جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سوال اٹھا دیا ہے کہ کیا حکومت کے پاس خود فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تمام معاملات کو سیاسی لوگ ہی طے کر سکتے ہیں، لیکن آج سیاسی لوگوں کی اہمیت ختم کی جا رہی ہے۔ نئے نوجوان معاملہ فہمی سے محروم ناتجربہ کار اور جذباتی ہوتے ہیں، لیکن تجربہ کار اور سینئر سیاسی قیادت کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے۔
فضل الرحمان نے کہا کہ معاملات اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ ریاست کیلیے بھی سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہر چیز کیلیے فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بن جانا خواہش ہو سکتی ہے، مگر مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ کیا حکومت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ خود فیصلے کر سکے؟
سینیئر سیاستدان نے کہا کہ اس وقت پاکستان پراکسی وار کا میدان جنگ بنا ہوا ہے اور ہم عالمی قوتوں کی جنگ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ یہ پراکسی لڑنا پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ اس سے کام نہیں بنے گا کہ ذمہ داری کسی اور پر ڈال دیں، ہمیں اپنی ذمہ داریوں پر متوجہ ہونا پڑے گا۔ مسنگ پرسنز انتہائی اہم مسئلہ ہے ان کے پیارے 20،10 سال سے غائب ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بتائے کہ تمہارا بچہ کہاں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں صورت حال سنگین ہیں، بلوچستان اور کے پی میں دہشتگردی کی وجہ سے حکومتی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ بلوچستان اور پختونخوا میں مسلح لوگوں نے حملہ کیا اور بلوچستان میں ایک ہی دن فوج کے جوانوں پر حملے ہوئے۔ اس صورتحال میں پارلیمنٹ، سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو غیر ضروری سمجھنے سے بڑی حماقت نہیں ہو سکتی۔ ان چیزوں پر ایوان غور نہیں کرے گا تو کون کرے گا۔ ملک کے معاملات سیاست دانوں کے حوالے کیے جائیں۔
جے یو آئی سربراہ نے واضح کہا کہ ہم اپوزیشن میں بیٹھ کر اپنا کردار ادا کریں گے۔ ہم لڑیں گے، اختلاف رائے کریں گے اور تنقید بھی کریں گے، مگر ملک کو ضرورت ہوئی تو چپے چپے کے لیے ہماری خدمات حاصل ہیں۔
فضل الرحمان نے کہا کہ بلوچستان، کے پی، سندھ اور پنجاب کے وسائل پر وہاں کے عوام کا حق ہے۔ ریاست کا کوئی حق نہیں کہ وسائل پر قبضہ کرے۔ لوگوں کو اعتماد دلایا جائے کہ 18 ویں ترمیم کے تحت آئین پر عمل ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم مایوس ہو چکے ہیں، کہاں جائیں؟ کیونکہ پارلیمنٹ اور ممبران کا کوئی کردار نہیں رہا۔ اختر مینگل کا استعفیٰ دینے کی وجہ بھی یہی ہے۔ ہم لوگوں کو روزگار نہیں دے پا رہے، گرتی معیشت کو اٹھا نہیں پا رہے، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے تو دوسری جانب یوٹیلیٹی اسٹور کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے بلز پاکستان کے عوام سے دشمنی ہے اور ہم یہ بل ایوان میں کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
جے یو آئی سربراہ کا کہنا تھا کہ میری باتوں کو تقریر نہ سمجھا جائے اور سنجیدگی سے لیا جائے۔ ایوان میں فارم 47 کے ہیں یا 45 کے، غلط ہیں یا صحیح، اب ان ہی سے کام لینا ہوگا۔ اب قانون بھی یہیں سے بنے گا۔ یہی لوگ قانون بنائیں گے اور ترمیم بھی یہی کر سکتے ہیں۔ ہم ملک وقوم کی خدمت کے لیے پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