پاکستان میں 8 فروری کو ملک کی تاریخ کے 13 ویں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اب تک ہونے والے انتخابات نے کس کس کو حکمراں بنایا اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
پہلے عام انتخابات 1970 میں ہوئے:
پاکستان میں پہلی بار عام انتخابات 1970 میں متحدہ پاکستان میں منعقد ہوئے۔ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں عوامی لیگ جب کہ مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) میں پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ تاہم یہاں سقوط ڈھاکا کے نتیجے میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد عملی طور پر جمہوری حکومت کا قیام ممکن نہ ہوسکا۔
ذوالفقار علی بھٹو ملک کے پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ 1973 کے آئین کی تشکیل کے بعد پہلی جمہوری حکومت 1970 کے انتخابی نتائج کے تحت 1973 میں پی پی پی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں قائم کی گئی۔
1977 الیکشن:
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مقررہ مدت سے ایک سال قبل ہی 1977 میں الیکشن کرائے جس کے نتیجے میں کوئی جمہوری حکمراں سامنے نہ آیا البتہ نتائج کے نتیجے میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کے باعث ضیا الحق نے مارشل لا کا نفاذ کر دیا جب کہ بھٹو اپنے عہدے سے معزول ہوکر پہلے جیل اور پھر تختہ دار تک پہنچے۔
1985 الیکشن:
جنرل ضیا الحق چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے بعد ایک ریفرنڈم کے ذریعے صدر بھی بن گئے اور انہوں نے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر ملک بھر میں عام انتخابات کرائے جس کا پاکستان پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا اور یوں سندھ کے علاقے سندھڑی سے تعلق رکھنے والے محمد خان جونیجو ملک کے نئے وزیراعظم بن گئے۔
مئی 1988 میں اس وقت کے صدر جنرل ضیا الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کر کے نومبر میں غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرانے کا اعلان کیا تاہم اگست میں ان کی بہاولپور طیارہ حادثے میں موت کے بعد الیکشن تو اپنے اعلان کردہ وقت پر ہوئے مگر جماعتی بنیادوں پر ہوئے۔
1988 الیکشن:
نومبر 1988 کے عام انتخابات میں کسی بھی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت نہ مل سکی تاہم پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی اور اس نے سندھ کے شہری علاقوں سے کلین سوئپ کرنے والی جماعت ایم کیو ایم سے اتحاد کر کے وفاق اور سندھ میں حکومت بنائی۔ بینظیر بھٹو نہ صرف ملک بلکہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ تاہم یہ اتحادی حکومت صرف 18 ماہ کی مہمان ثابت ہوئی۔
1990 الیکشن:
اکتوبر 1990 کے عام انتخابات کے نتیجے میں اسلامی جمہوری اتحاد نے اکثریت حاصل کی اور نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن یہ حکومت بھی اپنی پانچ سالہ مدت سے قبل ہی صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کر دی۔
1993 الیکشن:
1993 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور بینظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ انہوں نے غلام اسحاق خان کی جگہ اپنی ہی پارٹی کے فاروق لغاری کو صدر بنایا لیکن ان کے با اعتماد ساتھی نے ہی انہیں اپنے ہی بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی چارج شیٹ کے ساتھ پانچ سالہ مدت سے قبل ہی گھر بھیج دیا گیا۔
1996 الیکشن:
فاروق لغاری کے دور صدارت میں ہی 1996 کے انتخابات منعقد ہوئے اور نواز شریف دو تہائی اکثریت لے کر آئے، لیکن یہ اکثریت بھی ان کی حکومت کو قبل از وقت خاتمے کے انجام سے نہ بچا سکی۔ ان کا یہ دور اقتدار مملکت کے تین ستونوں صدر، چیف جسٹس اور آرمی چیف سے لڑائی کے باعث تنازعات سے بھرپور رہا اور بالآخر آرمی چیف پرویز مشرف کی برطرفی کا فیصلہ نہ صرف ان کی حکومت کا اختتام ثابت ہوا بلکہ انہیں وزیراعظم ہاؤس سے جیل تک کا سفر بھی کرایا جس کے ایک سال بعد انہیں 10 سالہ معاہدے کے تحت بیرون ملک بھیجا گیا۔
