سعید غنی کے بھائی فرحان سمیت دیگر ملزمان راہداری ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

فرحان غنی سمیت دیگر ملزمان ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

کراچی (24 اگست 2025): وزیر بلدیاتی سندھ سعید غنی کے بھائی فرحان غنی سمیت دیگر ملزمان کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

سعدی غنی کے بھائی فرحان غنی کو اسپیشل مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا گیا جہاں ان کو دیگر ملزمان سمیت ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا۔ پولیس نے ملزمان کے راہداری ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزمان کو پیر کے روز انسداد دہشتگردی کی منتظم عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

پس منظر

وزیر بلدیاتی سندھ کے بھائی کو پولیس نے تشدد کے الزام میں ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے مقدمہ درج کیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق ملزمان کے خلاف فیروز آباد تھانے میں سرکاری اہلکار پر تشدد کا مقدمہ دہشتگردی دفعات کے تحت درج ہے۔

پولیس کے مطابق سرکاری اہلکار کی جانب سے درخواست جمع کروائے جانے کے بعد کارروائی کی گئی۔ ایف آئی آر میں اقدام قتل، جان سے مارنے کی دھمکی اور دیگر دفعات شامل ہیں۔

ایف آئی آر میں فرحان غنی کے علاوہ قمر الدین، شکیل چانڈیو، سکندر اور روحان نامزد ہیں۔ مدعہ مقدمہ سرکاری اہلکار حافظ سہیل نے بتایا کہ میں سرکاری ملازمت کرتا ہوں، 22 اگست کو سروس روڈ شارع فیصل پر ڈیوٹی تھی، زمین میں فائبر آپٹک کیبل بچھانے کے کام کی نگرانی کرنا تھی، کام کے دوران 3 گاڑیوں پر 20 سے 25 افراد پہنچے۔

حافظ سہیل کے مطابق تشدد کرنے والوں کے نام فرحان غنی، قمر الدین، شکیل، سکندر اور روحان معلوم ہوئے ہیں، تشدد کرنے والے دیگر افراد کو سامنے آنے پر شناخت کر سکتا ہوں، گاڑیاں رکی تو ان میں سے ایک شخص نے مجھے بلایا اور کہا صاحب پوچھ رہے ہیں کس کی اجازت سے زمین کھود رہے ہو؟

’میں نے تعارف کروایا اور کہا کہ سرکاری اداروں کی این او سی سے کام ہو رہا ہے، ان لوگوں نے مجھ سے بدتمیزی شروع کر دی اور کہا کام بند کر دو۔ انہوں نے گالم گلوچ کرتے ہوئے مارپیٹ شروع کر دی، میں اس دوران ان کو مسلسل اپنا تعارف کرواتا رہا لیکن انہوں نے کہا صاحب کے کہنے پر کام بند کیوں نہیں کیا، مجھے مارتے رہے۔‘

مدعی مقدمہ کا کہنا تھا کہ 4 سے 5 مسلح افراد نے جان سے مارنے کی نیت سے مجھ پر اسلحہ تان لیا، گالم گلوچ کر کے مارپیٹ کرتے رہے، اسی دوران ان میں سے کسی نے کہا 15 بلاؤ اور ان کے حوالے کرو، پھر مجھے زبردستی گھسیٹتے ہوئے پیٹرول پمپ کے کمرے میں بند کر دیا۔

’کمرے میں بھی مجھے مار پیٹ کرتے رہے، پولیس وہاں پہنچی اور مجھے چھڑوا کر وہاں سے تھانے لے آئی، یہ لوگ وہاں کام کرنے والے مزدوروں کا سارا سامان بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ پولیس مجھے تھانے لے کر پہنچی تو یہ بھی پیچھے سے تھانے آگئے۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر کو میرے خلاف کارروائی کیلیے دھمکاتے رہے، ان کے جانے کے بعد میں تھانے سے نکل کر دفتر پہنچا اور پھر گھر آیا، ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔‘