تذکرۂ صالحین: حضرت بہاء الدین زکریا سہروردی ملتانی ؒ

اولیا اللہ سے مراد وہ مخلص اہلِ ایمان ہیں جو اللہ پاک کی بندگی اور گناہوں سے اجتناب کی وجہ سے اللہ کے قریب ہو جاتے ہیں۔ علم کی دولت کے ساتھ حب الہیٰ اور محبتِ رسولؐ ان کا امتیاز ہوتا ہے اور وہ اپنی زندگی کو قرآن اور رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق بسر کرتے ہیں۔ یہی بزرگ دوسروں کی دینی اور روحانی تربیت اور راہ نمائی کرتے ہوئے جب اس دنیا سے پردہ کرتے ہیں، تب بھی ان کا فیض جاری رہتا ہے۔ یہ تذکرہ ہے بہاء الدّینؒ زکریا ملتانی کا جن کے ارادت مندوں کی بڑی تعداد پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی موجود ہے۔

خاندان اور ابتدائی حالات زندگی
وجیہہ الدّین محمّد کے بزرگ مکّہ معظمہ سے خوارزم منتقل ہوئے اور پھر تاتاریوں کی یلغار کے سبب وہاں سے نکل کر کوٹ کروڑ( اب کروڑ لعل عیسن، ضلع لیّہ، پنجاب) میں بس گئے۔ پھر کچھ عرصے بعد ملتان نقل مکانی کی اور وہیں وجیہہ الدّین پیدا ہوئے اور ان کو شادی کے بعد اللہ نے جس فرزند سے نوازا ہم انھیں بہاء الدّینؒ زکریا کے نام سے جانتے ہیں۔

محققین حضرت بہاء الدّینؒ کے حسب و نسب پر تحقیق کے بعد متفق ہیں کہ آپؒ قریشی اسدی ہاشمی تھے۔ اس پر بھی اکثر محققین متفق ہیں کہ آپ کی ولادت 27 رمضانُ المبارک 566 ہجری (3 جون 1171ء) ہوئی اور وہ جمعہ کا مبارک دن تھا۔ بعضوں نے آپؒ کو اس دور میں شیخ الاسلام کے منصب پر فائز لکھا ہے جو بہت ذہین اور قوی حافظے کے مالک تھے۔ چھوٹی عمر ہی میں قرآن پاک حفظ کرلیا اور پھر علماء سے مختلف علوم کی کتب پڑھیں۔

ابھی تعلیم کا سلسلہ جاری تھا کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ حصولِ علم کی خاطر خراسان بھی گئے اور 7 برس تک علماء کی صحبت میں رہے۔ بعد میں بخارا پہنچے اور وہاں بھی لگ بھگ اسی مدت تک قیام کے دوران علماء سے فیض اٹھاتے رہے۔ وہاں آپؒ ایک نوجوان عالم ہی کے طور پر نہیں بلکہ ایسے متّقی اور پرہیزگار مشہور ہوگئے لوگ آپؒ کو ’’بہاء الدّین فرشتہ‘‘ پکارنے لگے تھے۔

بعد میں حج کی ادائی کو روانہ ہوئے اور مدینہ میں قیام کے زمانہ میں پانچ برس تک شیخ کمال الدّین محمد یمنیؒ جیسے نام وَر عالم سے حدیث پڑھی۔ بعدازاں، بیتُ المقدس میں زیارتوں کے لیے گئے اور دمشق میں بھی علماء سے تعلیم حاصل کرتے رہے۔

بیعت کا شرف اور خلافت کا سلسلہ
جس وقت وہ بغداد پہنچے، تو وہاں سلسلۂ سہروردیہ کے عظیم بزرگ شیخ شہاب الدّین سہروردیؒ فکر و عمل کے ساتھ روحانیت کی روشنی پھیلائے ہوئے تھے۔ اُن سے کچھ ایسے متاثر ہوئے کہ اپنا ہاتھ اُن کے ہاتھ میں دے دیا۔ بعد میں خلافت سے سرفراز ہوئے۔ کہتے ہیں کہ آپؒ شروع ہی سے ذکر و اذکار کرتے آرہے تھے اور مجاہدات میں مصروف رہتے تھے جس نے شیخ‌ صاحب کی نظر کے ساتھ ہی باطن کو بھی خوب خوب آراستہ کر دیا۔