الیکشن 2002:
ملک میں 21 ویں صدی کے پہلے پارلیمانی انتخابات پرویز مشرف کی زیر نگرانی ہوئے جس میں نواز شریف، بینظیر بھٹو سمیت دونوں جماعتوں کے کئی اہم رہنما بذات خود حصہ نہیں لے پائے لیکن انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کے بطن سے مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلز پارٹی کی بطن سے پی پی پی پیٹریاٹ کا جنم ہوا۔ جن کے اشتراک اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے خصوصی تعاون کی بدولت نئی وفاقی حکومت تشکیل دی گئی۔
اقتدار کی غلام گردشوں کی مکمل روداد جاننے کے لیے کلک کریں:
یہ ملک کی تاریخ کی پہلی اسمبلی تھی جس نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کی لیکن اس مدت کے دوران وزارت عظمیٰ کا منصب بدلتا رہا۔ پہلے میر ظفر اللہ جمالی ڈیڑھ برس تک وزیراعظم ہاؤس کے مکین رہے، جس کے بعد مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو عبوری وزیراعظم بنایا گیا جب کہ دو ماہ بعد ہی شوکت عزیز کے سر پر حتمی طور پر وزارت عظمیٰ کا تاج سجایا گیا جو پھر اسمبلی کے اختتام تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے۔
الیکشن 2008:
پرویز مشرف نے الیکشن سے قبل ایک معاہدے کے تحت وردی اتار دی تھی اور نئے الیکشن 8 جنوری 2008 کو کرانے کا اعلان کیا تاہم ینظیر بھٹو کے 27 دسمبر کو لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کے بعد الیکشن کو ایک ماہ آگے بڑھا کر 8 فروری کو پولنگ کرائی گئی۔ پیپلز پارٹی نے ملک بھر میں اکثریت حاصل کی اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ اسی سال اگست میں پرویز مشرف کی ایوان صدر سے رخصتی ہوئی تو پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری صدر مملکت بن گئے تاہم سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو اپنی پارٹی کے سربراہ اور صدر مملکت کے خلاف سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے پر جب برطرف اور نا اہل کیا تو راجا پرویز اشرف کو نیا وزیراعظم منتخب کر لیا گیا۔
الیکشن 2013:
مئی 2013 میں ہونے والے عام انتخابات میں ن لیگ کی وفاق کے ساتھ پنجاب، بلوچستان میں حکومت قائم ہوئی جب کہ کے پی میں پی ٹی آئی اور سندھ میں حسب سابق پی پی پی کی حکومتیں بنیں۔ نواز شریف ریکارڈ تیسری بار وزیراعظم بنے لیکن انہیں اقتدار کے آغاز سے پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کا سامنا رہا۔ اسی دوران پاناما کیس سامنے آیا اور نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ نے کیس شروع کیا لیکن اقامہ کیس میں انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برطرف اور تاحیات سیاست کے لیے نا اہل کرنے کے ساتھ ساتھ قید کی سزا بھی سنائی۔
اس فیصلے کے بعد ن لیگ نے حکومت سے نکلنے کے بجائے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم منتخب کرایا اور اسمبلی نے اپنی مدت پوری کی۔
الیکشن 2018:
سال 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے اکثریت حاصل کی اور پارٹی چیئرمین عمران خان وزیراعظم پاکستان بنے۔ ان کا دور تنازعات سے بھرا ہے اور پی ٹی آئی دور حکومت میں بھی سابقہ حکومتوں کی روایات پر عمل کرتے ہوئے بالخصوص اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف الزامات کی سیاست اور مقدمات کی طویل فہرست مرتب کی گئی۔
عمران خان کی حکومت کو کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے مارچ 2022 میں ختم کیا گیا اور پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی۔ شہباز شریف وزیراعظم بنے جن کے دور حکومت میں ملک کو کچھ اور تو نہیں لیکن ریکارڈ مہنگائی کا تحفہ ضرور ملا۔