جمہوری بدو اور آمریت کا اونٹ

تیسر ی دنیا کے کسی بھی ملک کے حالات پر نظر ڈالیے۔ ڈکٹیٹر خود نہیں آتا، لایا اور بلایا جاتا ہے اور جب آ جاتا ہے تو قیامت اس کے ہم رکاب آتی ہے۔ پھر وہ روایتی اونٹ کی طرح بدوﺅں کو خیمے سے نکال باہر کرتا ہے۔

باہر نکالے جانے کے بعد کھسیانے بدو ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگتے ہیں۔ پھر ایک نایاب بلکہ عنقا شے کی جستجو میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اپنے سے زیادہ غبی اور تابع دار اونٹ تلاش کر کے اسے دعوت دینے کے منصوبے بنانے لگتے ہیں، تاکہ اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر اپنے خیمے میں رہ سکیں اور آقائے سابق الانعام یعنی پچھلے اونٹ پر تبرا بھیج سکیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ڈکٹیٹر سے زیادہ مخلص اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس معنی میں کہ وہ خلوصِ دل سے یہ سمجھتا ہے کہ ملک و ملّت سے جس طرح ٹوٹ کر وہ محبت کرتا ہے اور جیسی اور جتنی خدمت وہ تنِ تنہا کر سکتا ہے، وہ پوری قوم کے بوتے کا کام نہیں۔ وہ سچ مچ محسوس کرتا ہے کہ اس کے جگر میں سارے جہاں کا درد ہی نہیں، درماں بھی ہے۔ نیز اسی کی ذات واحد خلاصہ کائنات اور، بلاشرکت غیرے، سرچشمہ ہدایت ہے۔

اس میں شک نہیں کہ اس کے پاس ان لا مسائل (Non-issues) اور فرضی قضیوں کا نہایت اطمینان بخش حل ہوتا ہے جو وہ خود اپنی جودتِ طبع سے کھڑے کرتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اخباری معمے (کراس ورڈ) بنانے والوں کی طرح پہلے وہ بہت سے حل اکٹھے کر لیتا ہے اور پھر اپنے ذہنِ معما ساز کی مدد سے آڑے ترچھے مسائل گھڑتا چلا جاتا ہے۔

رائے کی قطعیت اور اقتدار کی مطلقیت کا لازمی شاخسانہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بندگانِ خدا سے اس طرح خطاب کرتا ہے جیسے وہ سب پتھر کے عہد کے وحشی ہوں۔ وہ ہمہ وقت اپنی شیشہ پلائی ہوئی دیوار سے خطاب کرتا رہتا ہے، مگر قد آدم حروف میں اس پر لکھا ہوا نوشتہ اسے نظر نہیں آتا۔ مطلق العنانیت کی جڑیں دراصل مطلق الانانیت سے پیوست ہوتی ہیں۔ چنانچہ اوامر و نواہی کا انحصار اس کی جنبشِ ابرو پر ہوتا ہے۔ انصاف کی خود ساختہ ترازو کے اونچے نیچے پلڑوں کو، اپنی تلوار کا پاسنگ، کبھی اس پلڑے اور کبھی اس پلڑے میں ڈال کر برابر کر دیتا ہے۔

( مشتاق احمد یوسفی کی کتاب “آبِ گم” کے پیش لفظ سے اقتباس)