکوں کے کنارے مقیم افراد سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ 2015 میں رمضان المبارک کے موقع پر آنے والی گرمی کی لہروں نے پاکستان بھر سے بہت سے لوگوں کو خیراتی امداد کے لئے کراچی کی طرف راغب کیا جس کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ “یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس عام طور پر گھر نہیں ہوتے اور وہ غیر سرکاری بستیوں، عارضی خیموں یا فلائی اوورز کے نیچے بیٹھے رہتے ہیں۔ 2024 کے منصوبے میں خاص طور پر شدید گرمی کی لہروں کے دوران بے گھر افراد کو عارضی پناہ گاہیں فراہم کرنا شامل تھا اور اِس کے لئے شادی ہالز اور سرکاری دفاتر جیسی عمارتوں کو استعمال میں لایا جائے گا۔

    شاہ کے مطابق، اگرچہ سرکاری محکموں نے اس سال گرمی کی لہروں سے قبل شہریوں کی جانب سے محسوس کئے جانے والے اثرات کو کم کرنے کے لئے کام کیا تھا، لیکن یہ غیر متوقع طور پر طویل ثابت ہوا۔ اُن کا کہنا تھا کہ “صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) بار بار گرمی کی لہروں کے حوالے سے الرٹ اور روزانہ کی صورتحال کی رپورٹس جاری کرتی ہے لیکن کراچی میں بے گھر افراد کی صحیح تعداد کوئی نہیں جانتا،” حالانکہ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ کراچی میں لوگوں کی اصل تعداد زیادہ ہوگی کیونکہ شہر میں بہتر زندگی کی تلاش میں لوگوں کا مسلسل آنا جاری رہتا ہے۔

    سیلاب سے نمٹنے کے لئے تین سال قبل نالوں پر غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی عمارتوں کو منہدم کرنے کے لئے انسدادِ تجاوزات مہم شروع کی گئی تھی جس سے نادانستہ طور پر شہر میں بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اپریل میں سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کو ہدایت دی کہ اِن عمارتوں کے اِنہدام کی وجہ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کو نئے مکانات مہیّا کئے جائیں۔

    شہر کے انفرااسٹرکچر(بنیادی ڈھانچے) کے منصوبوں کی نگرانی کرنے والے سول سوسائٹی کے ادارے اربن ریسورس سینٹر کے جوائنٹ ڈائریکٹر زاہد فاروق نے اس طرح کی پالیسیوں کے وسیع اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ “گجر اور اورنگی نالوں کے اوپر بنی عمارتوں کو ہٹانے کے نتیجے میں 6،900 ہاؤسنگ یونٹس منہدم ہوئیں اور ہر گھر میں ممکنہ طور پر ایک سے زیادہ خاندان رہائش پذیر تھے۔ بے گھر ہونے کے بعد وہ کسی رشتہ دار کے گھر چلے جاتے ہیں جو کہ خود بھی غریب ہوتے ہیں۔” انہوں نے کہا، “چونکہ ایک بڑی تعداد پہلے ہی تنگ حالات میں رہ رہی ہے، اُس پر بے گھر رشتہ داروں کی آمد، چھوٹے گنجان مکانات یا عارضی پناہ گاہوں میں رہائشی کثافت (کم جگہ میں زیادہ لوگوں کا رہنا) کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی کثافت موسمیاتی واقعات جیسے گرمی کی لہروں یا شدید بارشوں کے اثرات کو بڑھا دیتی ہے۔” فاروق نے مزید کہا، ” گھروں کا یہ انہدام صرف اِن کے گھروں کو ہی نہیں مِسمار کرتا بلکہ اِن کی معاشی حالت، سماجی شناخت اور روابط بھی بکھر جاتے ہیں۔”

    ایک مقامی دائی نیہا منکانی جو غریب کمیونٹیز کے لئے ذہنی صحت کے کلینک چلا رہی ہیں، کے مطابق بے گھر خواتین کی حالت خاص طور پر سنگین ہے۔ انہوں نے کہا کہ “کراچی میں بے گھر خواتین کو سیلاب اور گرمی کی لہروں کے دوران صحت کے حوالے سے مقابلتاً بڑے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آلودہ سیلابی پانی انفیکشن، جلد کی بیماریوں اور ذہنی صحت کے مسائل کے لئے اُن کی حسّاسیت بڑھا دیتا ہے، اور ایسا بے گھر ہونے اور جذباتی صدمے کی وجہ سے ہوتا ہے۔” اس کے علاوہ، جب سیلاب آتا ہے تو لوگ ایک ساتھ ہجوم والی جگہوں پر رہنے کے لئے جاتے ہیں اور ایسے مواقع خواتین کے لئے جنسی تشدد کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، غیر مستحکم غذائی ذرائع شدید موسم سے مزید متاثر ہوتے ہیں اور نتیجتاّ اِن خواتین کو کھانا بھی اچھی مقدار میں نہیں ملتا اور یہ غذائی قلت اور معدے کے مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔

    منکانی نے گرمی کی شدید لہروں کے دوران خواتین کی صحت کے تحفظ کے لئے مخصوص علاجوں کی ضرورت پر زور دیا، اور محفوظ پانی اور صفائی ستھرائی تک ان کی محدود رسائی کو اجاگر کیا جس سے پانی کی کمی، پیشاب کی نالی کے انفیکشن اور حمل میں پیچیدگیوں کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے جس میں قبل از وقت زچگی اور حمل کا نقصان بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ “یہ تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کہ خواتین، خاص طور پر وہ جو مناسب پناہ گاہ سے محروم ہیں، گرمی سے مقابلتاً زیادہ متاثر ہوتی ہیں، اور یہ نکتہ اُن کی صحت اور فلاح و بہبود کے تحفظ کے لئے مخصوص علاجوں اور اُنھیں صحت مند رکھنے کے نظام کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔”

    (فرح ناز زاہدی معظم کی رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جس کو اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

  • کیا یہی قائد اعظم کا پاکستان ہے؟

    کیا یہی قائد اعظم کا پاکستان ہے؟

    14 اگست 2024 آن پہنچا ہے اور ہر سال کی طرح قوم پاکستان کا 77 واں جشن آزادی منا رہی ہے۔ اپنی آزادی کا جشن منانا زندہ قوموں کی نشانی ہے اور اس روایت کو جاری رکھتے ہوئے وطن کے نونہالوں کو قوم کی تاریخ اور وطن کے لیے جدوجہد اور ان کی ذمے داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے مستقبل کے معماران وطن تیار کیے جاتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں پاکستان کی آزادی کا جشن منانے کی روایت کچھ انوکھی ہے۔

    بچّے تو بچّے ہوتے ہیں باجے بجائیں تو برداشت ہو جاتی ہے لیکن آج رات اور کل سارا دن منچلے سڑکوں پر آزادی کا جشن منانے نکلیں گے تو ہاتھ میں گز گز بھر لمبے بھونپو نما باجے لے کر پوں پاں سے آسمان سر پر اٹھائیں گے۔ دوسری طرف اکثریت ون ویلنگ کر کے اپنی اور دیگر کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گے جو یہ نہیں کریں گے وہ بغیر سائلنسر موٹر سائیکلیں جیٹ جہاز کی طرح اڑاتے اور آواز کرتے ہوئے چلا کر اپنا فرض عین سمجھیں گے۔ یہ سب عجیب وغریب آزادانہ حرکات کرنے والوں کو اس سے غرض نہیں ہوگی کہ ان کے دن و رات باجا بجانے سے کسی مریض کو تکلیف ہوتی ہے، مساجد میں لوگوں کی عبادات میں خلل پڑتا ہے۔ گھروں میں سوئے ہوئے افراد کی نیند خراب ہوتی ہے۔ ان پر حب الوطنی کا یہ انوکھا جوش صرف ایک دن کے لیے چڑھتا ہے جس کا جشن منا کر پھر 364 دن غفلت کی نیند سوئے رہتے اور ملک کی ابتر حالت پر خود اپنے گریبانوں میں جھانکنے کے بجائے باقی وقت حکومت اور دوسروں کو برا بھلا کہنے میں وقت گزارتے ہیں۔

    یوم آزادی یعنی 14 اگست کے روز بھی سرکاری، نیم سرکاری، نجی، سیاسی وسماجی سطح پر پرچم کشائی کی تقریبات ہوں گی جس میں حکمرانوں سمیت سب کی جانب سے پاکستان کو قائداعظم کا حقیقی پاکستان بنانے کی دل خوش کن تقاریر کی جائیں گی لیکن ان تقاریر کو عملی جامہ پہنانے کے بجائے اگلے دن ہی ان سب تقاریر کو بھلا کر اپنے پرانے معمولات پر واپس آ جائیں گے اور برسوں سے جشن آزادی منانے کا ہمارا وطیرہ یہی رہا ہے۔

    پاکستان کوئی طشت میں رکھ کر پیش نہیں کیا گیا، بلکہ یہ لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر حاصل کیا گیا اور اس کو بنانے سنوارنے میں لوگوں نے اپنی پوری زندگیاں صرف کر دیں۔

    بانی پاکستان نے اپنے رفقا کے ساتھ طویل جدوجہد کرتے ہوئے چومکھی لڑائی لڑی جس کے ایک فریق قابض انگریز تھے تو دوسری جانب شاطر ہندو جب کہ ان کے درمیان اپنی ہی صفوں میں بیٹھے ہوئے کچھ غدار بھی لیکن عزم مسلسل سے قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن حاصل کیا۔ افسوس وہ آزاد وطن کی فضا میں زیادہ عرصہ نہ رہ سکے اور صرف ایک سال بعد ہی وفات پا گئے جس کے بعد پاکستان کی کشتی کنارے نہیں لگ سکی۔ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے اس کا اندازہ ان کے فرمودات سے ہو جاتا ہے۔

    آئیے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے کچھ فرمودات پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر اپنا محاسبہ کرتے ہیں۔

    ’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔‘ (آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس سے خطاب، 15 نومبر1942ء)

    ایک اور جگہ انہوں نے ارشاد فرمایا تھا کہ اسلامی تعلیمات کی درخشندہ روایات اس امر پر شاہد ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم جمہوریت میں ہمارا مقابلہ نہیں کرسکی۔ جو اپنے مذہب میں بھی جمہوری نکتہ نظر رکھتے ہیں۔

    میرا یقین ہے کہ ہماری نجات ہمارے عظیم قانون دان پیغمبر اسلام ﷺ کی طرف ہمارے لیے مقرر کردہ سنہری اصولوں پر عمل کرنے میں ہے۔ ہماری نجات کا راستہ صرف اور صرف اسوہ حسنہ ہے۔

    ’آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمدﷺ کو نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ ﷺ کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے، عظیم رہنما تھے، عظیم واضع قانون تھے، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی۔‘ (کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب،25جنوری 1948ء)

    اگر انہی فرموداشت کی روشنی میں دیکھا جائے تو قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل ہی ملک میں نظام حکومت کے لیے جمہوریت کو منتخب کیا تھا لیکن مغربی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق۔ لیکن کیا آج کا پاکستان ان ارشادات پر پورا اترتا ہے؟ پاکستان میں 33 سال تک تو بلاشرکت غیرے فوجی حکمرانوں کی حکومت رہی ہے باقی جتنا عرصہ بچا اس میں بھی جمہوریت پنپ نہ سکی جس میں زیادہ قصور سیاستدانوں کا ہی ہے۔ دوسرا قائد اعظم کا ارشاد ملک میں قرآن کی تعلیمات کے مطابق حکومت کا قیام اور اسوہ حسنہ کو مشعل راہ بنانا طے کیا تھا، لیکن ہم نے پاکستان کے ساتھ اسلامی جمہوریہ لگا کر اور آئین میں شریعت کو اپنا قانون اور نظام بنانے پر اکتفا کر کے اور ہر سال سیرت کانفرنس کا انعقاد کرکے اپنے تئیں یہ سمجھ لیا کہ معراج پا لی لیکن آج حقیقی معنوں میں نہ ملک میں اسلامی نظام حکومت قائم ہے اور نہ ہی اسوہ حسنہ ﷺ کو مشعل راہ بنایا گیا ہے۔

    قیام پاکستان کے بعد حضرت قائد اعظم نے ارشاد فرمایا تھا کہ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا۔ لیکن یہ ہمارے مقصد کی ابتداء ہے، ابھی ہم پر بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ حصول پاکستان کے مقابلے میں، اس ملک کی تعمیر پر کہیں زیادہ کوشش صرف کرنی ہے اور اس کے لیے قربانیاں بھی دینی ہیں۔

    ’چھوت چھات صرف ہندو مذہب اور فلسفے میں جائز ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی بات نہیں۔ اسلام انصاف، مساوات، معقولیت اور رواداری کا حامل ہے، بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں آ جائیں، اسلام اُن کے ساتھ فیاضی کو بھی روا رکھتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں اور اِس ریاست میں وہ شہریوں کی طرح رہیں گے۔‘(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب، 2نومبر 1940ء)

