غدر:‌ دہلی کالج کی بربادی اور مسٹر ٹیلر کا انجام

ہندوستان میں انگریز راج کے واقعات اور 1857ء کے ہنگامے تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ غدر کے دوران دلّی کے مشہور تعلیمی ادارے کو بھی نقصان پہنچا تھا جس پر بابائے اردو مولوی عبدالحق نے مرحوم دہلی کالج کے نام سے کتاب لکھی تھی۔ یہ ایک مدرسہ تھا جسے 1828ء میں کالج بنا دیا گیا تھا۔

ادبی مضامین اور مشاہیر کی تحریریں‌ پڑھنے کے لیے کلک کریں

اس کالج کے پرنسپل ٹیلر صاحب باغیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ اساتذہ بھاگ نکلے تھے جن میں سے کچھ جان بچا سکے اور باقی قتل ہوئے۔ کالج کو بڑا نقصان پہنچا جس کے بارے میں مالک رام لکھتے ہیں:

"اس شورش سے کالج کو بہت نقصان ہوا۔ مدرسوں میں جو لوگ دیسی سپاہی کے چنگل سے بچ نکلے، وہ تتر بتر ہو گئے۔ کتاب خانہ وقف تاراج ہوا۔ جاہلوں نے کتابوں کو چیر پھاڑ کے ورق ورق کر دیا۔ یہاں کا سامان توڑ پھوڑ کر اسے ہمیشہ کے لیے بیکار بنا دیا۔”

غدر کے بعد سات برس تک بند رہنے والے اس کالج کو جگہ کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ کھولا گیا مگر اب پہلے والی شکل نہیں رہ گئی تھی اور 1877ء میں اس کا انجام ہوگیا۔ مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب کے اس پارے میں ہندوستانی سپاہیوں اور مشتعل لوگوں کے انگریز اساتذہ پر حملے اور کالج میں توڑ پھوڑ کا افسوس ناک واقعہ یوں سنایا ہے:۔

گیارھویں مئی پیر کا دن تھا۔ کالج کا وقت صبح کا تھا۔ پڑھائی حسبِ معمول ہو رہی تھی۔ ساڑھے آٹھ بجے چند لالہ ہانپتے کانپتے آئے، ان کی سراسیمگی اور وحشت کا عجیب عالم تھا۔ دوڑے دوڑے آتے اور جماعتوں میں بے تحا شا گھس گئے اور اپنے لڑکوں سے کہا، گھر چلو، بھاگو غدر مچ گیا، سپاہی اور سواروں نے لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ یہ سنتے ہی لڑکے اپنے اپنے بستے سنبھال چمپت ہونے لگے۔

پرنسپل صاحب حیران و ششدر تھے کہ یہ کیا تماشا ہے۔ اتنے میں میگزین کا چپراسی آیا اور کمانڈنٹ کا خط لایا، اس میں مرقوم تھا کہ شورش بپا ہو گئی ہے اور حالت لمحہ بہ لمحہ خطرناک ہوتی جاتی ہے، مصلحت یہ ہے کہ آپ فوراً مع انگریزی اسٹاف کے یہاں آجائیں اور میگزین میں پناہ لیں۔ پرنسپل ٹیلر، رابرٹس ہیڈ ماسٹر، اسٹوارٹ سیکنڈ ماسٹر، اسٹینر تھرڈ ماسٹر بوکھلائے ہوئے بھاگے اور میگزین میں پناہ گزیں ہوئے۔

مسٹر ٹیلر کالج ہی کی کوٹھی میں رہتے تھے۔ رابرٹس کا بنگلہ بھی کالج کے احاطے میں تھا، ان کے بیوی بچے بھی ساتھ رہتے تھے، اسٹوارٹ منصور علی خاں کی حویلی میں اور اسٹینر کشمیری دروازے کی طرف کسی مکان میں اقامت گزیں تھے۔ پروفیسر یسوع داس رام چندر چاندنی چوک میں ایک کوٹھے پر رہتے تھے۔

اس کے بعد ہندستانی سپاہیوں نے میگزین کو گھیر لیا۔ وہ ہر انگریزی چیز کو تباہ کرتے چلے آتے تھے۔ میگزین میں پانچ چھے انگریز افسر اور دو تین سارجنٹ تھے۔ ان لوگوں نے اپنی ننھّی سی جماعت سے بڑی پامردی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے میں ہندستانی سیڑھیاں لگا کر میگزین کی دیواروں پر چڑھ گئے۔ جب انگریزوں کو کمک کی کوئی توقع نہ رہی تو انھوں نے میگزین کو آگ لگا دی اور ہزاروں ہندستانیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ کوئی پانچ انگریز خود بھی لقمۂ اجل ہوئے۔

