ملک بھر میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنا اپنا منشور لے کر ووٹروں کو راغب کرنے اور جیت کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے پر آمادہ نظر آتی ہیں۔ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 220 میں عوامی مسائل کیا ہیں؟ یہ حلقہ کن علاقوں پر مشتمل ہے۔ کتنے امیدوار الیکشن میں کھڑے ہیں اور ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ اس رپورٹ میں اس کا ایک مختصر احاطہ کیا گیا ہے۔
این اے 220 میں شامل علاقے:
قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 220 حیدرآباد کے قدیم شہری علاقوں پر مشتمل ایک وسیع حلقہ ہے جس میں تاریخی پکا قلعہ، پٹھان کالونی، جیل روڈ، ہیر آباد، ٹاور مارکیٹ، سرفراز کالونی، چھوٹکی گٹی، فقیر کا پڑ، پریٹ آباد، ریشم گلی، سرے گھاٹ، شاہی بازار، تھوڑا چاڑی، دو قبر، پکا قلعہ، لونگ بھگت گٹی، جمن شاہ کا پڑ، اسٹیشن روڈ، ہوم اسٹیڈ ہال، گاڑی کھاتہ، بھائی خان چوک، جمن شاہ کا پڑ، پولیس لائن ہیڈ کوارٹر، رسالہ روڈ، کھوکھر محلہ، گاڑی کھاتہ، قاضی قیوم روڈ، ہالہ ناکا، گھمن آباد، کلہوڑہ کالونی، غریب آباد، پٹھان کالونی، کمہار پاڑہ، اسلام آباد، ملت آباد، صدر کینٹ، ڈیفنس، سول لائن، حُر کیمپ، ممتاز کالونی، فردوس کالونی، سخی پیر، عثمان آباد، چوڑی پاڑہ، پھلیلی پڑیٹ آباد، فقیر کا پڑ، آفندی ٹاؤن، ٹنڈو میر محمود، اولڈ پاور ہاؤس، جڑیل شاہ کالونی، مچھر کالونی، ساگر کالونی، کرسچن کالونی، خورشید ٹاؤن، کالی موری، گوٹھ لالو لاشاری، گرونگر، اسٹیشن روڈ، ریلوے کالونی سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔
اس حلقے میں ووٹرز کی مجموعی تعداد 4 لاکھ 61 ہزار 32 ہے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 54 ہزار 55 جب کہ خواتین ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 6 ہزار 977 ہے۔ جن کے لیے 347 پولنگ اسٹیشنز اور 1256 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں۔
حلقے کے اہم مسائل:
اگر علاقے کے مسائل کا احاطہ کیا جائے تو ملک بھر کی طرح بجلی، پانی، گیس کے عمومی مسائل اس حقلے کے عوام کو بھی درپیش ہیں۔ بجلی مہنگی ہونے کے ساتھ زائد اور غلط بلنگ، آئے دن ٹرانسفارمز کا اڑ جانا اور پھر مہینوں اس علاقے کی بجلی بند رہنا، ٹرانسفارمرز لگانے کے لیے مبینہ بھاری رشوت کی وصولی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور سیوریج کا ناقص نظام، سرکاری اسپتالوں میں مطلوبہ سہولیات کا فقدان، شہر میں کوئی سرکاری اعلیٰ تعلیمی ادارے کا نہ ہونا جیسے مسائل ہیں۔ کھیلوں کے میدان نہیں، تفریحی سہولتوں کا فقدان ہے۔
رواں صدی کے ابتدائی عشرے میں جو پارک بنے تھے وہ بھی عدم توجہی کے باعث اجڑا چمن بن چکے ہیں۔ بے روزگاری عروج پر ہے۔ نلکوں میں پانی نہیں آتا شہریوں کو اس مہنگائی میں صاف پانی بھی خرید کر پینا پڑتا ہے۔
حلقے میں کس کا پلڑا بھاری:
یہ حلقہ 1988 کے انتخابات سے ایم کیو ایم کا محفوظ حلقہ تصور کیا جاتا ہے جہاں ما سوائے الیکشن 1993 جس میں ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے باعث ن لیگ کے صاحبزادہ شبیر حسن انصاری رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے یا پھر الیکشن 2002 میں جے یو پی کے صاحبزادہ زبیر نے ایم کیو ایم کے آفتاب شیخ کو انتہائی کم ووٹوں کے فرق سے اپ سیٹ شکست سے دوچار کیا تھا۔ ہر بار ایم کیو ایم کے امیدوار ہی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے آئے ہیں۔
گزشتہ انتخابات 2018 میں اس حلقے سے ایم کیو ایم کے صلاح الدین شیخ نے کامیابی حاصل کی تھی۔
الیکشن 2024 میں حصہ لینے والے امیدوار:
این اے 220 سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے سید وسیم حسین، پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے وسیم خان راجپوت، ٹی ایل پی کے غلام قادر، جماعت اسلامی کے طاہر مجید، ن لیگ کے حمایت یافتہ خالد عزیز سمیت 26 آزاد امیدوار ہیں جب کہ فیصل مغل تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار آزاد حیثیت سے میدان میں ہیں۔ تاہم بدلتی سیاسی صورتحال میں اس حلقے سے مقابلہ ایم کیو ایم اور پی پی امیدوار کے درمیان ہی دکھائی دیتا ہے۔
اے آر وائی نیوز نے علاقے کے عوام کو درپیش مسائل سے متعلق این اے 220 سے مذکورہ دونوں امیدواروں سے عوامی مسائل اور ان کے حل کے لیے ان کی ترجیحات جاننے کی کوشش کی گئی۔
سید وسیم حسین (امیدوار ایم کیو ایم پاکستان):
ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے نامزد امیدوار وسیم حسین جو مذکورہ حلقے سے پہلے بھی ایک بار رکن قومی اسمبلی اور ایک بار رکن سندھ اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ ان سے کئی بار رابطے کی کوشش کی گئی مگر رابطہ نہیں ہو سکا۔
تاہم اپنی انتخابی مہم کے دوران مختلف مواقع پر خطاب کرتے ہوئے سید وسیم حسین کا کہنا تھا کہ حیدرآباد کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہو رہا ہے، ماضی میں ایم کیو ایم پاکستان کے حق پرست اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی کارکردگی عوامی خدمت کی آئینہ دار ہے، اب بھی منتخب ہو کر حیدرآباد کے عوامی مسائل کے حل کے لیے کام کریں گے۔ تاجروں اور عوام کے حقوق کے لیے ایوانوں میں آواز اٹھائیں گے۔ اٹھارویں ترمیم کا خاتمہ کرنا ہے۔
وسیم راجپوت (امیدوار پاکستان پیپلز پارٹی):
این اے 220 سے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے وسیم راجپوت امیدوار ہیں جو خود کو حیدرآباد کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کامیاب ہو کر حلقے کے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کریں گے اور جو وعدے کیے ہیں اس کو پورا کریں گے۔
وسیم راجپوت نے علاقے کے بنیادی عوامی مسائل کے حوالے سے کہا کہ ان کے حلقے کے بنیادی مسائل بجلی، پانی، گیس، سیوریج کا ناقص نظام ہے۔ ساتھ ہی ان تمام مسائل کی جڑ ایم کیو ایم پاکستان کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم 35 سے 40 سال سے پی پی سمیت تقریباً ہر حکومت میں شامل رہی لیکن حیدرآباد کے عوام کے بنیادی مسائل تک حل نہ کر سکی بلکہ انہوں نے مہاجروں کے نام پر ہمیشہ اردو بولنے والوں کے حقوق کا ہی سودا کیا۔
پی پی امیدوار نے مزید کہا ایم کیو ایم نمائندوں کو مختلف ادوار میں با اختیار وزارتیں اور اربوں روپے کے فنڈز ملے لیکن وہ عوام کے مفاد میں استعمال نہیں ہوئے جب کہ پیپلز پارٹی کو جب بھی خدمت کا موقع ملا کراچی اور حیدرآباد کی دل وجان سے خدمت کی۔ خصوصاً 2008 کے بعد سے خدمت کا سلسلہ اب تک چلا آ رہا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایم کیو ایم نے لسانیت کی بنیاد پر سیاست کی لیکن شہر کو ایک یونیورسٹی تک نہ دے سکے جب کہ پی پی نے کالی موری گورنمنٹ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا۔ حیدرآباد کو کئی میگا پراجیکٹ دیے، پریٹ آباد فلٹر پلانٹ بنایا، میئر حیدرآباد کاشف شورو حیدرآباد میں کئی ترقیاتی کام کرا رہے ہیں۔
وسیم راجپوت نے کہا کہ حیدرآباد کی عوام نے پی پی کی خدمت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے یہی وجہ ہے کہ آج اس شہر کے عوام پی پی کے ساتھ ہیں اور ہر اردو بولنے والا جیالا بن چکا ہے۔ جو کبھی ایم کیو ایم کا گڑ کہلاتا تھا، آج وہاں 70 فیصد بلدیاتی نمائندے اردو بولنے والے ہیں جو پیپلز پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
پی پی امیدوار نے کہا کہ کامیاب ہوکر حیدرآباد کو ماڈل شہر بنائیں۔ نئی شہری یونیورسٹی قائم کریں، گیس، پانی اور سیوریج کے مسائل مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے ساتھ بجلی کے نظام کو اپ گریڈ کریں گے۔ شارٹ فال ختم کر کے اس سے ہونے والی بچت سے عوام کو مفت بجلی کے وعدے پر عملدرآمد کریں گے۔