    بانیِ پاکستان محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی گئی تقریر میں دیگر باتوں کے علاوہ نوزائیدہ ملک میں بسنے والے اقلیتی عوام کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن کیا یہ وعدہ پورا ہو رہا ہے؟

    بانی پاکستان کے یہ تمام ارشادات ہم پر حکومت کرنے والوں کو روڈ میپ فراہم کرتے ہیں لیکن حکمرانوں نے اپنے راستے ہی قائد کے فرمان سے بالکل جدا کر لیے۔ آج وزرا صرف نام کے خادم ہیں جب کہ اپنے عمل اور کردار سے وہ خود کو ملک وقوم کا مالک سمجھتے ہیں۔ ان کی توجہ عوام کی فلاح وبہبود کے بجائے اپنے اور اپنے خاندان کی فلاح وبہبود پر مرکوز ہو گئی ہے اور ذمے داریوں کی ادائیگی کے بجائے عزت وناموس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔

    وہ تعلیم کو تلوار سے زیادہ طاقتور سمجھتے تھے اور نوجوانوں کے لیے پیغام تھا کہ ’’آپ تعلیم پر پورا دھیان دیں۔ اپنے آپ کو عمل کے لیے تیار کریں یہ آپ کا پہلا فریضہ ہے آپ کی تعلیم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ آپ دور حاضر کی سیاست کا مطالعہ کریں۔ یاد رکھیں ہماری قوم کے لیے تعلیم موت اور زندگی کا مسئلہ ہے۔
    ہمارے ملک کے بانی نے جس کو قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ بتایا تھا وہ اول تو ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے جس کا اندازہ ہر سال بجٹ میں تعلیم کے لیے رکھے جانے والے بجٹ سے ہوتا ہے۔ سرکاری سطح پر ہماری خواندگی کی شرح 60 فیصد سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن اس میں وہ بھی شامل ہیں جو صرف اپنا نام لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں جب کہ معیار تعلیم کا یہ حال ہے کہ دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک بھی پاکستان کی جامعہ نہیں ہے۔

    سرکاری سطح پر تو تعلیم کی حالت انتہائی دگرگوں ہے لیکن نجی تعلیمی اداروں نے بھی تعلیم کو مذاق بلکہ کاروبار بنا رکھا ہے اور اس کو اتنا مہنگا کر دیا ہے کہ اب غریب کے بس میں بھی بچوں کو نجی اسکولوں میں تعلیم دلانا خواب بن گیا ہے۔
    قائد اعظم کے ارشادات صرف حکمران یا بالادست طبقے کے لیے نہیں تھے بلکہ انہوں نے قوم کو بھی اتحاد تنظیم اور یقین محکم کی تلقین، کام، کام اور بس کام، لوگوں کو اصولوں پر ڈٹ جانے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا درس دیا تھا، لیکن افسوس ان پیغامات کو پوری قوم بھلا بیٹھی ہے۔ بدقسمتی سے آج قوم خود کو مسلمان اور پاکستانی کہلانے کے بجائے پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچ، سرائیکی، پختون، مہاجر کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے اور ہمارے سیاستدان اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے جان بوجھ کر لسانیت کو فروغ دیتے اور مستقبل میں ملک وقوم کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کو اس آگ میں جھونک دیتے ہیں۔

    بانی پاکستان نے کفایت شعاری کو قومی دولت اور ہر مسلمان کو دیانت داری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنے کا درس دیا تھا۔ ان ارشادات کی روشنی میں اگر ہم ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

    آج کا دن بحیثیت قوم ہمیں انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں دیکھنا ہوگا کہ ہم جو لاکھوں جانوں کی قربانیوں سے حاصل اس آزاد وطن کی فضا میں سانس لے رہے ہیں تو کیا اس کا حق ادا کر رہے ہیں کیا ہم نے اسے اقبال کے خواب اور قائداعظم کی خواہش کے مطابق پنپنے دیا ہے۔

    حرف آخر قوم جشن آزادی منائے اور بھرپور جوش وجذبے کے ساتھ منائے۔ پرچم کشائیاں کریں، حب الوطنی پر تقاریر بھی کریں، ملی نغمے بھی گائیں لیکن اس کو صرف ایک دن تک محدود نہ رکھیں بلکہ اپنے قول کو افعال میں تبدیل کریں تاکہ ملک کا پرچم سر بلند کرسکیں۔

    (یہ تحریر/ بلاگ مصنّف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے)

  • حسینہ واجد: مطلق العنان طرز ہائے حکمرانی کے لیے ایک سبق

    حسینہ واجد: مطلق العنان طرز ہائے حکمرانی کے لیے ایک سبق

    شدید عوامی احتجاج اور فوج کے دباؤ کے بعد بنگلا دیش میں‌ عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ واجد کے مسلسل 16 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ انہیں مستعفی ہونے کا حکم آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے دیا جو رشتے میں ان کے بہنوئی بھی لگتے ہیں، جب کہ حسینہ واجد کے ملک چھوڑنے کے بعد صدر شہاب الدین نے طلبہ کے مطالبے پر نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ خالدہ ضیا سمیت تمام مخالف سیاسی رہنماؤں کو بھی رہا کر دیا گیا ہے، جب کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تین ماہ میں نئے الیکشن کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

    43 سال قبل بنگلا دیش ہمارا ہی ایک حصہ تھا اور مشرقی پاکستان کہلاتا تھا، لیکن 1971 میں بھارت کی مداخلت سے سقوط ڈھاکا کے بعد جب دنیا کے نقشے پر بنگلا دیش کے نام سے ابھرا تو کئی مسائل سے نبرد آزما تھا۔ تاہم 2009 میں عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ واجد نے جب دوسری بار عنان اقتدار سنبھالا تو بنگلا دیش کو معاشی ترقی کی ایسی ڈگر پر ڈالا کہ وہ خطے کے کئی ممالک سے آگے نکل گیا اور خوشحالی کا پیمانہ یہاں تک پہنچا کہ اس کے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پاکستان سمیت خطے کے کئی ممالک سے زیادہ اور کرنسی (ٹکا) کی قدر پاکستانی روپے سے کئی گنا تک بڑھ گئی۔

    بنگلا دیش کو ڈیڑھ دہائی میں تیز رفتار ترقی دینے والی حسینہ واجد کے اقتدار کا ایسا انجام کہ انہیں یوں ملک سے فرار ہونا پڑا، خود انہوں نے تو کیا شاید ان کے بدترین مخالفین نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔ لیکن کہتے ہیں کہ جب کامیابی غرور کی شکل اختیار کر لے اور حد سے بڑھ جائے تو کچھ لوگ خود کو ہی عقل کل سمجھ بیٹھتے ہیں اور پھر اس زعم میں وہ ایسے فیصلے کرتے ہیں جن کا انجام بھیانک ہوتا ہے۔

    خطے میں تیزی سے معاشی ترقی کرتے بنگلا دیش کا سیاسی زوال تو حسینہ واجد کے دور اقتدار میں ان کے بعض اقدامات کی وجہ سے آہستہ آہستہ شروع ہوگیا تھا لیکن جب 2009 میں وہ دوسری بار اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھیں تو سارے جمہوری اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے حریفوں سے بات چیت کے دروازے بند کر دیے اور بھارت نواز پالیسی اپناتے ہوئے ہندو انتہا پسند مودی کو اپنا دیرینہ دوست جب کہ پاکستان کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کیے رکھا۔ اپنے ملک میں سیاسی و نظریاتی مخالفین کا جینا حرام کر دیا۔

    حسینہ واجد نے صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی عوامی مقبولیت کے زعم میں عوام کے ہی مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی تمام تر توانائی صرف مخالفین کو دبانے اور انتقام کی آگ ٹھنڈا کرنے پر لگا دی۔ انہوں نے ملک بھر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگائی۔ اس کے معمر رہنماؤں پر ظلم کی تاریخ رقم کرتے ہوئے سن رسیدگی کے باوجود پھانسی کی سزا دی اور اس کو اپنا بڑا کارنامہ گردانا۔ انہوں ںے ماضی کی تلخیوں کو دوبارہ تازہ کرتے ہوئے البدر، الشمس اور پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والے رضاکاروں کو پھانسیاں دی لیکن یہی رضاکار کا لفظ ان کے اس بھیانک انجام کا باعث بنا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ فسطائیت کی اس انتہا پر جا پہنچیں کہ پڑوسی ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کے بجائے ان پر اپنے ملک کی سرحدیں ہی بند کر دیں۔

    اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے رواں سال جنوری میں ہونے والے الیکشن میں ’’بنگلا دیش میں ایک پارٹی‘‘ پالیسی کی تکمیل کے لیے اپنے تمام سیاسی حریفوں جن میں سابق وزیراعظم خالدہ ضیا سمیت درجنوں سیاسی رہنما شامل ہیں، انہیں پابند سلاسل کیا، مخالف سیاسی رہنماؤں کے ساتھ کارکنان پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور ایسے انوکھے انتخابات کرائے کہ اقتدار میں موجود رہ کر مسلسل چوتھی اور مجموعی طور پر پانچویں بار کامیابی کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے پر فائز ہوئیں اور بنگلا دیش کی تاریخ میں طویل مدت تک حکمرانی کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔

    ایسے میں جب 30 لاکھ بنگلا دیشی نوجوان بیروزگار ہیں، تو یہ کوٹہ سسٹم ایک عفریت کی طرح عوام پر مسلط تھا جس کے تحت بنگلا حکومت کی 54 فی صد ملازمتیں مخصوص طبقات میں تقسیم کی جاتی ہیں اور صرف 46 فی صد میرٹ پر دی جاتی ہیں۔ گزشتہ ماہ جولائی میں جب طلبہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو چند طلبہ رہنماؤں کی آواز میں ملک بھر کے عوام نے آواز ملائی لیکن حسینہ واجد جو اقتدار کو شاید اپنا پیدائشی اور دائمی حق سمجھ رہی تھیں۔ انہوں نے مظاہرین کو ’’رضا کار‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جس کو بنگالی میں غداری کے مترادف سمجھا جاتا ہے، جس نے اس احتجاج کو ایک نیا رخ دیا اور گالی نما اس لفظ کی صورت میں بنگلہ دیشی عوام کی غیرت پر ایسا حملہ ہوا کہ لاکھوں عوام بغیر کسی سیاسی چھتری کے سڑکوں پر نکل آئی جو پہلے سول نافرمانی اور پھر حسینہ واجد ہٹاؤ تحریک میں تبدیل ہوگئی۔

    لیکن مثل مشہور ہے نا کہ ہاتھی کی موت کمزور سی چیونٹی کے سبب ہو جاتی ہے۔ جس طاقتور حسینہ واجد کو ان کے بڑے سیاسی حریف پیچھے ہٹنے پر مجبور نہ کر سکے، اسی طاقتور وزیراعظم کو بنگلا دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف یونیورسٹی سے شروع ہونے والی ایک تحریک، جس کا سرخیل تین طلبہ تھے جنہوں نے حکومتی جبر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا اور بہادری کی ایسی داستان رقم کی جس نے بنگلا دیش کی طاقتور ترین وزیراعظم کو یوں پسپائی پر مجبور کیا کہ وہ پھر 45 منٹ کے نوٹس پر نہ اپنا سارا کروفر چھوڑ کر چند سوٹ کیسوں کے ساتھ بہن کے ہمراہ بھارت فرار ہوگئیں۔ مگر عوامی لیگ کی حکومت نے آواز خلق کو نقارۂ خدا نہ سمجھا اور اپنی پسپا ہوتی طاقت کے زعم میں مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں ڈھاکا سمیت ملک کے کئی شہروں کی سڑکیں بے گناہوں کے خون سے سرخ ہوگئیں اور بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اس شورش میں 400 سے زائد بنگلا دیشی شہری جان سے گئے۔ اس موقع پر جب بنگلا دیشی فوج نے بھی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا تو یہ حسینہ واجد کے لیے گرین سگنل تھا اور پھر وہی ہوا جو دنیا کی طویل تاریخ میں طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں کا ہوتا ہے، جس کے حکم پر پوری حکومتی مشینری حرکت میں آ جاتی تھی اس کی یہ حالت ہوگئی کہ اسے آخری بار اپنی قوم سے خطاب کی اجازت بھی نہ دی گئی اور محفوظ راستہ فراہم کرتے ہوئے فوجی ہیلی کاپٹر میں رخصت کیا گیا اور انہیں وقت رخصت وزیراعظم ہاؤس پر حسرت بھری نظر ڈالنا شاید زندگی بھر یاد رہے گا۔

    کل تک کروفر سے دنیا کے ہر ملک گھومنے والی حسینہ واجد پر آج ہر ملک اپنا دروازہ بند کر رہا ہے۔ خود ان کا دیرینہ دوست ملک بھارت انہیں طویل مدت تک سیاسی پناہ دینے سے گریزاں ہے جب کہ برطانیہ نے بھی ان کی طویل سیاسی پناہ کی درخواست پر کوئی مثبت ردعمل نہیں دیا ہے جب کہ امریکا نے تو ان کا ویزا ہی منسوخ کر ڈالا ہے۔

