لندن: غزہ جنگ بندی کے مطالبے پر برطانوی رکن پارلیمنٹ پال برسٹو کے خلاف ایک اقدام کے تحت انھیں حکومتی عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔
برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق قدامت پسند رکن پارلیمنٹ پال برسٹو کو غزہ جنگ بندی کا مطالبہ کرنے پر حکومتی عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔
پال برسٹو محکمہ برائے سائنس، اختراع اور ٹیکنالوجی کے پارلیمانی پرائیویٹ سیکریٹری تھے، انھوں نے گزشتہ جمعرات کو وزیر اعظم رشی سونک کو دو صفحات پر مشتمل ایک خط لکھ کر کہا تھا کہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی میں ’’مستقل‘‘ وقفے پر زور دیں، اس خط کے بعد انھیں عہدے سے مستعفی ہونے کے لیے کہا گیا۔
وزیر اعظم ہاؤس کے ایک ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ پال برسٹو کو ایسے تبصروں پر برطرف کیا گیا ہے جو ’’اجتماعی ذمہ داری کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔‘‘
برطانوی وزیر داخلہ نے فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کو ’نفرت مارچ‘ قرار دے دیا
پیٹربورو حلقے سے تعلق رکھنے والے برطرف پال برسٹو نے اسکائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ رشی سونک کے فیصلے کو اچھی طرح سے سمجھ رہے ہیں، تاہم انھیں ایک ایسا عہدہ چھوڑنا پڑا جو انھیں پسند تھا۔ پال برسٹو نے یہ بھی کہا کہ ان کے حلقے کے لوگوں کو اسرائیل فلسطین جنگ سے متعلق فکر لاحق ہے، اس لیے اب وہ اس کے بارے میں کھل کر بات کر سکیں گے۔
انھوں نے خط میں لکھا ’’ہزاروں مارے جا چکے ہیں اور دس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں، اس طرح اسرائیل کو محفوظ بنانے کی باتیں نا قابل فہم ہیں، اس طرح کچھ بھی بہتر نہیں کیا جا سکتا، مستقبل جنگ بندی سے جانیں بچیں گی، اور جنھیں ضرورت ہے انھیں انسانی امداد فراہم ہو سکے گی۔‘‘
پال برسٹو نے لکھا ’’فلسطینی عوام کے لیے پانی، بجلی اور ایندھن تک رسائی بہت ضروری ہے، اگر آپ اس پر کچھ کہیں گے کہ غزہ کے لوگوں کو حماس کے حملوں کی اجتماعی سزا نہ دی جائے، تو میں اور میرے حلقے اس پر آپ کے شکر گزار ہوں گے۔‘‘