اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے ساتھ 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائے معاہدے کی تفصیلات جاری کر دیں جس میں پاکستان نے آمدنی بڑھانے کیلیے ٹھوس یقین دہانی کرائی ہے۔
معاہدے کی تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف نے حالیہ شرح سود میں اضافے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو مانیٹری پالیسی مزید سخت کرنا ہوگی، مہنگائی کم کرنے کیلیے اس میں سختی لانا ہوگی۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری ضروری ہے، بینک کو مانیٹری پالیسی پر خود مختار کام کرنے کا موقع دینا ضروری ہے، ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کے حساب سے ہونا چاہیے جبکہ مالیاتی خسارہ کم کرنے کیلیے صوبوں کو سرپلس بجٹ دینا ہوگا، ٹیکس آمدن بڑھانے کیلیے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔
’پاکستان میں مہنگائی کی شرح 25.9 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ 2023 میں مہنگائی کی شرح 29.6 فیصد رہی۔ 2022 میں مہنگائی کی شرح 12.1 فیصد تھی۔‘
آئی ایم ایف نے کہا کہ پاکستان کی معیشت پست شرح نمو کا شکار رہے گی، معاشی ترقی کی شرح محض 2.5 فیصد ہو سکتی ہے، 2024 میں بے روزگاری کی شرح 8 فیصد ہو سکتی ہے جو 2023 میں 8.5 فیصد رہی اور 2022 میں 6.2 فیصد تھی۔
’پاکستان کا مالیاتی خسارہ معیشت کا 7.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ معیشت میں قرضوں کا حجم 74.9 فیصد رہے گا۔ زرمبادلہ کے ذخائر 8.9 ارب ڈالر رہیں گے۔ پاکستان نے ریونیو میں اضافے کیلیے ٹھوس یقین دہانی کرائی ہے۔ رواں سال کے دوران پرائمری سرپلس 401 ارب روپے رکھا جائے گا۔‘
تفصیلات کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ نے کہا کہ زراعت اور تعمیرات پر ٹیکس عائد کیا جائے گا، توانائی کے شعبے میں اخراجات محدود کیے جائیں گے اور سبسڈی بتدریج کم کی جائے گی، اس کے علاوہ تنخواہوں اور پنشن کی مد میں اخراجات کو کم کیا جائے گا، پنشن کے شعبے میں اصلاحات لائی جائیں گی۔
’پاکستان کو زرمبادلہ ذخائر بڑھانے کی ضرورت ہے۔ حکومت اسٹیٹ بینک سے نیا قرض نہیں لے گی۔ ایف بی آر میں ٹیکس ریفنڈ کے مسائل کو فوری حل کیا جائے گا۔ پاور سیکٹر کے بقایاجات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں توانائی کے شعبے کی کارکردگی بھرپور نہیں۔ سرکلر ڈیٹ 2500 ارب روپے کو پہنچ رہا ہے۔ سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان پر سختی سے عمل کی ضرورت ہے۔‘
آئی ایم ایف نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں سرمائے کی قلت دور کرنے کی ضرورت ہے، غیر ضروری سبسڈیز کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا، بی آئی ایس پی جیسے کفالت پروگرامز کی فنڈنگ میں اضافہ کیا جائے گا، مرکزی اور صوبائی حکومتیں بہبود کے شعبے میں فنڈز بڑھائیں گی، درآمدات پر پابندیاں ختم کی جائیں گی، شرح تبادلہ کنٹرول کرنے کیلیے رسمی اور غیر رسمی طریقے استعمال نہیں ہوں گے۔
’گیس سیکٹر کے نقصانات بڑھ رہے ہیں۔ اس میں تاخیر سے ادائیگی مسائل کا سبب بن رہی ہے۔ گیس کی قیمت بنیادی لاگت سے کم ہے۔ گیس شعبے کے انتظامی اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ گیس شعبے کی وصولی معیار کے مطابق نہیں۔ برآمدی شعبے کو گیس کی سبسڈی دینا درست نہیں لہٰذا قیمت بڑھانا ہوگی۔‘
آئی ایم ایف نے کہا کہ پروگرام میں رہتے ہوئے پاکستان عالمی ادائیگیاں نہیں روکے گا، تعلیم اور صحت کے شعبوں پر بجٹ بڑھانے کی ضرورت ہے، محصولات بڑھانے کیلیے سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی بڑھانے کیلیے اقدامات کرنا ہوں گے، ایف بی آر ریفنڈکیش کی صورت میں ادائیگیاں کرنے سے گریز کرے۔
’انکم ٹیکس ریفنڈ اور سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگیاں کلیئر کرنا ہوں گی۔ سیلز ٹیکس ریفنڈ 183 ارب اور انکم ٹیکس ریفنڈ 215 ارب تک پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان میں پاور سیکٹر میں اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔ ڈسکوز ریکوری نہیں کر رہی، ٹیرف ڈیفرینشل کے باعث گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے۔‘
تفصیلات میں کہا گیا کہ نیشنل اکاؤنٹس کی سہ ماہی رپورٹ جاری کی جائے گی، سرکاری اداروں میں گورننس کی بہتری کیلیے قانون کو فعال کیا جائے گا، بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