    شیخ حسینہ کی انتظامیہ پر حزب اختلاف کی آوازوں اور اختلاف رائے کو منظم طریقے سے دبانے نے جمہوری عمل اور اداروں کو کمزور کردیا۔ ان کے دور میں انتخابات دھاندلی اور تشدد کے الزامات میں گھرے رہے۔ سرکاری ایجنسیوں نے ان کی ہدایت پر سازش کی اور اپوزیشن لیڈروں کو جیلوں میں ڈالتی رہیں یا ان کے خلاف مقدمات کا انبار لگا دیا گیا۔ پولیس اور دیگر سرکاری اداروں نے اپوزیشن رہنماؤں کو پھنسانے کے لیے کام زیادہ کیا۔ بدعنوانی اور اقربا پروری کے الزامات نے بھی ان کے سیاسی کیریئر کو داغ دار کیا۔ حسینہ کی حکومت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی متعدد رپورٹس سامنے آئی ہیں، جن میں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔ بین الاقوامی تنظیموں نے ان زیادتیوں کو دستاویزی شکل دی ہے، جس کے نتیجے میں مغربی ممالک نے ان خلاف ورزیوں سے منسلک کچھ سیکیورٹی فورسز کے خلاف پابندیاں بھی عائد کیں۔ حسینہ واجد کے دور میں ان حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں اور میڈیا اداروں کو اکثر ہراساں کیے جانے، قانونی کارروائی یا بندش کا سامنا کرنا پڑا۔

    حسینہ واجد کے جابرانہ اقتدار کے خاتمے کے بعد جہاں بنگلا دیش میں عوام خوشیاں اور جشن منا رہے ہیں وہیں ملکی سیاست اور خارجہ امور میں بھارت کی مداخلت کے خلاف بھی غم وغصے کا اظہار کیا جارہا ہے اور ملک میں بھارت کے خلاف بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ کی مفرور سربراہ کو بھارت کی سپورٹ سے بنگلہ دیش کی اگلی حکومت کے اپنے پڑوسی ملک سے حالات کشیدہ رہیں‌ گے۔

    حسینہ واجد جمہوریت کے لبادے میں مطلق العنانی کی واحد مثال نہیں ہیں بلکہ دنیا میں‌ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں، لیکن ان سب کے لیے بنگلہ دیش کی طاقتور ترین حکمران اور سیاسی رہنما کا یہ انجام ایک سبق ہے اور انہیں جان لینا چاہیے کہ اللہ کی طاقت کے بعد دنیا میں سب سے بڑی طاقت عوام کی ہوتی ہے۔ عوام کا سمندر اگر بے قابو ہو جائے تو زمین کے اندر گہری جڑیں رکھنے والے تناور درخت بھی اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ پھر نہ پابندیاں کام آتی ہیں اور نہ ہی حکومتی جبر، مگر طاقت اور اختیار کا نشہ ہی ایسا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا جابر اور مطلق العنان حکمران حسینہ واجد کے انجام سے سبق سیکھے۔

  • ننھے اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟ پاکستان میں بننے والی ایک حساس ڈاکیومنٹری

    ننھے اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟ پاکستان میں بننے والی ایک حساس ڈاکیومنٹری

    تاریخ ایک ایسی شے ہے جس کے بارے میں ہمیشہ کہا جاتا رہا ہے کہ لوگ اس سے سبق لیتے ہیں، کیا واقعی ایسا ہے؟ ایسا کون سا نمایاں سبق ہے جو گزشتہ پانچ سو سالوں سے نہایت تیزی سے ترقی کرتے انسان نے تاریخ سے حاصل کیا ہے، اور اسے مد نظر بھی رکھا؟

    تاریخ ایک ایسا اندھیرا ہے جس میں چلنے والی گولی کے بارے میں کبھی پتا نہیں چلتا کہ ٹریگر دبانے والا کون تھا! اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تاریخ کے صفحے پر جا بہ جا روشنی کے دائرے بنے نظر آتے ہیں لیکن ان روشن دائروں کے آس پاس ایسے ان گنت دائرے بھی بنے ہوئے ہیں جو تیز روشنیوں میں دکھائی نہیں دیتے، یہی تاریخ کے صفحے کے وہ اندھیرے دائرے ہیں جن میں رونما ہونے والے درد ناک واقعات صدیوں سے سسک رہے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جن پر ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گزرا، محض چند عشروں کی سیاہی کے آگے بھی یہ ’سچ سنانے کی ہمت‘ جٹا نہیں پائے۔ ایسے واقعات میں ایک واقعہ 14 سالہ ننھے جاں باز اقبال مسیح کا بھی ہے، جس کا سینہ منھ اندھیرے رائفل سے داغ دیا گیا۔ بندوق کی دھمک تھی یا ایک روشن روح پر اندھیرے شیطان کا بھیانک حملہ، کہ پیچھے کھڑی پرانی سی سائیکل لرز کر مٹی پر گر پڑی۔

    قصہ ایک ڈاکیومنٹری کا

    راوا (Rava) ڈاکیومنٹری فلمز کے تحت کچھ عرصے سے تسلسل کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کے ایسے گوشے ’بے نقاب‘ کیے جا رہے ہیں، جو اپنے وقت پر تو اخبار کی محض ایک سُرخی بن کر رہ گئے تھے، تاہم کہیں پر ان روشن اور کہیں پر ان تاریک دائروں میں بہت سارا ’سچ‘ یا تو ہمیشہ کے لیے دب گیا، یا اس طرح لوگوں کے سامنے ابھر کر نہ آ سکا، جس طرح آنا چاہیے تھا۔ راوا فلمز نے یہ کہانیاں تاریخ کی مٹی کھود کر نکالیں اور انھیں اسکرین کی زینت بنا دیا۔ دل چسپ امر یہ ہے ایک طرف جب کہ پاکستان میں سنیما انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے، دوسری طرف راوا فلمز کے تحت بننے والی ڈاکیومنٹری فلموں کی باقاعدہ طور پر سنیما اسکریننگ ہو رہی ہے؛ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور جرات مندانہ قدم ہے۔ راوا نے اپنا مشن بنایا ہوا ہے کہ پاکستان میں اس ژانرا کو فروغ ملے، اسی لیے تواتر کے ساتھ نہایت منفرد موضوعات پر ڈاکیومنٹریز بنائی جا رہی ہیں۔

    راوا نے اپنے یو ٹیوب چینل پر جو تازہ ترین ڈاکیومنٹری جاری کی ہے، اس کا عنوان ہے: ’’قتل معصوم _ اقبال مسیح _ ننھا جاں باز‘‘ جس کی اسکریننگ حسبِ سابق طارق روڈ پر واقع ارینا سنیما میں کی گئی۔

    اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟یہ ڈاکیومنٹری سید عاطف علی نے بنائی ہے، ڈراما انڈسٹری میں اپنا آخری ڈراما ’خان‘ بنانے کے بعد انھوں نے اگلے پڑاؤ کی طرف سفر شروع کیا، انھوں نے فلمیں ’پری‘ (2018) اور ’پیچھے تو دیکھو‘ (2022) بنائیں، اور اب راوا ڈاکیومنٹری فلمز کے تحت انھیں ’فری ہینڈ‘ مل گیا ہے کہ وہ جس موضوع پر چاہے ڈاکیومنٹری بنا لیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ڈراما ہو یا فلم میکنگ، ناظرین کو نئے تجربات سے روشناس کرایا جائے، انھیں سماج کے ایسے گوشوں اور ایسے تصورات سے متعارف کرایا جائے جو انھیں کچھ نیا سوچنے پر مائل کر سکے، چناں چہ انھوں نے سرپھری عشق کے نام سے بھی ایسا ہی ایک ڈراما بنایا تھا جو محرم پر ہم ٹی وی سے آن ایئر ہوا تھا۔ اب انھوں نے ڈاکیومنٹریز کی دنیا میں قدم رکھا ہے اور یہ ایک ایسی دنیا ہے جو مختلف رنگوں کے ان گنت شیڈز سے بھری ہوئی ہے۔ راوا کے روح رواں سابق بریگیڈیئر طارق رفیق کے ساتھ مل کر عاطف علی نے متعدد ڈاکیومنٹریز ’تخلیق‘ کی ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ ترین تخلیق ایک ایسے 14 سالہ بچے کی کہانی ہے جس نے پاکستان میں ’بونڈڈ لیبر‘ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک کہانی جو درد بھری ہے اور آنکھوں میں آنسو بھر دیتی ہے۔ اس کا اسکرین پلے بھی سید عاطف علی نے بلال حسین کے ساتھ مل کر لکھا ہے۔

    فیکٹری میں بچے گروی رکھیں

    آج جب کہ پاکستان کے جدید شہروں بلکہ دیہات تک میں بھی کوئی اس بات کو سوچ نہیں سکتا کہ ننھے بچوں کو گروی رکھ کر بھی سرمایہ داروں سے قرض کا حصول کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود یہ قبیح حمل کہیں نہ کہیں جاری ہے۔ یہ مزدوری کی ایک نہایت غلیظ شکل تھی جس میں ایک شخص کارخانہ دار سے قرض لیتا اور اسے چکانے کے لیے پھر اپنے بچے بہ طور مزدور گروی رکھ کر لگوا دیتا۔ یہ بچے اپنے باپ کے لیے گئے قرض کی رقم اپنی محنت سے چکاتے۔ اسے ’بونڈڈ چائلڈ لیبر‘ کہا جاتا ہے، جو زیادہ تر ملک میں قالین بافی کی صنعت میں رائج تھی۔ اس نے ہزاروں بچوں سے ان کی معصومیت چھینی، کھیلنے کودنے کے دن چھین کر ان پر گھر کا قرض چکانے کا سنگین ترین بار ڈالا۔ پاکستان میں بننے والے قالین بیرون ملک جاتے تھے اور ملکی برآمدات کا یہ ایک اہم ذریعہ تھا، ایک ایسا ذریعہ جس میں مصنوعات بچوں کے خون سے رنگ تھیں۔
    خون کا یہی رنگ دکھانے کے لیے سید عاطف علی اور راوا فلمز نے ’’اقبال مسیح‘‘ کے نام سے یہ ڈاکیومنٹری بنائی ہے۔

    اقبال مسیح سے ملیے!

    16 اپریل 1995 ک شام تھی جب رکھ باؤلی کے اطراف کھیتوں میں دو فائر گونجے اور ایک چودہ سالہ بچے کی لاش مٹی پر گر گئی۔ یہ ضلع شیخوپورہ کے قصبے مریدکے کے گاؤں رکھ باؤلی کا قصہ ہے جہاں 1983 میں اقبال مسیح پیدا ہوا تھا۔ اس کے بڑے بھائی کی شادی پر والد نے ارشد نامی ایک قالین باف سے قرض لیا اور پھر ادائیگی نہ کر سکنے پر اقبال کو محض 4 سال کی عمر میں اس کے ہاتھوں گروی رکھ دیا اور وہ اس طرح دن میں چودہ گھنٹے قالین بنانے کے کام پر لگ گیا لیکن وہ قرض کبھی ادا نہ ہوا۔ دس سال کی عمر میں وہ ایک دن آخر کار غلامی کا یہ پھٹہ اتار کر بھاگ گیا لیکن نو آبادیاتی نظام کو مستحکم رکھنے کے لیے مامور پولیس نے اسے پکڑ کر پھر کارخانے دار کے حوالے کر دیا۔ بھاگنے کی کوششوں میں آخرکار ایک دن وہ کامیاب ہو گیا، اور چائلڈ لیبر کے خلاف سرگرم ایک تنظیم کے پاس جا پہنچا، جس کا نام تھا ’بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ‘ (بی ایل ایل ایف)۔ یہ تنظیم اس دکھ بھری کتھا کا ایک اہم حصہ ہے اور خود اس پر بھی الزام ہے کہ اس درد بھری کہانی کو جنم دینے میں اس کا بھی کوئی ’نادیدہ کردار‘ ہے۔

    اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟

    گیارہ سال کی عمر میں بھی 4 فٹ سے کم قد والے اقبال مسیح کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی، اور چہرے مہرے کے ایسے نقوش تھے کہ جبری مشقت کے شکار بچوں کے لیے جب وہ تحریک کا حصہ بنا تو جس طرح جنگل میں آگ پھیلتی ہے، اسی طرح اس کی شہرت پاکستان سے نکل کر عالمی سطح پر پہنچ گئی۔ اسے عالمی سطح پر زندگی میں اور بعد از مرگ کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ جس دن اس کی ننھی زندگی کا چراغ گُل کر دیا گیا، وہ دن پاکستان میں قالین سازی پر بہت بھاری پڑا، اور دنیا نے جلد ہی پاکستانی قالین قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ اس میں معصوم بچوں کے ارمانوں اور ان کے مستقبل کا خون شامل ہے۔

