فراق اور دس جوتے

اردو کے سر بر آوردہ نقّاد اور شاعر آل احمد سرور نے ایک ہنگامہ خیز ادبی دور دیکھا۔ وہ اپنے وقت کی بلند پایہ علمی و ادبی شخصیات کے ساتھ رہے جن سے ایک قلبی تعلق اور گہرے مراسم بھی تھے۔ فراق انہی میں سے ایک تھے۔

مشاہیرِ ادب سے متعلق تحریریں اور ادبی مضامین پڑھیے

فراق گورکھپوری اردو کے صفِ اوّل کے شاعر، نقّاد اور نثر نگار تھے اور اس زمانے میں جب اردو ہندی تنازع زوروں پر تھا، اور اسے مسلمانوں کی زبان کہہ کر ترک کرنے کی مہم چلائی جارہی تھی، فراق نے اردو سے محبّت کا ثبوت دیا اور اس کی حمایت میں پیش پیش رہے۔ فراق کا مزاج اور بعض عادات ایسی تھیں جو بسا اوقات ناخوش گوار فضا بنا دیتیں اور ان کا غیرمتوقع ردعمل کسی کو بھی حیران و پریشان کرسکتا تھا۔ یہ فراق سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ ہے، جسے آل احمد سرور نے بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

۱۹۵۳ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس دہلی میں ہوئی۔ صدارتی پینل میں فراقؔ بھی تھے اور میں بھی۔ اس زمانے میں عام طور پر اردو کے ادیبوں میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بے عملی کی وجہ سے خاصی برہمی تھی۔ فراقؔ نے ہوشیاری یہ کی کہ تھوڑی دیر ڈائس پر بیٹھنے کے بعد مجمع میں پہنچ گئے اور گپ لڑانے لگے۔ مخالفت کا سارا بار مجھے اور بنگالی ادیب گوپالؔ ہلدار کو اٹھانا پڑا۔ میں، احتشامؔ حسین، اور جاں نثارؔ اختر دہلی کالج میں خواجہ احمد فاروقی کے ساتھ ٹھہرے تھے۔ فراقؔ کا قیام کرنل بشیر زیدی کے یہاں نئی دہلی میں تھا۔ فراقؔ نے وہاں تین چار دن قیام کیا تھا اور بیگم قدسیہ زیدی نے ان کی بڑی خاطر کی تھی۔

کچھ عرصے کے بعد کرنل بشیر حسین زیدی کسی سلسلہ میں الٰہ آباد آ گئے اور شام کو فراقؔ سے ملنے بینک روڈ پہنچے۔ فراقؔ نے انھیں بالکل نہیں پہچانا۔ اور پوچھا: ’’ کہیے، آپ کیسے تشریف لائے۔‘‘

زیدی صاحب نے جب یہ دیکھا کہ فراقؔ نے انھیں پہچانا نہیں ہے تو انھیں مذاق سوجھا۔ کہنے لگے۔ ’’الٰہ آباد یونیورسٹی میں لا ڈیپارٹمنٹ میں ایک جگہ خالی ہوئی ہے۔ میں نے اس کے لیے درخواست دی ہے۔ سنا ہے کہ وائس چانسلر سے آپ کے بہت گہرے مراسم ہیں۔ آپ ان سے میری سفارش کر دیجیے۔‘‘

انھوں نے نام پوچھا۔ کہا۔ ’’بشیر حسین۔ ‘‘ پھر دریافت کیا۔ ’’کہاں سے آئے ہو۔ ‘‘ کہنے لگے۔ ’’دہلی سے۔ ‘‘ اس پر فراقؔ نے چونک کر کہا۔ ’’تو آپ وہاں کرنل بشیر حسین زیدی کو جانتے ہوں گے۔ وہ میرے دوست ہیں۔‘‘

زیدی صاحب نے کہا، ’’اسی خاکسار کو بشیر حسین زیدی کہتے ہیں۔‘‘

اب فراقؔ کا پینترا ملاحظہ ہو، فوراً اپنے پیر سے چپل نکالی اور ان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے دس جوتے ماریے کہ میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔‘‘ اب زیدی صاحب کہہ رہے ہیں کہ ’’فراقؔ صاحب آپ یہ کیا کر رہے ہیں چھوڑیے بھی۔‘‘ مگر فراقؔ ہیں کہ زیدی صاحب کہ پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ ’’ماریے صاحب میں اسی قابل ہوں۔‘‘ زیدی صاحب اب بھی ہنس ہنس کر یہ واقعہ بیان کرتے ہیں۔