مارکیٹ میں دستیاب 80 فیصد تک بوتل بند پانی میں پلاسٹک کے باریک ذرات اور پوشیدہ کیمیکلز پائے گئے ہیں، جو امراض قلب اور ہارمون کے عدم توازن بلکہ کینسر کا باعث بھی سکتے ہے۔
ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گاڑی میں چھوڑ دی جانے والی پلاسٹک کی بوتلوں سے پانی پینا جسم میں بتدریج زہر پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔
سرطان، بانجھ پن، بچوں میں نشوونما کی سستی اور ذیابیطس جیسے امراض سے جُڑے ہوئے ہیں۔ یہ خطرہ اس وقت کئی گنا بڑھ جاتا ہے جب بوتلیں گرمی میں بند گاڑی کے اندر چھوڑ دی جائیں اور ایئر کنڈیشنر بھی بند ہو۔
نیویارک پوسٹ کے مطابق جریدے مائیکرو پلاسٹک میں شائع ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی پینے سے خون میں مائیکرو پلاسٹک (ننھے ذرات) کے داخل ہونے کے نتیجے میں بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے۔
چین کی نانجنگ یونیورسٹی کے محققین نے پلاسٹک کی بوتلوں کو 70 درجۂ حرارت پر چار ہفتے تک رکھا ہے جس کا نتیجہ حیران کن تھا۔
پلاسٹک کے ایک عام جزو "پولی ایتھلین ٹیریفتھالیٹ ” سے ایک زہریلا دھات "اینٹیمونی” اور خطرناک مادہ "بیسفینول اے ” پانی میں خارج ہو گیا۔
اینٹیمونی سے فوری طور پر سر درد، چکر، متلی اور پیٹ درد جیسی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں، جبکہ طویل مدتی اثرات میں پھیپھڑوں کی سوزش اور معدے کے السر شامل ہیں۔
دوسری جانب بیسفینول اے سرطان، دل کی بیماریاں، آٹزم اور قبل از وقت موت جیسے خطرات سے منسلک ہے۔
جدید لیزر ٹیکنالوجی سے کی گئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک پلاسٹک بوتل میں اوسطاً 2 لاکھ 40 ہزار ذرات موجود ہوتے ہیں، جب کہ نل کے پانی میں یہ مقدار محض 5.5 ذرات فی لیٹر پائی گئی۔
یہ نہایت باریک "نینو پلاسٹکس” خون اور دماغ کے خلیوں میں براہِ راست داخل ہوسکتے ہیں اور اپنے ساتھ "فتھالیٹس” جیسے کیمیکلز لے جاتے ہیں جو پلاسٹک کو مضبوط اور لچک دار بناتے ہیں۔
فتھالیٹس سے بچپن کی پیدائشی خرابیاں، سرطان، دماغی زوال، دمہ، بانجھ پن اور بچوں میں سیکھنے کی دشواریاں جیسی بیماریاں جڑی ہوئی ہیں۔