    اقبال مسیح کو کس نے مارا؟

    یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کی تلاش میں جتنی بھی کوششیں کی گئیں، بار آور نہ ہو سکیں۔ عالمی دباؤ اور اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی خصوصی ہدایات کے باوجود ایک دن اس کیس کو ہمیشہ کے لیے فائلوں میں بند کر دیا گیا۔ معروف صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جس ملک میں لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا آج تک کوئی تعین نہیں ہو سکا، تو وہاں اقبال مسیح کے قاتل کیسے پکڑے جائیں گے۔ لیکن راوا ڈاکیومنٹری فلمز نے اس موضوع کو ایک بار پھر بند فائلوں کی گرد جھاڑ کر باہر نکال لیا ہے۔ اور سید عاطف علی نے اپنی فلم میکنگ اور ہدایت کاری کے شان دار ہنر کو بروئے کار لا کر اتنی خوب صورتی سے اسے ’تخلیق‘ کی سطح پر لا کر پیش کیا ہے کہ دیکھنے والا آخری لمحے تک یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کوئی فیچر فلم نہیں ایک سچی کہانی ایک ڈاکیومنٹری دیکھ رہا ہے، جس میں کوئی فکشن نہیں ہے جو اسے حقیقت کی دنیا سے دور لے جا کر مبہوت کر دینے والے مناظر میں گم کر دے۔ فلم اور ڈرامے کے معروف نقاد حنیف سحر نے اس ڈاکیومنٹری کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’راوا ڈاکیو منٹریز میں مسلسل نکھار آ رہا ہے، ہر نئی ڈاکیومنٹری پہلے سے زیادہ مستند اور سنیما ٹوگرافی کے کمالات کے اضافے کا ایک اطلاع نامہ ثابت ہو رہی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید لکھا ’’پہلی بار ایسا معلوم ہوا کہ عاطف علی نے اپنے ڈرامے کے تجربے کو بہت ہی مہین اور خاموش پیرائے میں نفاست سے استعمال کیا، وہ بھی ایسے کہ احساسات درہم برہم ہوئے اور پتا بھی نہیں چلا کہ آپ ڈراما نہیں بلکہ ایک دستاویزی فلم دیکھ رہے ہیں۔‘‘

    آپ ڈاکیومنٹری دیکھ لیتے ہیں اور سوال پھر بھی قائم رہتا ہے کہ اقبال مسیح کو کس نے مارا؟ اور ایک ضمنی سوال یہ بھی کہ گولی کس نے چلائی تھی؟ اس بات سے یہ غلط فہمی نہ ابھرے کہ اگر جواب فراہم نہیں ہوا تو اس ڈاکیومنٹری کا مقصد کیا تھا۔ مقصد تو بہت واضح ہے کہ تاریخ کے ایک تاریک دائرے میں چھپے اس دردناک کہانی کے ’سچ‘ کی تلاش میں جنھوں نے امیدیں تج دی تھیں، اور تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے، انھیں پھر چونکایا جا سکے کہ ان پر ایک قرض یہ بھی ہے کہ وہ اقبال مسیح کے قاتلوں کا پتا چلائیں۔

    ڈاکیومنٹری پر سوال

    راوا کی اس خوب صورت پیش کش میں سنیماٹوگرافی، ویژولز اور ایڈیٹنگ کا بہترین کام کیا گیا ہے۔ بالخصوص کرائم سین کی پیش کش بے حد عمدہ ہے۔ ساؤنڈ ایفکٹس میں بھی کوئی خامی نہیں رہنے دی گئی ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ ہم کوئی عالمی معیار کی ڈاکیومنٹری نہیں دیکھ رہے ہیں، محدود وسائل میں، بلاشبہ، یہ ایک عالمی معیار کی پیش کش ہے۔

    لیکن اس ڈاکومنٹری کا دوسرا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس کی کہانی/اسکرین پلے میں ایک اہم پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ بہ طور ریسرچر فہمیدہ یوسفی اور بلال حسین نے اس قصے کے اہم پہلوؤں کو جمع کیا، لیکن بہ طور حساس رائٹر شاید عاطف علی سے بونڈڈ چائلڈ لیبر کا یہ سماجی ثقافتی پہلو نظر انداز ہو گیا کہ ایک خاندان کس طرح اپنے قرضوں کا بوجھ ایک معصوم چار سالہ بچے پر لاد سکتا ہے؟ چناں چہ، اس پیش کش میں ہمیں اقبال مسیح کے بھائیوں کی مظلومیت پوری طرح دکھائی دیتی ہے لیکن ان سے یہ سوال نہیں کیا جاتا کہ ایک بڑے بھائی کی شادی کا قرضہ ایک معصوم بچے کے خون سے ادا کرنے کے لیے انھوں نے رضا مندی کیسے دکھائی؟ ایک غریب ہمیشہ خود کو غریب کہلوا کر بڑے سے بڑے سماجی اور اخلاقی جرائم کی ذمہ داری سے خود کو بچانے کی کوشش میں مصروف نظر آتا ہے۔ یہی ایک موقع تھا جب انھیں اس کڑے سوال کا سامنا ضرور کرنا تھا۔

    یہ ڈاکیومنٹری اپنے آغاز ہی سے ناظرین کو پوری طرح جکڑنے کی خاصیت رکھتی ہے۔ اس میں جذبات اور رشتوں اور سیاسی سفاکیوں کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ اس لیے بلاشبہ یہ سید عاطف علی کی اب تک بہترین کاوش ہے۔ لیکن اپنے مواد (کونٹینٹ) کے اعتبار سے اس میں ایک چونکانے والا موقع وہاں آتا ہے جب اچانک ڈاکیومنٹری کی فضا بدل جاتی ہے اور ایک مجرم ہونے کا سارا فوکس این جی او ’بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ‘کے سربراہ احسان اللہ خان پر آ جاتا ہے۔ یہ اتنی چابک دستی سے ہوتا ہے کہ ذہن میں خیال ابھرتا ہے کہ کیا یہی اس ڈاکیومنٹری کا مقصد ہے؟ اسٹیبلشمنٹ کے اسٹائل پر اچانک مرکوز ہوتی یہ توجہ آخر کار دھیرے دھیرے تحلیل ہونے لگتی ہے لیکن ذہن میں اپنے پیچھے دھوئیں کی ایک لکیر ضرور چھوڑ جاتی ہے۔

    اور اختتام پر پہنچنے کے بعد ایک ہی سوال ذہن میں رہ جاتا ہے، ایک دکھ بھرا سوال ۔۔۔۔ کیا اس معصوم بچے کے قاتل کا کبھی پتا نہیں چل پائے گا؟ یہ تو ایک اور دھبّا ہوگا جو یہاں کی ۔۔۔۔ ہمارے پاکستان کی ’’مقامی انسانیت‘‘ کو مزید داغ دار کرے گا۔ بلاشبہ جس انسانیت کا معیار دنیا میں اب رائج ہے، ہم ابھی اس سے بہت دور ہیں۔ ہمارے لیے اب بھی دنیا ہمارے نو آبادیاتی سماج میں سمٹی ہوئی ہے جہاں اقبال مسیح کی موت ایک غریب بچے کی موت ہے، ایسی موت جو یہاں روز کسی نہ کسی بہانے واقع ہوتی رہتی ہے۔۔۔ اور اربابِ اختیار کہہ دیتے ہیں اقبال مسیح مر گیا، تو کیا ہوا، اسے مرنا ہی تھا، اب دوسری دنیا میں سکون سے جی رہا ہوگا!

  • ٹوکیو سوینڈلرز:‌ نیٹ فلیکس کی نئی جاپانی ویب سیریز

    ٹوکیو سوینڈلرز:‌ نیٹ فلیکس کی نئی جاپانی ویب سیریز

    دنیا میں دھوکہ دہی اور جعل سازی کے واقعات عام ہیں اور اس کی مختلف شکلیں ہیں۔ اس ویب سیریز کی کہانی، موجودہ جاپان کے ایک ایسے جعل ساز گروہ کے بارے میں ہے، جس نے نہ صرف عام لوگوں کو کنگال کر دیا بلکہ کئی بڑے بڑے اداروں کو بھی لوٹ لیا۔ یہ گروہ جعل سازی کے فن میں طاق ہے اور اس کے ارکان کس طرح ہاتھ کی صفائی اور چرب زبانی کو اپنا ہتھیار بناتے ہیں، یہ سب اس ویب سیریز میں دکھایا گیا ہے۔

    پہلے سیزن کی سات اقساط اتنی شان دار ہیں کہ ایک بار آپ اسے دیکھنے بیٹھے تو خود کو اگلی قسط دیکھنے سے روک نہیں پائیں گے۔ اس ویب سیریز کا تفصیلی تجزیہ و تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    مرکزی خیال/ اسکرپٹ

    مذکورہ ویب سیریز کی کہانی ایک جاپانی ناول "ٹوکیو سوینڈلرز” سے ماخوذ ہے، جس کے مصنّف جاپانی ناول نگار کوشینجو ہیں۔ اس میں 2017ء کا وہ موقع دکھایا گیا ہے جب ٹوکیو شہر میں عنقریب اولمپکس کا انعقاد ہونا ہے۔ اس کی وجہ سے مقامی زمینوں کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ فریبی کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کے لیے کیا ستم ڈھایا جاتا ہے، یہ داستان اسی کے گرد گھومتی ہے۔

    اس ناول کے انگریزی مترجم چارلس دے وولف ہیں، جن کا تعلق امریکا سے ہے۔ انہوں نے جاپان کے معروف ناول نگار ہاروکی موراکامی کے ناولوں کا ترجمہ بھی کیا ہے اور وہ جاپانی ادب میں ڈاکٹریٹ کی سند بھی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بہترین انگریزی ترجمے کی بدولت نیٹ فلیکس کی توجہ اس کہانی پر مرتکز ہوئی اور انہوں نے اس پر ویب سیریز بنائی۔ جتنا اچھا یہ ناول لکھا گیا ہے، اسی معیار کا ویب سیریز کے لیے اسکرپٹ بھی تحریر کیا گیا ہے، اور اسے ویب سیریز کے ہدایت کار ہتوشی ون نے ہی لکھا ہے۔ ناول کی طرح ویب سیریز کی کہانی بھی چست اور دل چسپ ہے۔ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھے گی، آپ کا تجسس بھی بڑھتا جائے گا۔ اس ویب سیریز کو دیکھنے والا کہانی کے تسلسل میں بہہ کر کہیں دور نکل جاتا ہے اور یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ کب کہانی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔

    ایک شخص (تاکومی تسوجیموتو) ہے جس کی وجہ سے اس کے والد کو زمین کے سودے میں دھوکہ ہوا، ردعمل میں اس کے والد نے اپنے ہی گھر کو آگ لگا دی، جس میں اُس شخص کے اہلِ خانہ راکھ ہوگئے۔ اس راکھ نے اس کی زندگی کو گویا تاریک بنا دیا۔ اُس شخص نے انتقال لینے کی نیّت سے جعلی کاغذات کی مدد سے زمینیں فروخت کرنے والے گروہ کا پیچھا کیا، اور ان کا حصّہ بن گیا تاکہ وہ اپنے پیاروں کی موت کا بدلہ لے سکے۔

    وہ نہ صرف اس گروہ کا ایک فعال رکن بنا اور وارداتوں میں ان کا ساتھ دیتا رہا۔ بلکہ اس گروہ کی کام یابیوں کی کلیدی وجہ وہی شخص (تاکومی تسوجیموتو) ٹھہرا۔ ٹوکیو شہر کی سڑکوں پر یہ گروہ دندناتا پھر رہا تھا اور آخرکار اپنے انجام کو پہنچا۔ اس انجام کو جاننے کے لیے یہ ویب سیریز دیکھنا ہوگی جسے نیٹ فلیکس پر ہندی ڈبنگ کے ساتھ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں کہیں کہیں بے باک اور پُر تشدد مناظر بھی شامل ہیں۔

    ویب سازی/ ہدایت کاری

    اس ویب سیریز کی پروڈکشن انتہائی عمدہ ہے۔ جدید جاپان کا بے مثال شہر ٹوکیو اس کہانی میں پوری آب و تاب سے چمکتا دمکتا دکھائی دیتا ہے۔ گھروں، دفتروں، گلی کوچوں، شاہراہوں اور فضائی مناظر نے کہانی میں بے مثال رنگ بھر دیے ہیں۔ اس ویب سیریز کا تھیم سونگ، سینماٹوگرافی، ساؤنڈ، ایڈیٹنگ اور لائٹنگ انتہائی شان دار ہے، خاص طور پر بصری تأثر (ویژول ایفیکٹس) کے شعبے میں سو سے زائد ہنرمندوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے، جس نے اس ویب سیریز کو بلاشبہ ایک ماسٹر پیس بنا دیا ہے۔ نیٹ فلیکس کے ذریعے یہ ویب سیریز پوری دنیا میں دیکھی جارہی ہے اور یہ اس ویب سیریز کا پہلا سیزن ہے۔ اس کے پروڈیوسرز ہارومیاکے اور کینیچی یوشیدا ہیں جب کہ ہدایت کار ہیتوشی ون ہیں، جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جاپانی فلمی صنعت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز کے دو اداکاروں کو ہم مرکزی کرداروں کے طورپر دیکھتے ہیں، اور ویب سیریز میں ان کے نام تاکومی تسوجیموتو اور ہیریسن یاماناکا ہیں۔ ان کے اصل نام گوایانو اور ایتسوشی توایوکاوا ہیں۔ ان دونوں نے اپنی اداکاری سے اسکرین پر ایک دوسرے کو بہت مصروف رکھا۔ دونوں کی عمروں اور تجربے میں فرق ہے، اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے پر اپنے فن کے ذریعے چھائے رہے۔ ان کے ساتھ ذیلی کرداروں میں کازوکی کیتامورا، للی فرینکی، پیرتاکی اور جاپانی اداکارہ ایکو کیوکے اور ایلزیا اکیدا شامل ہیں۔ سب نے اپنے اپنے کرداروں کو بخوبی نبھایا ہے۔

