موسمیاتی تبدیلی: عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ اور نیا عالمی ضمیر

climate change pakistan cop 29

رواں سال دنیا کے لیے موسمیاتی بحران کی شدت اور عالمی ماحولیاتی انصاف کے مطالبات کے حوالے سے ایک اہم موڑ ثابت ہو رہا ہے۔ جولائی کے آخر میں عالمی عدالتِ انصاف (ICJ) نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ایک تاریخی مشاورتی رائے دی ہے، جسے چھوٹی جزیرہ ریاستوں، ماحولیاتی کارکنان اور ترقی پذیر ممالک کی دیرینہ کاوشوں کی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ فیصلہ ایک طرف بین الاقوامی قوانین میں ماحولیاتی ذمہ داریوں کی وضاحت کرتا ہے، تو دوسری طرف عالمی طاقتوں کو ایک اخلاقی آئینہ دکھاتا ہے۔ دنیا کی اعلی ترین عدالت میں اس کیس کا دورانیہ 6 سال پر محیط تھا۔ یہ آئی سی جے کے سامنے آنے والا اب تک کا سب سے بڑا معاملہ تھا جس میں 91 ملکوں نے تحریری بیانات جمع کرائے جب کہ 97 ملکوں نے زبانی دلائل میں حصہ لیا۔

عدالتی رائے کی روشنی میں پاکستان نہ صرف مضبوط مؤقف اپنا سکتا ہے بلکہ موسمیاتی انصاف پر مبنی فنڈنگ اور امداد کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے۔

یہ سفر 2019 میں اُس وقت شروع ہوا جب موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ بحرالکاہل کی چھوٹی ریاست وانواتو (Vanuatu) نے بین الاقوامی عدالت سے یہ درخواست کی کہ وہ اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی ماحولیاتی ذمہ داریوں کی قانونی تشریح کرے۔ وانواتو کے ساتھ ٹووالو، مارشل آئی لینڈز، اور دیگر درجنوں جزیرہ ریاستیں بھی کھڑی ہو گئیں جو سمندر کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ طلبہ، سماجی تنظیموں‌ اور سول سوسائٹی کے نیٹ ورکس نے اسے ایک عالمی تحریک میں بدل دیا۔ یہ محض قانونی مشورہ نہیں بلکہ انسانیت کا وہ مقدمہ تھا جس میں مدعا علیہ پوری دنیا تھی۔

عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات نہ کرنا بین الاقوامی انسانی حقوق اور ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ تمام ریاستیں ماحول کو نقصان سے بچانے کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری رکھتی ہیں، مشترکہ مگر امتیازی ذمہ داری کا اصول ان پر لاگو ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ امیر اور صنعتی ممالک کو زیادہ بوجھ اٹھانا ہوگا۔

عالمی عدالت کے فیصلے پر بڑے ممالک کا ردعمل دلچسپ مگر مختلف رہا۔ امریکہ، آسٹریلیا اور بھارت نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ مشاورتی رائے ”مذاکرات کے عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچاؤ کے لیے فوری، مؤثر اور مساوی اقدامات عالمی قانون کے تحت ضروری ہیں۔ انسانی حقوق، بالخصوص زندگی، صحت، اور باعزت رہائش کا حق، موسمیاتی تبدیلی سے براہِ راست متاثر ہو رہا ہے۔

یہ رائے اگرچہ باضابطہ ”قانونی طور پر لازم” نہیں، مگر اقوامِ متحدہ، ماحولیاتی ادارے، اور دنیا بھر کی عدالتیں اس کو مستقبل میں حوالہ کے طور پر استعمال کر سکتی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے، جو عالمی آلودگی کے محض 1 فیصد کے ذمہ دار ہیں مگر شدید موسمیاتی آفات (سیلاب، خشک سالی، گلیشیئر پگھلاؤ، ہیٹ ویو اور دیگر) کا سامنا کر رہے ہیں، یہ فیصلہ ایک اخلاقی اور قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے تاکہ وہ ترقی یافتہ ممالک سے موسمیاتی انصاف کا مطالبہ کر سکیں۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب، جس نے پاکستان کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا، ماحولیاتی عدم مساوات کی زندہ مثال ہے۔ اب اس عدالتی رائے کی روشنی میں پاکستان نہ صرف اقوام متحدہ میں مضبوط مؤقف اپنا سکتا ہے بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے موسمیاتی انصاف پر مبنی فنڈنگ اور امداد کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے۔

