کن بڑے بلے بازوں کی وکٹیں اڑانے پر وسیم اکرم پر قومی ٹیم کے دروازے کھلے؟

سوئنگ کے سلطان کے لقب سے مشہور سابق قومی کپتان وسیم اکرم کو پاکستان ٹیم میں آنے کے لیے انہیں اس دور کے مشہور چار کرکٹرز کو آؤٹ کرنا پڑا۔

وسیم اکرم پاکستان کرکٹ کے ماضی کا ایسا درخشاں ستارہ ہیں جنہوں نے کئی کارہائے نمایاں انجام دیے لیکن قومی ٹیم میں آنے کے لیے انہیں خود کو کس طرح ثابت کرنا پڑا یہ محنت اور جدوجہد کی ایک کہانی ہے۔

3 جون 1966 کو لاہور کے ایک متوسط گھرانے میں میں پیدا ہونے والے وسیم اکرم نے اپنی ابتدائی تعلیم کیتھڈرل اسکول میں حاصل کی اور کرکٹ کا جنون انہیں 15 برس کی عمر میں ہی اسکول ٹیم کا کپتان بنا گیا اور ان کی غیر معمولی کارکردگی نے کئی کلب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی تھی، تاہم اس وقت شاید کوئی نہیں جانتا ہوگا کہ یہ لڑکا آنے والے وقت میں پاکستان کرکٹ کا درخشاں ستارہ ہوگا جس کی دھوم پوری دنیا میں ہوگی۔

وسیم اکرم کہتے ہیں کہ اس دور میں انہیں کرکٹ سے اتنا لگاؤ تھا کہ وہ ظہیر عباس، آصف اقبال اور مشتاق محمد کو شوق سے کھیلتا دیکھتے تھے۔

نوعمر وسیم اکرم نے لدھیانہ کلب کی جانب سے لاہور جیمخانہ کے خلاف ایسا میچ کھیلا جو ان کے لیے قومی اور پھر بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے کھول گیا۔ ہوا یوں کہ اس میچ میں کئی بڑے کرکٹر بھی کھیل رہے تھے جب وسیم اکرم نے رمیز راجا، انتخاب عالم سمیت چار اہم کھلاڑیوں کو آْؤٹ کیا تو پی سی بی کی ان پر نظریں جم گئی اور انہیں کرکٹ بورڈ کے ٹیلنٹ کیمپ کے لیے منتخب کر لیا گیا۔

ایک دن پریکٹس کے دوران انہیں جاوید میاں داد کو بولنگ کرانے کا موقع ملا جہاں لیجنڈ بلے باز نوجوان وسیم اکرم کی بولنگ سے بہت متاثر ہوئے اور پھر ان ہی کے زور دینے پر وسیم اکرم کو نیوزی لینڈ کے خلاف پیٹرنز الیون کے تین روزہ میچ کیلیے ٹیم کے 14 کھلاڑیوں میں شامل کرلیا گیا۔

وسیم اکرم نے اس کے بعد پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ 1984 میں انہیں نیوزی لینڈ کے خلاف فیصل آباد میں ہونے والے ایک روزہ انٹرنیشنل میچ کیلیے ٹیم میں منتخب کیا گیا جس کے بعد انہوں نے کیویز کے دیس جانے کا ٹکٹ کٹا لیا اور یوں دنیائے کرکٹ کو وسیم اکرم کی صورت ایک بہترین بولر ملا جو آگے چل کر دنیا کا بہترین آل راؤنڈر بھی بنا۔