    شہرت کی سیڑھیاں

    ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ ویب سیریز اپنی شہرت کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے۔ یہ ویب سیریز جاپان میں نیٹ فلیکس کے ٹاپ ٹین چارٹ میں پہلے نمبر پر موجود ہے۔ سینما کی دنیا میں معروف ترین فلمی ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس ویب سیریز کی ریٹنگ دس میں سے سات اعشاریہ تین ہے۔ مائی ڈریم لسٹ ویب سائٹ پر دس میں سے سات اعشاریہ پانچ کے ساتھ یہ ویب سیریز سرفہرست ہے۔ گوگل کے قارئین اور ناظرین میں 100 میں سے 91 فی صد نے اسے اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ جاپان کے معروف انگریزی اخبار نے اس ویب سیریز کو پانچ میں سے تین اسٹارز دیے ہیں۔ جس قدر مہارت اور چابک دستی سے اس ویب سیریز کا سیزن ون بنایا گیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ناظرین بے چینی سے اس کے دوسرے سیزن کا انتظار کریں گے۔

    حرفِ آخر

    آپ اگر ایک ایسی کہانی کو اسکرین پر دیکھنا چاہتے ہیں جس میں ہر منظر پُرتجسس اور اشتیاق سے بھرپور ہو تو یہ ویب سیریز آپ کو اسی کیفیت سے دوچار کرے گی۔ ٹوکیو کی سڑکوں پر چلتے پھرتے لوگوں کے بیچ میں یہ گروہ کس طرح زمین کے لیے دوسروں پر زمین تنگ کرتا ہے اپنی شعبدہ بازی سے، اسے اسکرین پر دیکھ کر آپ ضرور لطف اندوز ہوں گے۔ جاپان کے مؤقر انگریزی روزنامہ "جاپان ٹائمز” نے اس ویب سیریز کے بارے میں لکھتے ہوئے اسے "موسمِ گرما کی مجرمانہ خوشی” سے تعبیر کیا۔ اس سے مراد وہ خوشی جو ایک اچھی کہانی کو اسکرین پر دیکھ کر آپ کو حاصل ہوسکتی ہے۔ تو دیر نہ کیجیے، اور اس ویب سیریز کو دیکھنے کے ساتھ عہدِ حاضر کے ٹوکیو کی سیر بھی کیجیے۔

  • پرانے پاکستان میں خوش آمدید، حکمرانوں کے وعدے پورے ہوئے!

    پرانے پاکستان میں خوش آمدید، حکمرانوں کے وعدے پورے ہوئے!

    پاکستانی قوم کی اکثریت کو سب سے بڑا شکوہ یہی رہا ہے کہ کوئی حکومت ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کرتی، لیکن مبارک ہو کہ موجودہ حکومت نے عوام سے کیا گیا ایک وعدہ صرف دو ڈھائی سال کے قلیل عرصے میں ہی پورا کر دکھایا ہے اور عوام کو واقعی پرانے پاکستان میں بھیج دیا ہے اور اشرافیہ کو چھوڑ کر اکثریتی عوام کو اس پرانا پاکستان میں ویلکم کہتے ہیں۔

    زیادہ پرانی بات نہیں لگ بھگ سال قبل جب اپریل 2022 میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی حکومت کے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد اس وقت کی پی ڈی ایم حکومت کے اتحادی پی پی چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے فلور پر مسکراتے ہوئے ببانگ دہل ’’ویلکم ٹو پرانا پاکستان‘‘ کہا تھا، لیکن پاکستان کے عوام جو اس سے قبل روٹی کپڑا اور مکان، اسلامی نظام حکومت، نظام مصطفیٰ کا نفاذ، پاکستان کو ایشین ٹائیگر اور پھر ریاست مدینہ بنانے جیسے کانوں کو بھلے لگنے والے پُر فریب وعدے سن چکے تھے لیکن کوئی ایک بھی وعدہ وفا نہ ہوسکا تو اس بار بھی قوم اس کو ایک ایسا ہی کبھی نہ پورا ہونے والا وعدہ ہی سمجھ رہی تھی، لیکن ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ہمارے موجودہ حکمران اتنے ’’سچے اور دھن کے پکے‘‘ ہیں کہ ترقی معکوس کا سفر برق رفتاری سے طے کراتے ہوئے دہائیوں کا سفر صرف دو سال میں ہی پایہ تکمیل تک پہنچا دیا اور یوں 21 ویں صدی میں جیتے پاکستانی 20 ویں صدی کے وسط کے پاکستان میں پہنچ گئے۔

    قیام پاکستان کے بعد کی ابتدائی تاریخ قدرے روشن ہے کہ کچھ سال پاکستان نے ترقی اور عروج کا سفر طے کیا، لیکن پاکستان قوم بجلی، گیس، صاف پانی جیسی ترقی یافتہ ممالک کی سہولتوں سے محروم تھی جو بتدریج انہیں فراہم کر کے زندگی کو سہل بنا دیا گیا۔ تاہم آہستہ آہستہ لوڈشیڈنگ کے نام پر پہلے بجلی کے ذریعے تاریکیاں پھیلانے کا سلسلہ شروع ہوا جس کو بعد ازاں لوڈ منیجمنٹ کا نام دے دیا گیا اور پھر چند سال سے گیس کی لوڈشیڈنگ شروع کر دی گئی تھی۔ سب کچھ آہستہ آہستہ کم ہونے لگا تھا مگر تھا تو صحیح، لوگ بھی عادی ہوکر صبر وشکر سے گزارا کرنے لگے تھے، لیکن پھر پی ڈی ایم ون کی حکومت، اس کے بعد نگراں اور اب پھر پی ڈی ایم کا سیکوئل حکومت (کچھ تبدیلیوں کے ساتھ) نے ایسا کیا کہ لوگ باگ اس کم دستیاب چیز سے بھی پناہ مانگنے لگے۔

    پی ٹی آئی دور حکومت میں بجلی کا یونٹ 16 سے 17 روپے تھا اور ایک متوسط گھر کا گیس کا بل 500 سے 800 کے درمیان آتا تھا، لیکن ڈھائی سال کی مدت میں مذکورہ تین حکومتوں کے دوران جہاں توانائی کا بحران بڑھا اور اب قومی اور مذہبی تہواروں پر بجلی کے ساتھ گیس کی بندش بھی معمول بننے لگی، وہیں بجلی کا فی یونٹ بل نصف سنچری کراس کرنے کے بعد تیزی سے سنچری کی جانب گامزن ہے اور 500 روپے گیس کا بل بھرنے والے غریب بھی اب 5 سے 6 ہزار کے بل دے رہے ہیں۔ مہنگائی کی عفریت بڑھنے کے ساتھ آمدنی جوں کی توں رہنے سے عوام کی اکثریت اب بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے سے قاصر ہوچکی ہے۔ جو لوگ سولر کی استعداد رکھتے ہیں، وہ تو سولر لگوا رہے ہیں لیکن اکثریت جو روز کما کر کھانے والی ہے وہ اب دوبارہ لکڑیوں پر کھانا پکانے اور لالٹینوں اور چراغوں سے اپنے گھروں کو روشن کرنے پر مجبور ہونے لگی ہے۔

    حکومت کے اس اقدام اور عوام کے پرانا پاکستان میں جانے سے جہاں ہمارے ان بزرگوں کی دلی خواہش پوری ہوئی ہے، جو اپنے دور کو آج سے بہترین دور کہتے تھے، تو وہیں کئی دیگر فوائد بھی قوم کو حاصل ہوئے ہیں۔ جب گھنٹوں بجلی یا گیس جاتی ہے تو قوم صبر کے گھونٹ پیتی ہے اور پھر چند لمحوں کے لیے جھلک دکھاتی ہے تو منہ سے شکر کا لفظ نکلتا ہے یوں صبر اور شکر پر جو اجر و ثواب ہوتا ہے وہ حکومت اور بجلی اداروں کی پالیسیوں کی بدولت ہی ملتا ہے۔ اسی طرح سخت گرمی میں رات گئے اچانک بجلی چلی جائے اور پسینوں میں شرابور آپ کی آنکھ کھل جائے تو بجائے بجلی محکمے کو کوسنے کے، آپ اس کو اپنے لیے نعمت مترقبہ سمجھیں اور وضو کر کے تہجد کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ یوں زحمت کو رحمت میں بدل لیں گے اور دنیاوی گرمی کے بدلے جنت کی ٹھنڈی ہوائیں حاصل کرلیں گے، اگر بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پانی دستیاب نہ ہو تو تیمم کی سہولت ہم جیسے گہنگاروں کو دستیاب تو ہے۔

    ایسے ہی جب آگ برساتی گرمی میں دن کے اوقات میں بجلی جاتی ہے تو خوف آخرت جاگ سکتا ہے اور انسان نیکی کی جانب مائل ہوسکتا ہے۔ گیس دستیاب نہ ہو اور لکڑی خریدنے کی سکت بھی نہ ہو تو نفلی روزہ رکھ کر اس کی برکتیں سمیٹ سکتے ہیں۔ جہاں کچھ دنیاوی تکالیف کے ساتھ حکومت اخروی فوائد کے حصول میں معاون ومددگار بن رہی ہے۔

    آخر میں بات کر چلیں مشرف دور میں ہونے والے سانحہ نائن الیون کی کہ کہا جاتا ہے، امریکا نے اس وقت افغانستان کے خلاف جنگ میں ساتھ نہ دینے پر پاکستان کو پتھروں کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی تھی۔ اب یہ امریکا سرکار کا کہنا تھا جو وہ اگر پورا نہ کر سکا تو ہمارے حکمراں آخر کس کام آئیں گے وہ عوام کو پرانے پاکستان میں لے جانے کے بعد اب اپنے ’’دیرینہ دوست‘‘ کے حکم کی بجا آوری میں پاکستان کو پتھروں کے زمانے میں لے جانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں، اگر یقین نہ آئے تو پتھروں کے دور کی تاریخ پڑھ لیں اور موجودہ پاکستان کے حالات دیکھ لیں۔

    پتھروں کے دور کی تاریخ پڑھی جائے تو وہاں صرف بجلی اور گیس کی عدم دستیابی کا مسئلہ ہی نہیں تھا، بلکہ وہاں کوئی قانون، اصول یا حکومت نہیں ہوتی تھی۔ پتھروں کے دور میں طاقت ہی قانون، اصول اور حکومت ہوتی تھی۔ طاقتور ہر کمزور کو دبانے کا اپنے طور حق رکھتا تھا اور کوئی اس پر چوں تک نہیں کر پاتا تھا۔ آج پاکستان دیکھیں تو ہمیں یہ صورتحال پتھر کے دور سے ملتی جلتی ہی دکھائی دے رہی ہے یہاں بھی قانون، آئین کو طاقتوروں نے گھر کی لونڈی بنا دیا ہے اور جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کے مصداق طاقت کا قانون ہر جگہ نافذ ہے۔ امیر ہے تو سب نعمتیں اس کے لیے دستیاب ہیں اور اگر غریب و بے بس ہے تو اس کے لیے سانس لینا بھی دشوار ہے۔

    دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے جب کہ آخرت ہماری ابدی زندگی ہے۔ عوام کو ایسی ہمدرد حکومت کہاں ملے گی جو عوام کی عارضی زندگی کے بجائے ہمیشگی کی زندگی سدھارنے کے لیے دن رات کوشاں رہے، تو پھر عوام کیوں اس بے چاری حکومت اور اس کے اداروں سے نالاں رہتی ہے۔ شاید پاکستانی عوام یہ سوچ کر حیران ہیں کہ حکمراں طبقہ جو غریب قوم کی فکر آخرت میں گھلا جا رہا ہے وہ کیوں اپنی آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کی فکر نہیں کرتا اور عارضی دنیا کی ہر سہولت اپنے لیے سمیٹنے میں مصروف ہے، تو جناب اس کا جواب تو حکمراں یا مقتدر طبقہ خود ہی دے سکتا ہے۔ آگے ہماری زبان بند اور قلم بے بس ہے۔

    (یہ تحریر بلاگر/ مضمون نگار کے خیالات اور ذاتی رائے پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)

  • بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کا ’’موقع‘‘ مل گیا ہے!

    بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کا ’’موقع‘‘ مل گیا ہے!

