گل حمید: خوب رو فلمی ہیرو جس کی ناگہانی موت پر مداحوں کی آنکھیں‌ نم ہوگئیں

آج کی دنیا کے فلم بینوں کو شاید یہ نام اجنبی سا لگے، مگر یہ نام وہ ہے جس میں اب سے بیسں، بائیس سال پہلے یعنی 35ء اور 37ء تک اتنی کشش تھی کہ محض اس نام پر ہی سنیماؤں کے شو کھچا کھچ بھر جایا کرتے تھے۔

اور یہ نام انڈین اسکرین کے بے حد خوب رو اور نوجوان ہیرو گل حمید کا نام تھا جس سے زیادہ حسین اور ڈیشنگ ہیرو فلمی دنیا آج تک پیدا نہیں کرسکی۔ گل حمید اتنا جاذبِ نظر اور خوبصورت ہیرو تھا کہ جسے پردۂ فلم پر دیکھ کر اندازہ ہونے لگتا تھا کہ جوانی اور مردانہ حسن اسی کو کہتے ہیں۔

لمبا تڑنگا، مگر سڈول جسم کا یہ ہیرو گل حمید پشاور کا رہنے والا تھا۔ پٹھان تھا مگر اردو اتنی شستہ اور صاف بولتا تھا کہ حیرت ہوتی تھی۔ لب و لہجہ غائت درجہ پُرکشش اور بے عیب تھا۔

اور یہ وہ ہیرو تھا جسے فلمی دنیا سے متعارف کرانے کا سہرہ میاں عبد الرشید کاردار کے سر ہے۔ پہلی مرتبہ وہ انھیں کی تصویر میں جلوہ گر ہوا تھا جو میاں کاردار نے لاہور میں بنائی تھی۔

سلطانہ، چندر گپت، سیتا، باغی سپاہی اور سنہرا سنسار اُس کی خاص فلمیں ہیں۔ خیبر پاس، اُس کی اپنی ڈائرکٹ کردہ فلم تھی جس میں زندگی میں پہلی بار منظر خاں نے ڈاڑھی لگا کر باپ کا رول ادا کیا تھا ۔ فلم خیبر پاس سرحدی پٹھانوں کی زندگی کا حسین مرقع تھی جس کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ گل حمید کی یہ پہلی فلم تھی جسے اُس نے خود ہی لکھا تھا اور خود ہی ڈائرکٹ بھی کیا تھا۔ ہیرو بھی وہ خود ہی تھا اور اس میں مظہر خاں ولن نہیں تھے بلکہ انھوں نے ایک شفیق باپ کا رول انجام دیا تھا۔ اور اس فلم میں عبد الرحیم پہلوان تھے جو گل حمید کے رشتے کے بھائی بھی تھے۔ ہیروئن پیشنس کوپر تھی۔

اور اس فلم نے اُس زمانے میں ریلیز ہو کر ناقابلِ فراموش مقبولیت حاصل کی تھی۔ اور ایسٹ انڈیا فلم کمپنی کلکتہ نے اس پر کافی اچھا بزنس بھی کیا تھا۔

گل حمید کی زندگی نے وفا نہ کی۔ اور وہ ایک جان لیوا مرض کا شکار ہو کر مر گیا۔ سنہرا سنسار اس کی آخری فلم تھی جسے دیوکی بوس نے ڈائرکٹ کیا تھا۔

گل حمید سے میری ملاقات کلکتہ میں ہوئی تھی ۔ اور اس وقت ہوئی تھی جب کہ وہ شدید طور پر بیمار تھا۔ اور کلکتہ سے اپنے وطن واپس جا رہا تھا۔ وہ مجھ سے کہنے لگا کہ عادل رشید صاحب مجھے معلوم ہے کہ میں مر جاؤں گا۔ اور ساتھ ہی ساتھ میرے دل کی یہ سب سے بڑی آرزو بھی مر جائے گی کہ میں ہالی وڈ کی فلموں میں کام کروں۔ ہالی وڈ میری زندگی کا وہ حسین خواب ہے جس کی تعبیر سے پہلے ہی میری زندگی مجھ سے اپنا دامن چھڑا رہی ہے۔ کاش میں کچھ دن اور جی سکتا۔ اور اگر میں جی سکوں گا تو اپنے خواب کی تعبیر مجھے مل جائے گی اور پھر مر جانے میں مجھے کوئی عار نہ ہوگا۔ میں یہ نہ سمجھوں گا کہ میں ناکام و نامراد ہوں۔

مگر گل حمید کی یہ سب سے بڑی آرزو پوری نہ ہوسکی۔ اور وہ اپنے وطن جاکر اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اور انڈین اسکرین ایک عظیم الشان ہیرو سے محروم ہوگئی۔

گل حمید مرگیا اور اُس کے مداحوں کے دل ٹوٹ گئے۔ نازک اندام حسیناؤں کی آنکھوں سے آنسوؤں کے سمندر بہہ نکلے۔ اور دو لڑکیوں نے تو گل حمید کی موت کی خبر سن کر خود کشی کر لی۔ اور اتنا بڑا مرتبہ، ہیرو پرستی کی اتنی بڑی مثال ہندوستان میں آپ کو نہ تو پہلے کبھی ملی ہے اور نہ آئندہ کبھی مل سکتی ہے۔

(عادل رشید کی کتاب فلمی مہرے سے انتخاب)