ماہنامہ شبستاں کا فیض نمبر 1985ء میں شایع ہوا تھا۔ شبستاں، اپنے دور کا ایک نیم ادبی تفریحی اردو ڈائجسٹ تھا جو ہندوستان اور پاکستان میں اردو قارئین میں بے حد مقبول تھا۔ شبستاں کا ترقی پسند اور لینن انعام یافتہ شاعر فیض احمد فیض پر جو خاص نمبر شائع ہوا تھا اس میں ان کی مختصر خودنوشت بھی شامل تھی۔
ادب اور ثقافت سے متعلق مزید تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں
یہ خودنوشت کئی دل چسپ واقعات پر مشتمل ہے اور فیض صاحب نے بڑی سادگی سے اپنے بچپن اور نوجوانی کے واقعات کے ساتھ ادبی سفر کی روداد بھی قلم بند کی ہے۔ یہ چند پارے اسی خودنوشت سے لیے گئے ہیں۔ فیض صاحب لکھتے ہیں:
ہمارے شعراء کو مستقلاً یہ شکایت رہی ہے کہ زمانے نے ان کی قدر نہیں کی۔ ناقدریِ ابنائے وطن ہماری شاعری کا ایک مستقل موضوع ہے۔ ہمیں اس سے الٹ شکایت یہ ہے کہ ہم پہ لطف و عنایت کی اس قدر بارش رہی ہے، اپنے دوستوں کی طرف سے ، اپنے ملنے والوں کی طرف سے اور ان کی جانب سے بھی جن کو ہم جانتے بھی نہیں کہ اکثر ندامت ہوتی ہے کہ اتنی داد و دہش کا مستحق ہونے کے لئے جو تھوڑا بہت کام ہم نے کیا ہے اس سے بہت زیادہ ہمیں کرنا چاہیے تھا۔
یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بچپن ہی سے اس قسم کا تاثر رہا ہے۔ جب ہم بہت چھوٹے تھے، اسکول میں پڑھتے تھے تو اسکول کے لڑکوں کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کے تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ خواہ مخواہ انہوں نے ہمیں اپنا لیڈر تسلیم کر لیا تھا حالاں کہ لیڈری کی صفات ہم میں نہیں تھیں، یا تو آدمی بہت لٹھ باز ہو کہ دوسرے اس کا رعب مانیں یا وہ سب سے بڑا فاضل ہو۔ ہم پڑھنے لکھنے میں ٹھیک تھے ، کھیل بھی لیتے تھے لیکن پڑھائی میں ہم نے کوئی ایسا کمال پیدا نہیں کیا تھا کہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں۔
بچپن کا میں سوچتا ہوں تو ایک یہ بات خاص طور سے یاد آتی ہے کہ ہمارے گھر میں خواتین کا ایک ہجوم تھا۔ ہم تین بھائی تھے ان میں ہمارے چھوٹے بھائی (عنایت) اور بڑے بھائی (طفیل) خواتین سے باغی ہو کر کھیل کود میں مصروف رہتے تھے۔ ہم اکیلے ان خواتین کے ہاتھ آ گئے۔ اس کا کچھ نقصان بھی ہوا اور کچھ فائدہ بھی۔ فائدہ تو یہ ہوا کہ ان خواتین نے ہم کو انتہائی شریفانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا۔ جس کی وجہ سے کوئی غیر مہذب یا اجڈ قسم کی بات اس زمانے میں ہمارے مونہہ سے نہیں نکلتی تھی۔ اب بھی نہیں نکلتی۔ نقصان یہ ہوا جس کا مجھے اکثر افسوس ہوتا ہے کہ بچپن میں کھلنڈرے پن یا ایک طرح کے لہو و لعب کی زندگی گزارنے سے ہم محروم رہے۔ مثلاً یہ کہ گلی میں کوئی پتنگ اڑا رہا ہے، کوئی گولیاں کھیل رہا ہے۔ کوئی لٹو چلا رہا ہے، ہم بس کھیل کود دیکھتے رہتے تھے، اکیلے بیٹھ کر "ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے” کے مصداق ہم ان تماشوں کے صرف تماشائی بنے رہتے اور ان میں شریک ہونے کی ہمت اس لئے نہیں ہوتی تھی کہ اسے شریفانہ شغل یا شریفانہ کام نہیں سمجھتے تھے۔
اساتذہ بھی ہم پر مہربان رہے۔ آج کل کی میں نہیں جانتا، ہمارے زمانے میں تو اسکول میں سخت پٹائی ہوتی تھی۔ ہمارے عہد کے استاد تو نہایت ہی جلّاد قسم کے لوگ تھے۔ صرف یہی نہیں کہ ان میں سے کسی نے ہم کو ہاتھ نہیں لگایا بلکہ ہر کلاس میں ہم کو مانیٹر بناتے تھے۔ یعنی فلاں کو چانٹا لگاؤ فلاں کو تھپڑ مارو۔ اس کام سے ہمیں بہت کوفت ہوتی تھی اور ہم کوشش کرتے تھے کہ جس قدر بھی ممکن ہو یوں سزا دیں کہ ہمارے شکار کو وہ سزا محسوس نہ ہو۔ طمانچے کی بجائے گال تھپتھپا دیا۔ کان آہستہ سے کھینچا وغیرہ۔ کبھی ہم پکڑے جاتے تو استاد کہتے یہ کیا کر رہے ہو؟ زور سے چانٹا مارو۔
دو تأثر بہت گہرے ہیں، ایک تو یہ کہ بچوں کی جو دلچسپیاں ہوتی ہیں ان سے محروم رہے۔ دوسرے یہ کہ اپنے دوستوں، ہم جماعتوں اور اپنے اساتذہ سے ہمیں بے پایاں شفقت اور خلوص ملا جو بعد کے زمانے کے دوستوں اور معاصرین سے ملا اور آج بھی مل رہا ہے۔
صبح ہم اپنے ابا کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جایا کرتے تھے۔ معمول یہ تھا کہ اذان کے ساتھ ہم اٹھ بیٹھے، ابا کے ساتھ مسجد گئے نماز ادا کی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے جو اپنے وقت کے بڑے فاضل تھے، درس قرآن سنا، ابا کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی سیر کے لئے گئے، پھر اسکول، رات کو ابا بلا لیا کرتے تھے خط لکھنے کے لئے، اس زمانے میں انہیں خط لکھنے میں کچھ دقت ہوتی تھی۔ ہم ان کے سکریٹری کا کام انجام دیتے تھے۔ انہیں اخبار بھی پڑھ کر سناتے تھے۔ ان مصروفیات کی وجہ سے ہمیں بچپن میں بہت فائدہ ہوا۔ اردو انگریزی کے اخبارات پڑھنے اور خطوط لکھنے کی وجہ سے ہماری استعداد میں کافی اضافہ ہوا۔