    پاکستان اور بھارت میں یوں تو متعدد جنگیں اور کئی محاذوں پر گولہ بارود کا استعمال ہوتا رہا ہے لیکن ایک محاذ ایسا ہے جہاں آئے روز جنگ کا ماحول نظر آتا ہے، لیکن یہاں لڑی جانے والی جنگ کسی ہتھیار سے نہیں بلکہ گیند اور بلّے سے لڑی جاتی ہے۔ تاہم بھارت ہمیشہ اس میں بھی سیاست کو گھسیٹ لاتا ہے لیکن موقع، موقع کا راگ الاپنے والے بھارتیوں کو منہ توڑ جواب دینے کا وقت شاید اب آ چکا ہے۔

    بھارت کے کھیلوں کے میدان میں بھی سیاست کو کھینچ لانے کی وجہ سے دونوں ممالک ڈیڑھ دہائی سے باہمی سیریز بھی نہیں کھیل رہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان آئی سی سی اور ایشین کرکٹ کونسل کی سطح پر مقابلے ہوتے رہتے ہیں لیکن دیگر ٹیموں کی نسبت ایک دوسرے کے مدمقابل کم آنے اور روایتی چپقلش کے باعث کھیل کے یہ مقابلے بھی کسی جنگ سے کم نہیں ہوتے۔

    پاکستان اور بھارت کے درمیان سیریز ہوئے ڈیڑھ دہائی سے زائد عرصہ بیت گیا۔ بھارت 16 سال سے پاکستان نہیں آیا جب کہ اس دوران پاکستان نے کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا اور گرین شرٹس ہندو انتہا پسندوں کی خطرناک دھمکیوں کے باوجود تین بار ہندوستان کا دورہ کرچکے ہیں۔ 2011 اور 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ کے علاوہ 2014 میں ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے قومی ٹیم بھارت گئی تھی جب کہ دوسری جانب بھارت کا یہ حال ہے کہ وہ باہمی سیریز تو کھیلنے سے مکمل انکاری ہے، مگر اب ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے ایونٹ میں بھی پاکستان آنے کو تیار نہیں ہے۔

    پڑوسی ملک ہونے کے باوجود بھارتی اپنی روایتی ہٹ دھرمی اور اوچھے ہتھکنڈے اپناتے ہوئے گزشتہ سال پاکستان کی میزبانی میں کھیلے گئے ایشیا کپ کا بیڑہ غرق کرچکا ہے۔ بھارت کی پاکستان نہ آنے کی بے جا ضد کی وجہ سے یہ ٹورنامنٹ ہائبرڈ ماڈل کے تحت سری لنکا کے ساتھ مل کر کھیلا گیا۔ پاکستان کو میزبان ہونے کے باوجود صرف چار میچز کی میزبانی ملی جب کہ اے سی سی کی سربراہی بھارت کے پاس ہونے کی وجہ سے بلیو شرٹس کو اس کا ناجائز فائدہ دیتے ہوئے ان کے میچز ایک ہی گراؤنڈ میں رکھے، جب کہ دیگر ٹیموں کو ایک سے دوسرے ملک اور ایک شہر سے دوسرے شہر کے لیے شٹل کاک بنا دیا گیا۔

    اب پاکستان کو آئندہ سال آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنی ہے، مگر انڈین کرکٹ بورڈ کے وہی انداز ہیں جو سب سے امیر بورڈ ہونے کی وجہ سے آئی سی سی کا لاڈلہ بھی کہلاتا ہے، ایک بار پھر پاکستان میں ہونے والے اس ایونٹ کو سبوتاژ کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ ایسے میں جب تمام بڑی ٹیمیں پاکستان کھیل کر جا چکیں اور آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ ودیگر ٹیمیں چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان آنے پر رضامند ہیں ایسے میں بھارتی بورڈ نے حسب روایت اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کو حکومتی رضامندی سے مشروط کر دیا ہے، جب کہ انڈین میڈیا وصحافی بھارتی ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ جانے اور ہائبرڈ ماڈل کے تحت نیوٹرل وینیو (یو اے ای یا سری لنکا) کھیلنے کے دعوے کر رہے ہیں۔

    دوسری جانب بعض سابق بھارتی کرکٹرز جن میں ہربھجن سنگھ کا نام سر فہرست رکھا جا سکتا ہے، جو ویسے تو پاکستانی کرکٹرز سے دوستیاں گانٹھنے میں عار نہیں سمجھتے لیکن جب بلیو شرٹس کے کرکٹ کھیلنے کے لیے پاکستان آنے کی بات آتی ہے تو انہیں پاکستان غیر محفوظ ملک لگنے لگتا ہے اور وہ اس سے متعلق زہر اگلتے رہتے ہیں حالانکہ اپنے دور کرکٹ میں وہ کئی بار پاکستان کا محفوظ دورہ اور محبتیں سمیٹ کر جا چکے ہیں۔

    جب بھارت بھی مسلسل پاکستان کرکٹ کو تباہ کرنے اور پی سی بی کو نیچا دکھانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے اور اس کے لیے عالمی اور خطے کے فورمز (آئی سی سی اور اے سی سی) کو بھی اپنے مفاد میں استعمال کرنے اور بلیک میل کرنے سے گریز نہیں کرتا تو ہمیں بھی اپنی یکطرفہ محبت کی چادر کو سمیٹتے ہوئے اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے اور بھارتی جو موقع موقع کی گردان کرتے رہتے ہیں انہیں بتا دینا چاہیے کہ پاکستان کو موقع ملے تو وہ بھارت کی کرکٹ کا مزا بھی کرکرا کر سکتا ہے۔

    اور ایسا موقع اب پاکستان کے ہاتھ آ چکا ہے۔ بھارت میں آئندہ برس ٹی 20 فارمیٹ میں ایشیا کپ اور ویمنز ورلڈ کپ منعقد ہونے ہیں جب کہ 2026 میں اس کو آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ کی بھی میزبانی کرنا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ کثیر الملکی کرکٹ ٹورنامنٹ میں اگر روایتی حریف پاکستان اور بھارت یا ان میں سے کوئی ایک نہ ہو تو وہ ایونٹ نہ تو کرکٹ تنظیموں کے لیے سونے کی کان ثابت ہوسکتا ہے اور نہ ہی شائقین کرکٹ کو لبھا سکتا ہے۔

    پاکستان کرکٹ بورڈ یوں تو گزشتہ سال بھی ایشیا کپ کے لیے بھارتی ٹیم کے پاکستان نہ آنے پر اپنی ٹیم ہندوستان نہ بھیجنے کی دھمکی دے چکا تھا لیکن بھارت کی من مانی کے باوجود پی سی بی اسپورٹس اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی دی گئی دھمکی کو قابل عمل نہ بنا سکا، لیکن یہ یکطرفہ اصول اور محبت کب تک چلے گی� اب یہ بہترین موقع ہے کہ پاکستان اپنی رِٹ منوانے کے لیے ٖفیصلہ کن اعلان کرے کہ اگر بھارتی ٹیم چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ آئی تو پھر ہم بھی آئندہ سال ایشیا کپ، ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور 2026 میں مینز ٹی 20 ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے بھارت نہیں جائیں۔

    ویسے اطلاعات تو یہ ہیں کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کو بھی پاکستان کی جانب سے دو بدو جواب کا خطرہ ڈرانے لگا ہے اور بی سی سی آئی کے نائب صدر راجیو شکلا نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ اگر بلیو شرٹس آئندہ سال چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ گئے تو جوابی طور پر وہاں سے بھی بائیکاٹ ہوسکتا ہے اور اسی لیے انہوں نے بھارتی ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان آنے کا امکان ظاہر کیا ہے لیکن ساتھ ہی حکومتی پخ لگاتے ہوئے کہا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کے لیے حکومت سے رابطے میں ہیں، اجازت نہ ملی تو آئی سی سی کو ہمارے میچز نیوٹرل وینیو پر منتقل کرنا ہوں گے۔

    بھارتی بورڈ کو یہ بھی خطرہ ہے کہ چند ماہ بعد جب ایشین کرکٹ کونسل کی ذمہ داری پاکستان اور محسن نقوی کے سپرد ہوگی اس لیے ہوسکتا ہے کہ پاکستان ٹیم بھی ہائبرڈ ماڈل کی ضد
    چھیڑ دے اور یوں بھارت کا ایشیا کپ کی میزبانی خواب چکنا چور ہوجائے گا۔

    پاکستان کے پاس چند ماہ بعد ایشین کرکٹ کونسل کی صدارت آنے والی ہے اور ممکنہ طور پر چیئرمین پی سی بی محسن نقوی ہی اے سی سی کے نئے صدر ہوں گے جب کہ آئی سی سی سربراہ کی مدت بھی اسی سال ختم ہو رہی ہے جس کے لیے اب بھارت پر تول رہا ہے، لیکن اس کے لیے اسے مطلوبہ تعداد میں ممبر بورڈ کے ووٹوں کی ضرورت ہوگی، تو پاکستان بارگننگ پوزیشن میں آ چکا ہے۔

    اگر پاکستان کرکٹ بورڈ بھی بی سی سی آئی کی طرح پاکستانی ٹیم کی بھارت بھیجنے کو حکومت سے مشروط کر دے اور ہماری حکومت بھی سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ بھارتی حکومت جیسا رویہ اپنائے تو نہ صرف آئی سی سی اور اے سی سی بلکہ بھارتی حکومت اور کرکٹ بورڈ بھی پاکستان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ایونٹ میں پاک بھارت میچز جتنا ان کے خزانے بھرتے ہیں اتنا شاید پورا ایونٹ بھی نہیں بھرتا اور پیسوں کی یہ چمک اچھے اچھوں کو سیدھا کر دیتی ہے۔

    (یہ بلاگر/ مضمون نگار کے خیالات اور ذاتی رائے پر مبنی تحریر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں‌ ہے)

  • موسمیاتی آفات سے پاکستان کی پہاڑی زبانیں تباہ ہو رہی ہیں

    موسمیاتی آفات سے پاکستان کی پہاڑی زبانیں تباہ ہو رہی ہیں

    شمالی پاکستان میں 2010ء کا سیلاب اور اس کے درد ناک مناظر، تورولی-کوہستانی لغت نگار، انعام توروالی کی یادداشت میں اب بھی تازہ ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کی بدترین انسانی تباہی میں سے ایک، اس سیلاب کی وجہ سے گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے شمالی پہاڑی علاقوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ تورولی سمیت کتنے ہی لوگوں کے گھر تباہ ہوگئے۔ ان کے کھیت پانی میں ڈوب گئے جس کی وجہ سے وہ اور ان کے خاندان کو پشتون اکثریتی مینگورہ شہر کی طرف ہجرت کرنی پڑی جو ضلع سوات میں ان کے آبائی شہر سے 59 کلومیٹر دور ہے۔

    موسمیاتی آفات کی وجہ سے پہاڑی علاقوں مکین ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور اس عمل میں ان کی زبانیں اور ثقافتیں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔

    تباہی کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔ جن میں واضح طور پر ان کی آبائی زبان توروالی کو لاحق خطرہ ہے۔ انہوں نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “شہروں کی طرف ہجرت کرنے والے نوجوان، اب غالب زبانوں؛ جیسے، پنجابی، پشتو اور اردو کے بہت سے مستعار الفاظ کے ساتھ یا تو ایک مختلف تورولی بولی بول رہے ہیں، یا بالکل بھی نہیں بول سکتے۔ ان کے بھتیجے اب پشتو بولتے ہیں، جو صوبے کی زبان ہے۔

    توروالی کہتے ہیں، “موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے بحران کی شدّت سے متعلق پہاڑی کمیونٹیز کے پاس کوئی علم نہیں اور اس سے نمٹنے کے لئے کسی قسم کی حکمت عملی سے یہ لاعلم ہیں”۔ مزید براں، گلگت بلتستان کی آب و ہوا کی حکمت عملی ہجرت، اور نقل مکانی کرنے والوں کی ترسیلات کو ایک مثبت موافقت کی حکمت عملی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ خیبر پختونخوا کی موسمی حکمت عملی موسمی تبدیلی کے تحت نقل مکانی کو تسلیم کرتی ہے لیکن اس کی موافقت کی حکمت عملی آنے والے مہاجرین کے لئے بہتر شہری منصوبہ بندی کے حوالے سے محدود ہے۔ نہ ہی یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ آب و ہوا کی وجہ سے نقل مکانی، شمالی پاکستان کی ثقافتوں اور زبانوں کو کس طرح متاثر کر سکتی ہے۔

    پہاڑی خطّوں میں چھوٹی آبادیاں غیر محفوظ ہیں
    پاکستان کے پہاڑی شمالی علاقوں میں 30 سے ​​زیادہ ‘خطرے سے دوچار‘ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان میں سے بہت سی زبانیں صرف چھوٹی آبادی میں بولی جاتی ہیں، جو کہ چند ہزار پر مشتمل ہیں۔ اس خطّے میں آباد کمیونٹیز متعدد موسمی آفات کے خطرے سے بھی دوچار ہیں۔ 500 سے زائد گلیشیئرز رکھنے والے ضلع چترال کو، “17 سالوں میں 2021 تک، 13 سے زیادہ برفانی سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا، کئی گھرانے بے گھر ہوئے اور وہ سالوں تک عارضی پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور رہے”۔ گلگت بلتستان میں 2010 کے سیلاب کے علاوہ 1999 سے 2017 تک 15 گلوف (جی ایل او ایف) واقعات ریکارڈ کئے گئے۔