ملتان میں قیام اور روحانیت کا سفر
مرشد نے خلافت سے نوازتے ہوئے بہاء الدّین کو ان کے آبائی علاقے ملتان جانے کی ہدایت فرمائی تو ملتان تشریف لے گئے۔ یہ 615 ہجری کی بات ہے۔ ملتان پہنچ کر ابتداْ گوشہ نشین رہ کر عبادت کرتے رہے اور پھر مجلسِ وعظ کا آغاز کیا، جس میں ہر خاص و عام شریک ہونے لگا۔ دلوں کو نورِ ایمان سے منوّر کرنے کے لیے آپؒ نے ملتان میں ایک مدرسے کی بھی بنیاد ڈالی۔ کہتے ہیں کہ یہ ایک اقامتی ادارہ تھا اور اس کی شہرت خوب ہوئی تو وہاں طلبہ عراق، شام اور حجاز سے آنے لگے تھے۔ مدرسے نے اسلام کے مبلغین تیار کیے جو بہاء الدین زکریاؒ کے حکم پر مختلف علاقوں میں جاکر دین کو پھیلاتے۔ ہزاروں لوگوں نے حضرت شیخ کی کوششوں سے اسلام قبول کی۔ حضرت بہاء الدین زکریا سہروردی ملتانی ؒ کی ذات بابرکات سے اِس خطّے میں سہروردی سلسلے کو فروغ حاصل ہوا اور آپؒ کو بجا طور پر برّصغیر میں اِس سلسلے کا بانی کہا جاسکتا ہے۔

دنیا کا فہم
تصوف اور اولیائے کرام کے تذکروں پر مبنی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت بہاء الدین زکریا سہروردی ملتانی ؒ محض صوفی یا دینی مبلغ ہی نہیں تھے بلکہ عوام کی حالت بہتر بنانے اور فلاح و بہبود پر بھی بہت توجّہ دیتے تھے۔ اس کے لیے زراعت اور تجارت سے معاش کو یقینی بنانے کے لیے کوشش کی، نہریں کھدوائیں اور کنوئیں بنوائے۔ حضرت بہاء الدین زکریا سہروردی ملتانی ؒ کی یہ کوشش اس لیے تھی کہ ان کے عقیدت مند کسی پر بوجھ نہ بنیں بلکہ ان کو کام کرنے کی ترغیب دی جائے۔ آپؒ کے دور میں سلطان التمش کا راج تھا جس سے ان کے اچھے تعلقات تھے اور اُس کی درخواست پر شیخ الاسلام کا منصب قبول کیا۔ کہتے ہیں کہ جب منگول ملتان پر حملہ آور ہوئے تو آپؒ نے شہر سے باہر جاکر اُن سے ملاقات کی اور حملہ نہ کرنے کے عوض ایک لاکھ درہم کی پیش کش کی، جو اُنھوں نے قبول کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ آپؒ نے اس طرح شہریوں کے قتلِ عام کو روکا۔

ثروت مندی
حضرت بہاء الدین زکریا سہروردی ملتانی ؒ کو وراثت میں بہت دولت حاصل ہوئی تھی اور پھر آپؒ نے اس مال کو تجارت میں لگایا تو آمدنی میں بے پناہ اضافہ ہوا جس میں سے خطیر رقم محتاج اور ضرورت مند لوگوں پر خرچ کی۔

تعلیمات اور معمولات
عبادات کا ذوق و شوق اور عادت نوّے برس سے زاید عمر ہونے کے باوجود پختہ رہی اور مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرتے رہے۔ شب بیدار تھے اور تلاوت معمول تھا۔ مریدین کی روحانی راہ نمائی کرنے کے ساتھ ان کے دنیاوی مسائل سنتے اور مدد فرماتے۔

وصال اور اولاد
محققین کی اکثریت نے لکھا ہے کہ دسمبر 1261ء کو ملتان میں 96 برس کی عمر میں آپ نے وفات پائی۔ آپؒ کا مزار فنِ تعمیر کا شاہ کار ہے۔ آپ نے دو شادیاں کی تھیں، جن سے سات بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ ان کے بیٹوں میں مخدوم صدر الدّین عارفؒ اور اُن کے صاحب زادے شاہ رکن عالمؒ نے بہت شہرت پائی۔

(اس مضمون کا ماخذ بزرگانِ دین کے تذکروں پر مبنی کتابیں ہیں جس میں خاندان کے بزرگوں کے ناموں اور مختلف مقامات پر درج سنہ و تاریخ میں محققین کے درمیان اختلاف بھی موجود ہے)