مسٹر ٹیلر اور مسٹر اسٹینر جان بچا کر بھاگے اور میگزین سے صحیح سلامت باہر نکل آئے، لیکن ہوش و حواس باختہ۔ حیران تھے کہ کہاں جائیں، ہر سمت موت کھڑی نظر آتی تھی۔ رابرٹس غریب تو وہیں ڈھیر ہو گیا اور اسٹوارٹ بھی میگزین کے شعلوں کے نذر ہوئے۔ بہ ہزار دقّت ٹیلر صاحب کالج کے احاطے میں آئے اور اپنے بڈھے خانساماں کی کوٹھری میں گھس گئے۔ اس نے انھیں محمد باقر صاحب مولوی محمد حسین آزاد کے والد کے گھر پہنچا دیا۔ مولوی محمد باقر سے ان کی بڑی گاڑھی چھنتی تھی۔ انھوں نے ایک رات تو ٹیلر صاحب کو اپنے امام باڑے کے تہ خانے میں رکھا لیکن دوسرے روز جب ان کے امام باڑے میں چھپنے کی خبر محلّے میں عام ہو گئی تو مولوی صاحب نے ٹیلر صاحب کو ہندستانی لباس پہنا کر چلتا کیا۔ مگر ان کا بڑا افسوس ناک حشر ہوا۔

غریب بیرام خاں کی کھڑکی کے قریب جب اس سج دھج سے پہنچے تو لوگوں نے پہچان لیا اور اتنے لٹھ برسائے کہ بچارے نے وہیں دم دے دیا۔ بعد میں مولوی محمد باقر صاحب اس جرم کی پاداش میں سولی چڑھائے گئے، اور ان کا کوئی عذر نہ چلا۔ مولوی محمد حسین آزاد کا بھی وارنٹ کٹ گیا تھا۔ مسٹر ٹیلر کے مارے جانے میں ان کی بھی سازش خیال کی گئی تھی اور ان پر بھی قوی شبہ تھا، مگر یہ راتوں رات نکل بھاگے اور کئی سال تک سرزمین ایران میں بادیہ پیمائی کرتے رہے جب معافی ہوئی تو ہندستان واپس آئے۔

مسٹر ٹیلر نہایت قابل، نہایت ہمدرد اور شریف النفس انسان تھے۔ ان کے مرنے کا سب کو رنج اور صدمہ تھا۔ ان کے حالات میں کالج کے اساتذہ کے عنوان کے تحت الگ لکھوں گا، اس سے معلوم ہوگا کہ یہ کیسا عجیب و غریب شخص تھا۔

اسٹینر صاحب سب سے اچھے رہے، میگزین اُڑنے سے جو اس کی چہار دیواری میں درز پڑگئی تھی اس سے ٹیلر صاحب کے ساتھ باہر نکل آئے۔ ٹیلر صاحب کی اجل تو انھیں کالج کی طرف لے گئی اور اسٹینر کی حیات انھیں جمنا پار میرٹھ لے گئی۔ وہاں یہ زندہ بچ گئے اور غدر کی پُر آشوب دارو گیر سے محفوظ رہے۔

رہے پروفیسر رام چندر، یہ پیدل چل کر پن چکی کی سٹرک پر ہوتے ہوئے قلعے کے سامنے آئے۔ انھوں نے دیکھا کہ چند ترک سوار یا مغلوں کا دستہ ننگی تلواریں ہاتھ میں لیے ہوئے لال ڈگی کی سڑک پر آرہا ہے۔ یہ اسے دیکھ کر اپنے گھر کی طرف مڑ گئے اور چاندنی چوک کے کوٹھے پر صحیح سلامت پہنچ گئے۔ وہاں سے انھیں ان کے بھائی رام شنکر داس اپنے ساتھ لے گئے اور کایستوں کے محلّے میں اپنے کسی عزیز کے ہاں جا چھپایا، مگر ان کے اقربا نے اس خیال سے کہ ان کی وجہ سے کہیں ہم پر آفت نہ آئے ان کا وہاں زیادہ قیام گوارا نہ کیا۔ ان کا ایک قدیم نوکر جاٹ تھا، اس نے بڑی وفاداری اور رفاقت کی۔ انھیں جاٹ بنا کر گنواروں کے سے کپڑے پہنا پگڑ بندھوا اپنے گانو لے گیا اور وہاں رکھا۔ وہاں سے یہ باولی کی سرا میں انگریزی لشکر سے جا ملے۔

رابرٹس صاحب کی دو لڑکیاں اور پانچ عیسائی طلبا بھی ان بے رحموں کے ہاتھ سے مارے گئے۔