’پاکستان پر اشرافیہ قابض، کوئی ان پر ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں‘

ماہر معاشیات شہباز رانا کا کہنا ہے کہ پاکستان پر اشرافیہ قابض ہو چکی ہے جو ایک دوسرے کا تحفظ کرتی ہے اور کوئی ان پر ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں۔

معروف ماہر معاشیات شہباز رانا نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام خبر میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے معاشی مسائل اور غریب عوام کے حالات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ملک کے عوام کی اکثریت سخت تکلیف میں اور سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے۔ چند ہزار کمانے والے غریب کیلیے ہزاروں کا بجلی بل اور سب سے زیادہ تنخواہ پانے والے کو مفت بجلی یہ دیکھ کر انہیں اذیت ہوتی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان پر اشرافیہ قابض ہو چکی ہے جو ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور وہ اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ کوئی ان پر ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں۔

شہباز رانا نے کہا کہ ایلیٹ کلاس کا قبضہ دیکھنا ہے تو انکم ٹیکس آرڈیننس کا شیڈول نکال کر دیکھ لیں کہ کس کس کو ٹیکس معاف، وہاں کچھ نہیں کرتے جب غریب کو ریلیف دینے کی بات آتی ہے تو انہیں بین الاقوامی معاہدے یاد آ جاتے ہیں۔

ماہر معیشت نے کہا کہ یہ درست کہ ہم بدترین معاشی حالات سے گزر رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی منظوری کے بغیر بجلی بلوں میں رعایت تو کیا اقساط تک نہیں کر سکتے لیکن کابینہ کو کل کس نے روکا تھا کہ افسران اور اشرافیہ کی مفت بجلی ختم نہ کریں اس پر تو آئی ایم ایف کی کوئی قدغن نہیں تھی بلکہ وہ تو خوش ہوتا لیکن انہوں نے یہ اقدام نہیں کیا کیونکہ ان کی نیت ہی ٹھیک نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں کئی ماہ سے بتایا جا رہا تھا کہ ٹیکنو کریٹ کی زبردست حکومت آ رہی ہے جو انہیں بہترین دستیاب تھی وہ لے آئے لیکن ان سے کام نہیں ہو رہا ہے، وزیراعظم نے بجلی بلوں پر عوامی احتجاج کا نوٹس لیا، اس کے بعد میٹنگ پر میٹنگ کر رہے ہیں لیکن اب تک عوام کو ریلیف نہیں دیا گیا، اگر کچھ نہیں کر سکتے تو عوام کو جھوٹے دلاسے تو نہ دیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آئی ایم ایف معاہدے کے خلاف جائیں لیکن آپ 464 ارب کی بجلی چوری، کم ریکوری اور نقصانات کو ختم کرکے بھی عوام کو ریلیف دے سکتے ہیں۔

 

شہباز رانا کا یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ نگراں حکومت میں کسی کا دوسرے پر اعتبار نہیں، معیشت پر ایسے لوگوں کو بٹھایا ہے جو ایک دوسرے سے بات کرنے کے روادار نہیں، وزیر خزانہ اور مشیر میں سیریس ایشو ہیں۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ جو ٹیم بنائی ہے وہ حالات پر قابو پائے گی لیکن اس قسم کے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ مارکیٹ میں ایک افراتفری جیسی صورتحال ہے جس کا نتیجہ ڈالر کے 325 تک پہنچنے کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے اور دیگر مسائل بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ان حالات میں مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ نظام کیسے چلے گا ان کی ٹھیک کرنے کی نیت نہیں اور سب ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔

ماہر معاشیات نے کہا کہ حالات اس نہج پر آ چکے ہیں کہ اب لوگ خودکشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں۔ جو بھی ملک چلا رہے ہیں میرا ان سے ہمدردانہ مشورہ ہے کہ اس وقت ملک کے معمول کے حالات نہیں ہیں۔ سنگین مسائل کا سامنا ہے اور انہیں قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