ترجمان سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز کے اہلخانہ کو جسمانی تلاشی سے استثنیٰ تھا لیکن موجودہ ججز کے اہلخانہ کو نہیں ہے۔
تفصیلات کے مطابق ترجمان سپریم کورٹ نے سیکرٹری ہوابازی اور ڈی جی ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس کو خط لکھ کر کہا ہے کہ آپ کا 12 اکتوبر والا خط چیف جسٹس اور اہلیہ کے ترکیہ جانے کے فوراً بعد میڈیا تک پہنچ گیا ہے۔
خط کے مطابق مکمل سچائی کیلئے رجسٹرار سپریم کورٹ کا 21 ستمبر کا خط ظاہر کریں تاکہ غلط فہمی کا ازالہ ہو سکے۔
ترجمان نے کہا کہ جسمانی تلاشی سے استثنیٰ کا قاعدہ سپریم کورٹ نے نہیں بنایا نہ ایسا مطالبہ کیا گیا رجسٹرار سپریم کورٹ نے خط میں صرف ایک تضاد کی نشاندہی کی، سپریم کورٹ کےریٹائرڈججزکےاہلخانہ کو جسمانی تلاشی سے استثنیٰ تھا لیکن موجودہ ججز کے اہلخانہ کو نہیں، آپ کے مراسلے نے یہ تضاد ختم کرتے ہوئے کوئی وضاحت پیش نہیں کی
پی آر او سپریم کورٹ نے مراسلے کے حقائق بیان کر دیے۔ ترجمان نے کہا کہ خط 66 دن پہلے لکھا گیا حسن اتفاق سے چیف جسٹس کے باہر جانے کے فوری بعد منظرعام پر آگیا، اہل خانہ کےجسمانی تلاشی سےاستثنیٰ کے کارڈ ابھی تک موصول نہیں ہوئے۔
مسز قاضی فائزعیسٰی خود اےایس ایف کے کمرے میں گئیں، خاتون افسر نے تلاشی لی ایئرپورٹ کیمروں سے اس عمل کی تصدیق کی جا سکتی ہے، ایئرپورٹ پرجسمانی تلاشی سےنہ کوئی استثنیٰ مانگا گیا نہ ہی دیا گیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کو وی آئی پی لاؤنج کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے انکار کیا، چیف جسٹس نے لگثرری لیموزین کے استعمال سے بھی انکار کیا جو جہاز تک پہنچاتی ہے۔