استاد فیّاض خان: ‘نغمہ اُن پر القا ہوتا تھا….’

ہندوستان میں تقسیم کے بعد بھی سرحد کے دونوں‌ اطراف موسیقار گھرانوں اور ان سے وابستہ فن کاروں کا خوب شہرہ تھا جو اس دور میں نجی محافل اور ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ انہی میں ایک نام فیاض خان کا تھا جو کلاسیکی گائیکوں میں سے ایک تھے اور جن کے مداحوں میں نواب اور رؤسا کے علاوہ اس دور کے ممتاز سیاست داں اور اعلیٰ منصب دار بھی شامل تھے۔

یہاں ہم فیاض خان سے متعلق عظمت حسین خان کا وہ مضمون نقل کر رہے ہیں جو نئی دہلی سے نکلنے والے جریدے ’’آج کل ‘‘ کے موسیقی نمبر میں شایع ہوا تھا۔

وہ لکھتے ہیں: ’’آفتاب موسیقی فیاض خاں کو قدرت نے بیک وقت کئی محاسن عطا فرمائے تھے۔ صورت ایسی کہ دیکھنے والا پہلی ہی نظر میں متاثر ہوجاتا تھا۔ اقبال مند ایسے کہ راج اور نواب دربار میں اپنے برابر بٹھاتے تھے۔ خوش نصیب اتنے کہ دولت اور عزّت مرتے دم تک قدم چومتی رہی۔ ان کے فن کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ دھرپد، دھمار، استھائی، خیال، ترانہ، سرگم، ٹھمری، دادرا ،غزل، سوز، سلام، ان تمام اصنافِ موسیقی پر کامل عبور رکھتے تھے، جو چیز بھی گاتے یہ معلوم ہوتا کہ اسی پر ریاض ہے اور ان کی الاپ چاری نے تو وہ قبولیت حاصل کی کہ ہندوستان کے 80 فی صدی خیال گانے والے گانا شروع ہی ’’الاپ چاری‘‘ سے کرتے ہیں۔ آواز قدرت نے ایسی عطا کی تھی کہ سب سے نیچا سُر گانے کے باوجود آناً فاناً محفل پر چھا جاتے تھے۔ اتنی باوقار آواز کم سننے میں آئی۔ سُر کا لگاؤ اتنا دل پذیر اور اثر انگیز تھا کہ سننے والے دل پکڑ کر رہ جاتے تھے۔‘‘

فیاض خان کو مہاراجہ میسور نے آفتابِ موسیقی کا اور مہاراجہ گائیکواڑ نے سنگیت رتن کے خطابات عطا کیے تھے۔ اس کے علاوہ بھی انھیں بہت سے خطابات اور تمغے ملے جب کہ ان کے فن سے متاثر ہونے والے سابق مہاراجہ اندور نے بیک وقت ہزاروں روپے اور ہیروں کا ہار عطا کیا۔ فیاض خان نے 5 نومبر 1950ء کو بڑودہ میں وفات پائی۔

معروف اسکالر، ادیب اور ماہرِ موسیقی داؤد رہبر نے بھی اپنی کتاب ’’باتیں کچھ سریلی سی‘‘ میں استاد فیاض خان کے بارے میں لکھا ہے: ’’آواز ان کی فاتحانہ تھی، وہ سُر کو خطاب کی للکار کے ساتھ گاتے تھے۔ نغمہ ان پر القا ہوتا تھا۔ مزاج میں خودی، خودداری اور شکوہ رکھتے تھے۔ آواز کیا تھی، ایک پہاڑ تھا۔ نعرے کے انداز سے گاتے تھے۔ خبردار، ہٹ جاؤ، ایسے نعروں کے بیچ میں جب سُر کا بہلاوا والہانہ انداز سے لاتے تھے تو ان کی درد مندی اور محبت آشنائی کا مزا آتا تھا۔‘‘

وہ مزید لکھتے ہیں: ’’استاد فیاض خان ان راگوں کی رغبت سے گاتے تھے: بھیروں، بھیرویں، للت، کھٹ، بندرابنی سارنگ، شدھ ٹوڈی، دیسی، شدھ سارنگ، بھیم پلاسی، پوریا، پوربی، کافی، بروا، سندھورا، چھایانٹ، کیدارا، تلک کامود، دیس، بہار، میاں کی ملہار، درباری، باگیشری، بہاگ، اڈانا، سفرائی۔ خان صاحب نے خیال کی بعض نہایت خوب صورت بندشیں تصنیف کیں۔ پریم پیّا آپ کا تخلص تھا۔ اپنی بندشوں میں اس تخلص کو لاتے تھے جیسے سدا رنگ اپنی بندشوں میں اپنے تخلص کو لاتا تھا۔‘‘

استاد فیاض خان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اس فن میں ان کے کئی شاگردوں میں دلیپ چندر ویدی، پنڈت سری کرشن رتن جانکر، کے ایل سہگل، سوہن سنگھ، عطا حسین خان (رتن پیا)، عظمت حسین خان، قادر خان وغیرہ شامل ہیں۔