    چھوٹی آبادی کی بولی جانے والی زبانوں پر ان آفات کا بلواسطہ گہرا اثر ہے۔ مثال کے طور پر، جب 2018 میں گلگت بلتستان کے ضلع غذر کا گاؤں بدسوات ایک گلوف (جی ایل او ایف) کا نشانہ بنا، تو واکھی زبان بولنے والے خاندانوں کو مجبوراً گلگت شہر منتقل ہونا پڑا۔ واکھی صرف 40,000 لوگ بولتے ہیں اور یہ گلگت شہر کی زبان نہیں ہے، یہاں نئے مہاجرین کو شینا یا پاکستان کی سرکاری زبان اردو میں بات چیت کرنا سیکھنا پڑا۔

    لیکن شینا خود بھی ایسے ہی عوامل کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہے۔ گلگت سے تعلق رکھنے والے زبانوں کے محقق محمد وزیر بیگ نے بتایا کہ ان کے بہت سے رشتہ دار جو 1978 اور 2010 کے سیلاب میں اپنا گھر کھو بیٹھے تھے وہ کراچی منتقل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ، ” جب میں گزشتہ اکتوبر ان سے ملا تو میں نے ان سب کو شینا کے بجائے اردو بولتے ہوئے پایا۔

    لوگوں کے ساتھ ثقافتیں بھی بے گھر ہورہی ہیں
    اسلام آباد میں قائم فورم فار لینگوئج انیشی ایٹو (ایف ایل آئی) کے ڈائریکٹر فخرالدین اخونزادہ نے کہا کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی پہاڑی آبادیوں کو نئی زبانیں سیکھنے پر مجبور کرتی ہے، اور یہ انہیں اس جغرافیہ سے بھی دور کرتا ہے جس نے ان زبانوں کو تشکیل دیا تھا۔ .

    اخونزادہ نے کہا، “یہ زبانیں مویشیوں، کھیتی باڑی، دریاؤں، برف، اور جنگلات والے اونچے پہاڑوں سے مالا مال مخصوص ماحول میں تیار ہوئیں – یہ سب اب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ یہ زبانیں دوسرے خطوں میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لئے اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں، اور بے گھر ہونے والی آبادی اب اپنے ثقافتی تہوار نہیں مناتی، روایتی کہانیاں نہیں سناتی یا اپنی مادری زبان میں بات چیت نہیں کرتی۔ اس سے ان کی مادری زبانوں میں مہارت بتدریج ختم ہو جاتی ہے۔

    سمیع اللہ ارمان، جو ایڈورڈ کالج، پشاور میں پڑھاتے ہیں، اسے زبان کی “مارکیٹ ویلیو” میں گراوٹ بتاتے ہیں، کیونکہ یہ لوگوں کو اپنے اردگرد کا ماحول سمجھنے میں مدد نہیں دیتی۔ “کسی زبان کی مارکیٹ ویلیو جتنی زیادہ ہوگی، اتنے ہی زیادہ لوگ اسے بولیں گے، اور یہ پھلے پھولے گی،” ارمان نے کہا، جو مقامی زبانوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی ایک تحقیقی اور ترقیاتی تنظیم، مفکورہ میں شعبہ زبان، ادب اور ثقافت کے سربراہ بھی ہیں۔

    ارمان سے اتفاق کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی اور اطلاقی لسانیات کے سربراہ امجد سلیم نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ قدرتی آفات کی وجہ سے نقل مکانی صرف افراد کی نہیں بلکہ ثقافتوں کی نقل مکانی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، “جب یہ بے گھر خاندان نقل مکانی کرتے ہیں، وہ غالب زبان بولنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ اسکولوں اور بازاروں میں ان کی مادری زبان بہت کم بولی جاتی ہے۔ وہ اپنی بیگانگی کے احساس پر قابو پانے کے لئے تیزی سے غالب زبان سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس طرح ایک زبان آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔”

    زبانیں جو صرف گھروں میں بولی جاتی ہیں
    پشاور یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی اور اطلاقی لسانیات کی ریٹائرڈ استاد ڈاکٹر روبینہ سیٹھی نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کسی زبان کو محفوظ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، لیکن اس تحفظ کا اثر اس بات پر منحصر ہے کہ بچوں کو ان کے گھروں سے باہر کیا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ “اگرچہ زبان ان کے گھروں کے اندر ان کے دلوں کے قریب اور پیاری ہو سکتی ہے، لیکن باہر اس کی افادیت کا فقدان انہیں اس خطے کی غالب زبان کو اپنانے پر مجبور کرتا ہے” جہاں وہ اب آباد ہوئے ہیں۔

    اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے، عصمت اللہ دمیلی، ایک محقق جنہوں نے 2000 میں دمیلی زبان کے حروف تہجی مرتب کیے، نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “ہم اپنی مادری زبان صرف اپنے گھروں کے اندر بولنے کو ترجیح دیتے ہیں… اس حقیقت کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ایک وقت آئیگا جب آنے والی نسلیں اسے بولنے کے قابل نہیں رہیں گی۔” دمیلی زبان صرف 5,000 لوگ بولتے ہیں، اور چترال ضلع میں واقع دمیل ویلفیئر سوسائٹی کے مطابق جو زبان کے تحفظ کے لئے کام کرتی ہے – اس آبادی کا تقریباً 40 فیصد 2010 کے سیلاب کے بعد مختلف شہروں میں منتقل ہو گیا۔

    ٹھوس ڈیٹا کی کمی کسی اقدام کے راستے میں رکاوٹ ہے
    نقل مکانی متعدد عوامل سے ہوتی ہے، اور موسمیاتی تبدیلی اور جبری نقل مکانی کے درمیان ایک خطی اور اسبابی تعلق قائم کرنا مشکل ہے۔ بہرحال، پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی میں ماحولیاتی سماجیات کے پروفیسر ڈاکٹر اویس احمد نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے شمالی علاقوں سے خاص طور پر 2010 کے بعد نقل مکانی کا بنیادی محرک ہے۔ انہوں نے کہا،”لوگ ایک اور بڑی آفت سے بچنے کے لیے اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کے لئے سب کچھ کریں گے، اس لئے وہ اکیلے یا اپنے خاندان کے ساتھ پہاڑوں سے نیچے آجاتے ہیں”۔

    انعام تورولی نے اپنے تحقیقی مطالعے بعنوان “فیوچر آف توروالی مائیگرانٹس ان اربن سٹیز” میں بتایا ہے کہ 90 فیصد مہاجر خاندان مالی مجبوریوں کی وجہ سے اپنے آبائی شہروں کو واپس نہیں آئے۔ ایک قدیم ایرانی زبان یدغہ جو صرف 6,000 لوگ بولتے ہیں، کے تحفظ کے لئے وقف محقق محمد ولی، نے مزید کہا، “موسمیاتی تبدیلیوں نے پہلے سے غربت کے شکار پہاڑی علاقوں کو مزید غریب کردیا ہے اور نقل مکانی کو بڑھا دیا ہے۔ جن کے پاس ہجرت کے ذرائع ہیں وہ پہلے ہی ایسا کر چکے ہیں، پیچھے صرف وہ لوگ رہ گئے ہیں جو ضروری وسائل سے محروم ہیں۔”

    جس طرح ریاست کو موسمیاتی تبدیلی اور نقل مکانی کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، ارمان نے کہا کہ اسے ثقافتوں کے مزید زوال کو روکنے کے لئے حکمت عملی کے طور پر موسمیاتی تبدیلی کی پالیسیوں میں زبان کے نقصان کے مسئلے کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ سلیم نے اتفاق کرتے ہوئے مزید کہا، “یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نصاب میں تمام زبانوں کو شامل کرنے کے لئے اقدامات کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے بچوں کو پڑھائی جائیں اگر اس کا ارادہ چھوٹی زبانوں کو محفوظ کرنے کا ہے۔”

    (فواد علی کی تحریر ڈائلاگ ارتھ پر اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہے)

  • پاکستان کی پہلی علامتی ویب سیریز: برزخ

    پاکستان کی پہلی علامتی ویب سیریز: برزخ

    برزخ ویب سیریز دیکھنے سے پہلے یہ جان لیجیے

    آپ کے لیے جاننا ضروری ہے کہ تجریدیت کیا ہوتی ہے، علامت اور استعارہ کسے کہتے ہیں اور تمثیل کا تخلیقی اظہار کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’سُرریل ازم‘‘ (Surrealism) کیا چیز ہے، کس طرح عالمی ادب اور مصوری میں ان تمام نظریات کا استعمال ہوا۔ بعد میں بین الاقوامی فلمی دنیا نے بھی ان نظریات کو اپنایا۔ عالمی سینما میں ایسے افکار اور نظریات کی بنیاد پر فلمیں اور ویب سیریز بنانے کی روایت اب خاصی پرانی ہوچلی ہے، حتیٰ کہ ہمارے پڑوسی ممالک ہندوستان اور ایران میں بھی ایسے نظریاتی تجربات سے بھرپور فلمیں دیکھنے کو ملتی ہیں، جنہیں ہم عرف عام میں ’’متوازن سینما‘‘ یا ’’آرٹ فلمیں‘‘ کہتے ہیں۔

    پاکستان میں البتہ ان نظریات کی بنیاد پر تھیٹر، مصوری اور ادب کے شعبوں میں تو کام ہوا، لیکن ہمارا ٹیلی وژن اور سینما اس سے تقریباً محروم رہا۔ نئے فلم سازوں میں کچھ بیدار مغز اور باشعور فلم ساز ان فنی باریکیوں سے واقف ہیں، تو وہ شاید اب کچھ ایسے تجربات کریں، جن کا تذکرہ یہاں کیا گیا ہے۔ تو یوں سمجھیے ایسا ہی ایک تجربہ ویب سیریز کی دنیا میں پاکستان کی طرف سے ہوا ہے، جس کا نام ’’برزخ‘‘ ہے۔ یہ کیسا تجربہ ہے، اس کا فیصلہ آپ ویب سیریز دیکھ کر خود کریں۔ ہم نے اس کو کیسا پایا، اس پر ہمارا تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    برزخ کیا ہے؟

    عربی زبان کے اس لفظ بطور مذہبی اصطلاح دیکھنا ہوگا۔ لغوی اعتبار سے برزخ دو چیزوں کے درمیان روک اور آڑ کو کہتے ہیں جب کہ اصطلاحِ شریعت میں اس سے مراد، روح اور جسم کے درمیان، موت کے بعد سے قیامت تک کی آڑ یا درمیانی عرصہ ہے۔ مرنے کے بعد تمام جن و انس حسبِ مراتب برزخ میں رہیں گے۔ عالمِ برزخ سے کچھ تعلق دنیا اور کچھ کا آخرت کے ساتھ ہوتا ہے، جب تک کہ تمام روحیں قیامت کے روز خدا کے حضور پیش نہیں ہو جاتیں۔

    اس اصطلاح کا دنیا کے ساتھ تعلق کچھ یوں ہے، جب انسان مر جاتا ہے، تو اس کے عزیز و اقارب میّت کے ثواب کے لیے صدقہ، خیرات اور ذکر و اذکار کرتے ہیں۔ عقیدہ یہ ہے کہ اس سے میت کو ثواب پہنچتا ہے اور راحت و آرام ملتا ہے۔ آخرت کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ جو عذاب یا آرام برزخ میں شروع ہوتا ہے۔ وہ آخرت میں ملنے والے عذاب یا آرام کا ہی حصہ ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں روحیں قیامت آنے تک رہتی ہیں اور بہت ساری روحیں ایسی بھی ہیں، جو عالمِ ارواح سے باہر بھی آتی جاتی ہیں۔ اس عرصے میں بدن اور روح کا تعلق کسی نہ کسی طرح رہتا ہے، وہ ایک دوسرے کی تکلیف کو بھی محسوس کرتے ہیں۔

    اس اصطلاح اور اس سے جڑے عقائد کو مزید تفصیل سے سمجھنے کے لیے اسلامی کتب اور متعلقہ ویب سائٹس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ کائنات کی تسخیر کے لیے جو علوم وجود میں آئے، بھلے وہ اسپیس سائنس ہو یا کوانٹم فزکس، ان سب کے مطابق برزخ عدم ہے یعنی ڈارک انرجی۔ یعنی بزرخ وہ نقطۂ تبدل ہے، جس پہ حالتوں کی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اس طرح ہم مذہبی اور سائنسی دونوں پہلوؤں سے اس لفظ اور اصطلاح کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔

    مرکزی خیال/ کہانی

    مذکورہ ویب سیریز کا مرکزی خیال تو مندرجہ بالا افکار پر ہی محیط ہے، مگر ظاہر ہے، کہانی لکھتے ہوئے ویب نگار نے اس کو اپنے طرز سے بیان کیا ہے، جس میں افسانوی رنگ بھی شامل ہے۔ اس ویب سیریز کی کہانی کے مطابق، ایک پہاڑی وادی ہے، جو حسین درختوں سے لدی پھندی ہے، اس شان دار فطری مظاہر کو بیان کرنے والے گاؤں کا کرتا دھرتا، جس کو چوہدری، وڈیرا، جاگیر دار، سردار اور کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ وہ ’’آقا‘‘ نامی شخص ہے، جس نے اپنے اوائلِ جوانی میں محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی محبوبہ کو بیوی بنایا اور اس کو پتوں کا ہار پہناتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ کمانے کے لیے شہر جائے گا اور اس کے لیے سونے کا ہار بنوا کر لائے گا۔

    وہ جب کئی برسوں کے بعد شہر سے لوٹتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بیوی دنیائے فانی سے کوچ کرچکی ہے۔ اس کے بعد وہ اس کی یاد میں ایک اور شادی کرتا ہے، اور اس عورت کے بطن سے اولاد بھی نصیب ہوتی ہے، مگر وہ پہلی بیوی کو بھول نہیں پاتا جو اس کی محبوبہ بھی تھی، اور آخر کار زندگی کے اختتامی برسوں میں وہ ڈمنشیا نامی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے، جس میں انسان کی یادداشت اور حواس دھیرے دھیرے ختم ہونے لگتے ہیں۔ اب اس بوڑھے کی ضد ہے کہ وہ اپنی پہلی بیوی سے دوبارہ شادی کرے گا، جو عدم سے وجود پائے گی اور ظاہر میں اس سے ملاپ کرنے آئے گی۔ یہ مرکزی کردار ہے، جس کے اردگرد اس کے بھائی، اس کی اولاد، گاؤں کے لوگ اور مقامی پولیس افسر سمیت دیگر کرداروں کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔

    اس گاؤں میں اب یادداشت کھوتا ہوا بوڑھا اپنی شادی کی تیاری کررہا ہے۔ اولاد بھی اس مقصد کے لیے مختلف شہروں سے آچکی ہے۔ گاؤں کے لوگ اس شادی سے خوف زدہ ہیں۔ گاؤں میں چھوٹی کئی بچیاں لاپتا ہوچکی ہیں، جن کے بارے میں ایک عام خیال ہے کہ وہ روحوں کے بلانے پر ان کے ساتھ عالم ارواح میں چلی گئی ہیں۔ اس بوڑھے کی ایک لاڈلی اور معاون بیٹی کا نام شہرزاد ہے، جس کے بارے میں یہ دھندلا تاثر ہے کہ وہ اس کی اُسی پہلی بیوی سے ہے، جس نے اس کو عالمِ ارواح میں جانے کے بعد پیدا کیا اور اسے دنیا میں بھیج دیا۔گاؤں کے لوگوں کا بھی یہی خیال ہے۔

    اب آقا پُرعزم ہے اپنی شادی کے اعادے کے لیے، لاڈلی بیٹی معاونت کررہی ہے جو عالمِ ارواح کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے۔ باقی دو اولادیں اسے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہی خیال گاؤں کے تھانیدار کا بھی ہے اور گاؤں کے نمبردار کا بھی، جو آقا کا بھائی بھی ہے۔ اب اصل میں ماجرا کیا ہے۔ اجسام اور روح کس طرح اس کہانی میں مل رہے ہیں، ملیں گے بھی یا نہیں اور کیا ہوگا، اس پر کہانی آپ کو متجسس کیے رکھے گی، جس کو توجہ سے دیکھنا ضروری ہے، کیونکہ بہت کچھ علامتوں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ بوجھ اٹھائے چلتے ہوئے اجسام، کبوتر، پرانی روایات کی کتاب، لال رنگ کے ملبوسات، گلابی رنگ کا دھواں اور بہت کچھ اس کہانی کو تہ در تہ بیان کر رہا ہے، البتہ اس کہانی میں بہت سارے ایسے تصورات بھی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی مذہبِ اسلام سے کوئی تعلق ہے۔ وہ مصنّف کے ذہن کی اختراع ہے اور انہوں نے اپنی کہانی میں کئی افسانوی رنگ بھرے ہیں۔ اردو اور انگریزی میں بیان کی گئی، اس کہانی کے مصنف عاصم عباسی ہیں۔

    پروڈکشن اور دیگر تخلیقی شعبے

    یہ ویب سیریز پاکستان اور ہندوستان کی مشترکہ پروڈکشن ہے۔ پاکستان سے اس کے مرکزی اور معروف پروڈیوسر وقاص حسن ہیں۔ ہندوستان سے شلجا کجروال اس ویب سیریز کی مرکزی پروڈیوسر ہیں، وہ اس ویب سیریز کے ہدایت کار عاصم عباسی کے ساتھ ماضی قریب میں ’’چڑیلز‘‘ ویب سیریز کے لیے بھی بطور پروڈیوسر کام کرچکی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی ویب سیریز ’’قاتل حسینوں کے نام‘‘ اور ’’دھوپ کی دیوار‘‘ سمیت پاکستانی فلم ’’لیلیٰ بیگم‘‘ شامل ہیں، جن میں وہ پروڈیوسر کے فرائض نبھا چکی ہیں۔ ان دونوں کے علاوہ بھی اس ویب سیریز میں دونوں ممالک سے مزید کئی پروڈیوسرز شامل ہیں۔

    مذکورہ ویب سیریز سمیت یہ تمام پروڈکشنز زی زندگی (زی فائیو) کے لیے کی گئی ہیں، جو معروف ہندوستانی اسٹریمنگ پورٹل ہے۔ ہندوستانی پروڈیوسر شلجا کجروال کا پاکستانی فلم سازوں کے ساتھ اس قدر اشتراک حیرت انگیز ہے، جب کہ ابھی تو کئی برسوں سے دونوں ممالک کا ماحول یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی فلمیں اپنے اپنے ملک میں ریلیز نہیں کرسکتے، جس اسٹریمنگ پورٹل پر یہ مشترکہ پروڈکشن کی بنیاد پر سارا پاکستانی کونٹینٹ ریلیز کیا جا رہا ہے، یہ اسٹریمنگ پورٹل تو پاکستان میں کام ہی نہیں کرتا ہے۔ آپ گوگل کرکے دیکھ سکتے ہیں، پھر بھی ہندوستانی پروڈیوسر کی اس قدر دل چسپی قدرے مشکوک بھی ہے، کیونکہ ان میں سے اکثر تخلیقی منصوبے متنازع بھی ہیں، جس طرح اب ’’برزخ‘‘ جیسی ویب سیریز میں امرد پرستی جیسے قبیح فعل کو بھی کہانی کا حصہ بنایا گیا ہے، جس کی ضرورت کہانی میں محسوس نہیں ہوتی، مگر یہ اس کا حصہ ہے۔

    مجموعی حیثیت میں یہ ویب سیریز بطور پروڈکشن ڈیزائن اچھی ہے، جس کے پیچھے ایرج ہاشمی کی کوششیں شامل ہیں۔ اس ویب سیریز میں تمام ضروری پہلوؤں کا خیال رکھا گیا ہے، مگر خاص طور پر دو چیزوں نے بہت متاثر کیا، جن میں پہلی چیز بصری اثرات (ویژول ایفکٹس) ہیں، جن میں پاکستان سے محمد عمر اسلم اور ہندوستان سے ششی سنگھ راجپوت نے اپنی صلاحیتوں کا جادو جگایا۔ دوسری اہم چیز موسیقی ہے،جس کو پاکستان کی نئی نسل سے تعلق رکھنے والے معروف گلوکار اور موسیقار سرمد غفور نے ترتیب دیا ہے، جو قابلِ ستائش ہے۔ سینماٹو گرافی مواعظمی کی ہے، جب کہ اس کے ساتھ دیگر شعبوں، جن میں ایڈیٹنگ، لائٹنگ، کاسٹیوم، آرٹ ڈیزائننگ، آڈیو اور دیگر شامل ہیں۔ ان تمام متعلقہ شعبوں میں پیشہ ورانہ کام دیکھنے کو ملا ہے۔

    ہدایت کاری

    اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عاصم عباسی ایک بہت اچھے ہدایت کار ہیں، جنہوں نے فیچر فلم ’’کیک‘‘ سے مجھے متاثر کیا، میں نے ان کی وہ فلم ریویو بھی کی تھی، لیکن اس کے بعد اب جا کر، اس ویب سیریز سے انہوں نے اپنے خالص تخلیقی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ عاصم عباسی چونکہ مذکورہ ویب سیریز کے مصنّف بھی ہیں، جو کہ میری رائے میں ان کا کمزور شعبہ ہے، اس لیے انہیں صرف اپنی ہدایت کاری پر ہی توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم ان کا مزید خوب صورت اور تخلیقی کام دیکھ سکیں۔

    ڈائریکٹر عاصم عباسی

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں سب سے بہترین اداکار جس کا انتخاب کیا گیا، وہ سلمان شاہد ہیں۔ وہ لیونگ لیجنڈ ہیں، اس کے علاوہ مرکزی کرداروں میں فواد خان اور صنم سعید کے علاوہ پوری کاسٹ ہی تقریباً درست انتخاب ہے۔ ان دو باصلاحیت اداکاروں کی جگہ اس کہانی میں نہیں بنتی تھی، نجانے کیوں ان کو کاسٹ کیا گیا، یہ دونوں اپنے کرداروں کو نبھانے میں ناکام رہے۔ ان کے ہاں تصنّع اور جذبات سے عاری اداکاری دیکھنے کو ملی ہے، یہ مس کاسٹنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے وہ اپنے مزاج کے لحاظ سے دیگر کئی کرداروں میں متاثر کن کام کرچکے ہیں، خاص طور پر فواد خان تو بہت عمدہ اداکار ہیں، البتہ صنم سعید کو ہماری ڈراما انڈسٹری نے اداکارہ بنا دیا، ورنہ ان کا اصل کیریئر ماڈلنگ تھا، وہ وہیں ٹھیک تھیں۔ اس ویب سیریز میں پس منظر میں آواز یعنی صداکاری کے لیے بھی صنم سعید کا انتخاب کیا گیا، جب کہ ان کی آواز صداکاری کے لیے موزوں نہیں ہے، انھیں سنتے ہوئے محسوس ہوگا کہ وہ ناک میں بول رہی ہیں۔ یہ سب تو ہدایت کار کو دیکھنا ہوتا ہے، ظاہر ہے اس میں اداکاروں کا کوئی قصور نہیں ہے۔

    اسی ویب سیریز میں محمد فواد خان، میثم نقوی اور کلثوم آفتاب جیسے انتہائی شان دار اداکار اور صدا کار موجود ہیں، جنہوں نے اداکاری بھی خوب جم کر کی۔ ان میں سے کسی کی آواز کو استعمال کر کے کہانی کی پڑھنت کو چار چاند لگائے جاسکتے تھے۔

     تیسری قسط میں وہ منظر، جب ایک کردار (کلثوم آفتاب) اپنی بیٹی کی گمشدگی کے بارے میں گاؤں والوں کو بتا کو رہا ہے اور اپنی ممتا کا دکھ بیان کررہا ہے، یہ منظر اور مونو لاگ(خود کلامی)‌ اس ویب سیریز میں صنم سعید کی پوری اداکاری پر بھاری ہے۔

    اب جب روایتی میڈیم اور سنسر بورڈ وغیرہ سے جان چھڑا کر آزاد میڈیم کے لیے چیزیں تخلیق کر ہی رہے ہیں تو برانڈنگ پرفامرز کی بجائے اسٹینڈنگ پرفامر کو موقع دینا ہوگا، جس طرح ہندوستان میں دیا جاتا ہے، ورنہ ہم اسٹریمنگ پورٹلز کی آزاد دنیا میں بھی جلد اپنا اعتبار کھو دیں گے۔ تنقید برائے تعمیر سمجھ کر ان پہلوؤں پر ضرور غور کیا جائے۔

    حرف آخر

    اس ویب سیریز کے تناظر میں سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر کمنٹس میں منفی و مثبت تاثرات پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بارے میں کیا سوچا جا رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، جو خوش آئند ہے۔ میری حتمی رائے بھی یہی ہے کہ یہ ایک اچھی ویب سیریز ہے، جس پر عاصم عباسی اور ان کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔

    قارئین! اگر آپ علامت، استعارہ، تشبیہ اور تجرید میں دل چسپی لیتے ہوئے ایک ایسی کہانی دیکھنے کے طلب گار ہیں تو یہ ویب سیریز آپ کو لطف دے گی۔ آپ اس ویب سیریز کو یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ معمولی چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کوشش کو سراہیے۔ہمیں امید ہے، ہمارے یہ نئے تخلیق کار مستقبل میں مزید متاثر کن کہانیاں دیں گے اور ہمیں حیران کرتے رہیں گے۔