فلسطین کی آزادی کے لیے سیاسی اور قانونی میدان میں جہدوجہد جاری رکھتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ظلم و ستم کے خلاف قلم کے سہارے لڑنے والے ایڈورڈ سعید کو دنیا ایک دانش وَر کے طور پر جانتی ہے۔ وہ فلسطینی عربوں کی مؤثر آواز تھے۔
ایڈورڈ سعید ایک سیاسی کارکن، ماہرِ تعلیم اور علمی و ادبی شخصیت تھے جنھیں اس وقت امریکا منتقل ہونا پڑا جب فلسطینیوں کو جبراً ان کی زمین سے بے دخل کیے جانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور ان کی جگہ یہودیوں کی آباد کاری کے لیے ظلم و ستم توڑے گئے۔
وہ یروشلم کے باسی تھے۔ پروفیسر ایڈورڈ سعید 1935ء میں پیدا ہوئے اور 1947ء میں پناہ گزیں کی حیثیت سے امریکا چلے گئے۔ ایڈورڈ سعید انگریزی زبان میں لکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں ان کے نظریات اور افکار زیادہ تیزی سے پھیلے اور ان کی پہچان بنے۔ ان کا تعلق یروشلم کے امیر اور کاروباری گھرانے سے تھا۔ ایڈورڈ سعید نے اعلیٰ درجے کے تعلیمی اداروں میں پڑھا اور بعد میں امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی سے مزید تعلیم حاصل کی۔ انگریزی ادب میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کرنے والے ایڈورڈ سعید نے بعدازاں اسی زبان میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ امریکا میں تعلیم مکمل کر کے نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھانے کے ساتھ وہ اپنے ادبی ذوق اور فنونِ لطیفہ میں دل چسپی کے مطابق بھی کام کرتے رہے۔ ایڈورڈ سعید نے متعدد کتابیں اور مقالے لکھے لیکن ان کی وجہ شہرت اورینٹل ازم ہے جس کا شرق شناسی کے نام سے اردو ترجمہ بھی ہوا۔ اس کتاب میں یہ بحث کی گئی ہے کہ مشرقی اقوام اور تمدن کے بارے میں مغرب کا تمام علمی کام نسل پرستانہ اور سامراجی خام خیالی پر مبنی ہے۔
ایڈورڈ سعید آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور عوام کے سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے قلمی اور عملی طور پر ساری زندگی کوشاں رہے۔ ان کے مباحث نے اس ضمن میں یورپی نقطۂ نظر کو بدلا۔ وہ ایسے کھرے اور بے باک دانش ور تھے جنھوں نے امریکا میں رہنے کے باوجود فلسطین سے متعلق امریکا اور اسرائیل کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی۔ بالعموم مشرق اور بالخصوص فلسطین سے متعلق یورپی دانش وروں کے تقریر اور تحریر کا عالمانہ تجزیہ کیا اور اس کا مدلّل اور مؤثر جواب دیا۔
فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایڈورڈ سعید کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے 1977ء میں انھیں ’فلسطین نیشنل کونسل‘ کی رکنیت دی گئی، جو 1991ء تک برقرار رہی۔ ایڈورڈ سعید مذاکرات کو فلسطین میں قیامِ امن اور اس مسئلے کے تصفیے کا حل سمجھتے تھے، لیکن اسرائیل کی جانب سے ان پر فلسطینی عوام کی بے جا حمایت جنگ کی حمایت کا الزام لگایا جاتا رہا اور فلسطین کے پُرامن تصفیے کی ہر کوشش کو برباد کیا گیا۔
ایڈورڈ سعید نے نہ صرف سیاست بلکہ ادب میں بھی اپنی بصیرت اور نظریہ سازی کی بنیاد پر نام و مقام حاصل کیا۔ ان کی تحریریں رجحان ساز ثابت ہوئیں۔ مشرق آپ کی تنقید و تحقیق کا بنیادی موضوع رہا۔ انھوں نے پہلی بار مکمل صراحت کے ساتھ ادب پر کالونیاتی اثرات کا جائزہ بھی لیا اور اسے بہت اہم اور وقیع کاوش مانا جاتا ہے۔
ایڈورڈ سعید کی پہلی کتاب جوزف کونرڈ کی خود نوشت آپ بیتی پر نقد و نظر تھی، جو 1966ء میں شائع ہوئی۔ انھوں نے اس کے خطوط کے تناظر میں اس کے نثری اسلوب کا تنقیدی تجزیہ کیا تھا۔ جین آسٹن، رڈیارڈ کپلنگ پر بھی ایڈورڈ سعید نے مقالے لکھے۔ ان کی مشرقیت سے متعلق بیسویں صدی کی انتہائی متاثر کن کتاب میں ہمیں مشرقی دنیا اور خاص کر عرب ملکوں سے متعلق مغربی علما کی رائے کا تجزیہ ملتا ہے۔ وہ 1977ء سے 1991ء تک فلسطین نیشنل کونسل کے رکن رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کی، تاہم 1993ء میں کونسل کی رکنیت سے کچھ اختلافات کے سبب مستعفی ہوگئے تھے۔ ایڈورڈ سعید کی جانب سے اسرائیل کے ظلم و بربریت کا پردہ چاک کرتے ہوئے اور بعض مذہبی معاملات پر کڑی تنقید کے بعد امریکا میں ان سے مخاصمانہ رویہ اپنا لیا گیا تھا۔ تاہم انھوں نے اپنے بے لاگ تبصروں اور راست گوئی کا سلسلہ بند نہیں کیا۔ اسرائیل کی مخالفت اور عربوں حمایت سے باز رکھنے کے لیے ان پر بہت دباؤ ڈالا گیا اور دھمکیاں بھی دی گئیں، لیکن وہ اپنے مؤقف پر قائم رہے۔
وہ موسیقی سے شغف ہی نہیں بلکہ اس کا خوب علم بھی رکھتے تھے جس کی مثال وہ چار کتابیں ہیں جو ایڈورڈ سعید نے اس موضوع پر لکھی تھیں۔ ایڈورڈ سعید کو ان کی علمی اور سماجی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ ماہر تعلیم کے طور پر انھیں بیس کے قریب یونیورسٹیوں کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں جب کہ ان کی خود نوشت سوانح عمری ’Out of Place‘ نے تین ایوارڈ جیتے۔
25 ستمبر 2003ء کو فلسطین کی حمایت اور آزادی کے لیے بلند ہونے والی یہ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی تھی۔