عالمی عدالت کے فیصلے پر بڑے ممالک کا ردعمل دلچسپ مگر مختلف رہا۔ امریکہ، آسٹریلیا اور بھارت نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ مشاورتی رائے ”مذاکرات کے عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔” ان نمائندوں کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی فورمز زیادہ موزوں پلیٹ فارم ہیں۔ گویا وہ قانونی ذمہ داری کے بجائے رضاکارانہ اقدامات پر زور دیتے ہیں۔ چین نے کہا کہ ترقی پذیر دنیا کو مالی مدد ضرور ملنی چاہیے مگر ہر ملک کی ”قومی خود مختاری” کا احترام بھی لازم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین بھی قانونی پابندیوں کے بجائے باہمی سمجھوتوں کو ترجیح دیتا ہے۔ یورپی یونین نے جزوی حمایت کی، اور کہا کہ وہ پہلے ہی Net Zero کے اہداف اور گرین انرجی پر کام کر رہے ہیں، مگر بعض یورپی ملکوں نے فیصلے کے قانونی اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی

یہ واضح ہے کہ بڑی طاقتیں فیصلے کے سیاسی اور قانونی مضمرات سے باخبر ہیں مگر مکمل قبولیت کے لیے تیار نہیں۔ لیکن عالمی دباؤ اور اخلاقی بوجھ کے باعث وہ اس سے مکمل طور پر انکار بھی نہیں کر سکتیں۔

عدالتی فیصلے کے فوراً بعد، دنیا بھر میں اس پر مختلف آرا سامنے آئیں۔ چھوٹے ممالک، ترقی پذیر دنیا، اور ماحولیاتی تحریکوں نے اسے ”انصاف کی طرف پہلا عملی قدم” قرار دیا۔ وانواتو کے وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، رالف ریگنوا (Ralph Regenvanu) نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ فیصلہ ہماری توقعات سے بھی زیادہ مضبوط ہے، اب دنیا یہ نہیں کہہ سکتی کہ ماحولیاتی تباہی کے خلاف کارروائی صرف ایک اخلاقی مسئلہ ہے، یہ ایک قانونی ذمہ داری ہے۔“

تاہم کچھ بڑی طاقتوں، خاص طور پر وہ ممالک جن کی معیشتیں کوئلے، تیل اور گیس پر انحصار کرتی ہیں، نے اس فیصلے کو نرم الفاظ میں لیا اور خود پر لاگو قانونی نتائج کو نظر انداز کیا۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ اقوامِ متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنسیں (COP) اس فیصلے کی بنیاد پر مزید سخت قانونی معاہدوں کی طرف جا سکتی ہیں۔ ”ماحولیاتی انصاف“ اب صرف ایک سماجی نعرہ نہیں رہا، بلکہ اقوام متحدہ، عالمی عدالتیں، اور بین الاقوامی معاہدے اسے قانونی اور عملی اصول کے طور پر تسلیم کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں ICJ کا یہ فیصلہ ایک سنگِ میل ہے، جو درج ذیل پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے:

آلودگی پھیلانے والا ازالہ کرے: جو ملک ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں، انہیں ہی مالیاتی طور پر اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔

نسل در نسل انصاف: موجودہ نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئندہ نسلوں کو محفوظ ماحول دے۔

شہری حقوق اور ماحول: صاف ماحول تک رسائی کو بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

پاکستان، جو دنیا کے سب سے کم کاربن خارج کرنے والے ملکوں میں شامل ہے، ہر سال موسمیاتی آفات کا بوجھ سہتا ہے۔ 2022 کے سیلاب میں ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب آگیا۔ 1700 سے زائد افراد جان سے گئے اور 3 کروڑ سے زائد متاثر ہوئے، جب کہ معاشی نقصان 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ 2025 میں بھی غیر متوقع گرمی کی لہر، قحط، اور قبل از وقت مون سون نے ماحولیاتی بحران کی سنگینی کو مزید بڑھایا ہے۔ پاکستان کے لیے ICJ کا فیصلہ اس لیے اہم ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون میں اس کے مقدمے کو تقویت دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک پر مالی، تکنیکی اور اخلاقی دباؤ بڑھے گا۔ پاکستان اب Loss & Damage فنڈ، گرین کلائمیٹ فنڈ، اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر قانونی بنیاد پر معاوضے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ پاکستانی عدالتیں اور پارلیمان اب ماحولیاتی انصاف کے اصولوں کو داخلی قانون سازی میں شامل کر سکتی ہیں۔

عالمی عدالت انصاف کا یہ فیصلہ اگرچہ قانونی طور پر لازم نہیں، مگر اس کا اخلاقی وزن اور سیاسی اثر زبردست ہے۔ یہ انسانی تاریخ کے اس موڑ پر آیا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ بقاء کا مسئلہ بن چکی ہے۔ پاکستان، جو ماحولیاتی عدم مساوات کا زندہ استعارہ ہے، اب ایک مضبوط مقدمہ پیش کر سکتا ہے: ”ہم نے آلودگی نہیں پھیلائی، مگر ہم مر رہے ہیں۔” اب وقت ہے کہ عالمی ضمیر جاگے، اور قانون، اخلاق، اور انصاف ایک ہی زبان بولیں۔ اب یہ اقوام، سول سوسائٹی، اور پالیسی سازوں پر منحصر ہے کہ وہ اس قانونی رائے کو عملی اقدامات میں کیسے ڈھالتے ہیں۔