تذکرۂ دل عظیم آبادی

جسونت رائے ناگر گجراتی برہمن کے بیٹے نے اسلام قبول کیا اور شیخ محمد عابد کے نام سے سرفراز ہوئے، یہی شیخ محمد عابد آگے چل کر دل عظیم آبادی کہلائے۔

معروف تذکرے طبقاتُ الشّعراء کے علاوہ تذکرہ شعرائے اردو از میر حسن میں آپ کا ذکر موجود ہے۔ تذکرۂ شورش عظیم آبادی، تذکرۂ مسرت افزا اور گلزار ابراہیم خلیل بھی ان کے ذکر سے معمور نظر آتے ہیں۔

دل عظیم آبادی کے معاصرین سخن وروں میں مشہور ترین شعراء سید جبار علی، رئیسِ چنار گڑھ بسمل متخلص جو مدتِ دراز تک عظیم آباد میں رہے۔ خواجہ میر درد دہلوی، میر تقی میر، مرزا محمد رفیع سودا، شیخ محمد روشن جوشش (یہ سگے بھائی تھے اور انھوں نے بھی دل عظیم آبادی کے ساتھ ہی اسلام قبول کیا تھا)، میر وارث علی نالاں، سید حبیب اللہ تحسین، اشرف علی خاں فغاں، محمد قلی خاں مشتاق۔ ان کے دیوان کی بازیابی و بازیافت میں سید وصی احمد بلگرامی اور مرتب محمد ظفیر الحسن کے ساتھ ہی اگر مہر نیم روز کے مدیر اعلیٰ ادیب شہیر جناب حسن مثنی ٰ ندوی کی ذاتی دل چسپیاں شامل نہ ہوتیں تو آج کسی کو کیا پتا چلتا کہ عظیم آباد میں ایک ایسا شاعر بھی گزرا ہے جو خواجہ میر درد، مرزا رفیع سودا اور میر تقی میر کا ہم عصر تھا اور جس نے ان کے سامنے نہ صرف اپنا کلام سنایا بلکہ داد بھی پائی!

کوثر چاند پوری لکھتے ہیں کہ شاعری کی یہ بہت پرانی خصوصیت ہے کہ بعد میں آنے والے شعراء نے پہلے شاعروں کے افکار و خیالات سے فائدہ اٹھایا ہے اور ان کے چراغِ تخیل کی لَو سے اپنے شعور میں نئی شمع جلائی ہے۔ یہی طریقہ عرب کے شعراء و فصحا میں بھی رہا ہے کہ خیال مستعار لے کر اپنے شاعرانہ تصرفات نیز اسلوب کے سانچے میں ڈھال کر اسے اپنے مخصوص اندازِ بیاں، لہجہ اور آہنگ میں پیش کر دیا کرتے تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مرزاغالب نے بھی دل عظیم آبادی کا تتّبع کیا۔

جی میں ہے اب کسی کی سنیے نہ اپنی کہیے
یک کنجِ عافیت میں چپکے ہو بیٹھ رہیے (دل)

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو (غالب)

گوہرِ مقصود تو کیا خاک ہاتھ آوے گا دل
عشق میں اس کے نظر آتا ہے سودا جان کا (دل)

فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسد
دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا ( غالب)

دل کا جو کلام ہمیں دست یاب ہوسکا وہ صرف ان کا ایک قلمی نسخہ ہے جو نواب مہدی علی خاں نے سنہ 1315ھ (1897) میں خریدا تھا جس کے صفحات کی تعداد 160 اور اس میں موجود کلام میں غزلیں 323، قطعات 6 اور رباعیات کی تعداد 16 ہے جب کہ اس دیوان کی کتابت تقریبا دو سو سال قبل ہوئی۔ گو دل نے تعلیم و تربیت کہاں سے پائی، نشو و نما کہاں ہوئی، فنِ سخن میں کس کے شاگرد تھے اس کی کچھ خبر نہیں، البتہ تذکرہ نگاروں نے ان کی علمی قابلیت کی نہ صرف ستائش کی بلکہ سب ہی ان کی صلاحیت کے معترف تھے، دل شعر گوئی کے ساتھ ساتھ عروض و قافیہ کے فن سے بھی واقفیت رکھتے تھے اور بقول عشقی قواعدِ عروض پر ایک کتاب بھی “عروض الہندی“ کے نام سے لکھی۔

کلامِ دل سے ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو نمایاں ہوتے ہیں، ایک تو دنیاوی ہنگاموں سے بیزاری ملتی ہے۔ ترکِ علایق پسند کرتے ہیں اور عزلت نشینی اختیار کی ہوئی تھی۔ آخری وقتوں میں وہ درویشی کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ انھوں نے لوگوں سے ملنا جلنا کم کر دیا تھا، شاید عمر کی پختگی نے انھیں حقائق آشنا کردیا تھا اور ہوسکتا ہے کہ ان کا نام عابد بھی ان پر اثر انداز ہوا ہوگا اور وہ عابد و عارف ہوگئے۔ پر ایسا نہیں تھا کہ وہ اسبابِ جہاں سے غافل ہوگئے تھے، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انداز میں استغناء پیدا ہو گیا تھا۔

ہاتھ اپنے آگیا جب نقد استغنائے دل
پھر کمی کس چیز کی سب کچھ مہیا ہے مجھے

دل کی وفات کا ذکر کسی تذکرے میں نہیں ملتا البتہ ان کی موت کا علم پہلے پہل تذکرہ عشقی سے ہوتا ہے اور اس کا زمانۂ تصنیف سنہ 1205ھ سے سنہ 1230ھ ہے اور ان کی وفات اسی زمانے میں ہوئی ہو گی۔

کیونکہ مصحفی نے اپنا تذکرہ سنہ 1209ھ (1794) میں مکمل کیا اور دل کو زندہ لکھا۔

(احتشام انور کے مضمون سے ماخوذ)