راولپنڈی میں جرگہ کے حکم پر لڑکی کے قتل کیس میں پولیس نے اہم شواہد حاصل کر لیے۔
ذرائع کے مطابق تفتیشی ٹیم نے قتل میں مبینہ طور پر استعمال ہونے والا خودکار اسلحہ اور مقتولہ کے کپڑے برآمد کر لئے۔ خودکار اسلحہ اور کپڑے گرفتار ملزمان کی نشاندہی پر برآمد کئے گئے ہیں۔
خودکار اسلحہ کے لائسنس کے حوالے سے گرفتار ملزم سے تفتیش جاری ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تفتیش کے دوران ملزمان سے جرگے میں شامل افراد کے نام بھی لے لیے گئے ہیں۔ پولیس ٹیم لڑکی کے اغوا سے متعلق شواہد لے کر آزادکشمیر سے واپس پہنچ گئی ہے۔
پولیس نے بتایا کہ گرفتارملزم خیال محمدکی کی نشاندہی پر لاش منتقلی کیلئے استعمال رکشہ برآمد کرلیا ہے اور ملزم نے لاش رکشے میں ڈال کر قبرستان منتقلی کا اعتراف کر لیا۔
ملزم نے بتایا کہ جرگہ سربراہ عصمت اللہ کی ہدایت پر رکشہ منگوایا گیا تھا تاہم پولیس نے برآمد ہونے والے رکشے کو تھانہ پیرودھائی منتقل کر دیا ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ ملزم نے خاتون کی لاش منتقلی کے بعد رکشہ خفیہ مقام پر منتقل کر دیا تھا۔
دوسری جانب پولیس نے مقتولہ کے دوسرے شوہر عثمان کے والد محمد الیاس اور مقتولہ کے دوسرے شوہر کے ماموں یاسین کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔
واضح رہے کہ پنڈی میں سدرہ عرب گل نامی شادی شدہ خاتون کو عثمان نامی لڑکے سے تعلق کے شبے میں جرگے کے فیصلے کے مطابق قتل کیا گیا تھا، 19 سالہ سدرہ کا نکاح 17 جنوری کو ضیاالرحمان سے ہوا تھا، تاہم عثمان کے والد نے بھی ایک بیان میں بتایا کہ انھوں نے اپنے بیٹے کا سدرہ کے ساتھ عدالت میں نکاح کروایا تھا۔
نئی نویلی دلہن سدرہ دختر عرب گل کو قتل کرنے کے بعد خاموشی سے دفن کر دیا گیا تھا، پولیس نے قبرستان کے گورکن کو گرفتار کیا تھا جس نے کئی سنسنی خیز انکشافات کیے، راشد محمود نے بتایا کہ لڑکی کو 17 جولائی کی صبح ساڑھے 6 بجے دفنایا گیا، قبرستان کمیٹی کے رکن گل بادشاہ نے فون کر کے قبر تیار کرنے کی ہدایت کی تھی اور ایک گھنٹے میں قبر تیار کرنے کا کہا تھا۔
اس روز شدید بارش تھی، مزدوروں دستیاب نہیں تھے، گورکن کے مطابق گل بادشاہ صبح پونے 6 بجے 25 افراد کے ساتھ قبرستان آیا اور قبر تیار کروائی۔ مقتولہ کی لاش لوڈر رکشے پر لائی گئی تھی، جس پر سرخ رنگ کی ترپال پڑی تھی۔ قبر تیار کرتے وقت رکشہ قبرستان میں ہی کھڑا رہا۔
تدفین کے موقع پر جب ممبر قبرستان کمیٹی کے بیٹے کو رسید نمبر 78 دی تو اس میں میت کا نام سدرہ دختر عرب گل لکھا، لیکن تھوڑی دیر بعد دیکھا تو رسید نمبر 78 کا ریکارڈ ہی نہیں تھا۔ تدفین کے بعد قبر کا نشان بھی مٹا دیا گیا۔