چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں بہت سے بنیادی حقوق نیب ترامیم سے متاثر ہو رہے ہیں سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت کی۔ آج سماعت کے دوران نیب نے سپریم کورٹ میں نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والے ملزمان کی تفصیلات اور رواں سال نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی تفصیلات جمع کرا دیں جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ تفصیلات آگئی ہیں فیصلہ آج ہی کریں گے۔
سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کل ہم نے ترمیمی قانون میں ایک اور چیز دیکھی، ایم ایل اے کے تحت حاصل شواہد کی حیثیت ختم کر دی گئی ہے، اب نیب کو خود وہاں سروسز لینا ہوں گی جو مہنگی پڑیں گی۔
چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان سے کہا کہ آپ نے کل کہا تھا ایم ایل اے کے علاوہ بھی بیرون ملک سے جائیدادوں کی رپورٹ آئی۔ قانون میں تو اس ذریعے سے حاصل شواہد قابل قبول ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہمارے فوجداری نظام میں سزا کا تناسب 70 فیصد سے بھی کم ہے، ان میں سے بھی بہت سارے مقدمات اوپر جا کر سیٹل ہو جاتے ہیں، ہم لا اینڈ جسٹس کمیشن میں یہ سب ڈیٹا دیکھتے ہیں اور یہ ڈیٹا قابل تشویش ہے۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کل یہاں بہت کہا گیا کہ نیب تحقیقات پر اربوں روپے لگے، اربوں روپے نیب پر لگتے پھر ایم ایل اے کے ذریعے انہیں شواہد منگوا کر دیے جاتے، اٹارنی جنرل کس اتھارٹی کے ذریعے نیب کے لیے ایم ایل اے بھیجتے رہے، یہ سب کر کے بھی نیب مقدمات میں سزا کی شرح 50 فیصد سے کم تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے کرمنل جسٹس سسٹم میں بھی سزا کی شرح 70 فیصد سے کم ہے اور ان میں سے بھی کئی مقدمات اوپر جاکر آپس میں طے ہو جاتے ہیں۔ ریاست کا بنیادی کام ہی انصاف دینا ہوتا ہے لیکن قتل کے مقدمات میں 30 سے 40 فیصد لوگوں کو انصاف نہیں ملتا۔
وکیل نے کہا کہ کئی متاثرین عدالتوں میں ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کیونک انہیں یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ ملزمان کی شناخت کے بعد محفوظ رہیں گے۔
اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب دلائل شروع ہوئے اور انہوں نے کہا کہ سیکشن 21 جی ایم ایل اے کے ذریعے شواہد حاصل کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ان شواہد کی کوئی تصدیق بھی کروائی جاتی ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ دفتر خارجہ کے ذریعے شواہد لیے جاتے اور تصدیق کا ایک پورا عمل ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کی زیرحراست ملزم کو دباؤ میں لا کر پلی بارگین کا تاثر موجود ہے جس پر وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ درست ہے کچھ مثالیں ہیں جن میں دباؤ ڈال کر پلی بارگین کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بتائیں پلی بارگین کی نیب شق میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے؟ آرٹیکل 10 اے کے تحت ملزم کے بھی بنیادی حقوق ہیں، کیا ملزم کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری نہیں؟ جسٹس منصور نے کہا کہ فوجداری قانون میں تو ملزم عدالت کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے، عوام ہمارے سامنے تو تب آئے گی جب ان کے حقوق متاثر ہوں گے۔
خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ نیب ترامیم اس انداز سے کی گئیں کہ ملزم اب پراسیکیوٹ نہیں ہوسکے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ الزام لگا رہے ہیں نیب ترامیم سے ریاست ملزم کے مفاد کا تحفظ کر رہی ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ نیب ریگولیٹری پرترامیم کے ذریعے قبضہ ہے، کیا جو نیب کا ملزم ہے وہ قانون بنائے گا؟ کیا ملزم بتائے گا کہ اس کے خلاف کارروائی کیسے ریگولیٹ ہو؟
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے اہم ریمارکس دیے اور کہا کہ پارلیمانی جمہوری نظام آئین پاکستان کا مرکزی جزو ہے، کہا جا رہا ہے ایک پارلیمنٹ نے اپنے اہلخانہ کو فائدہ پہنچانے کیلیے قانون سازی کی، مجھے محسوس ہو رہا ہے زور لگا لگا کر نیب ترامیم میں غلطی ڈھونڈی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کو اپنے اپنے طریقے سے چلنے دیں، اس وقت عام انتخابات سر پر ہیں، میرے ذہن میں ایک ہی حل ہے کہ نئی پارلیمنٹ آ کر ترامیم کو ختم کر دے، ورنہ ایسے تو پورا نظام ہی ختم جائے گا۔ انتخابات قریب ہیں لوگوں کو فیصلہ کرنے دیں، عوام کو ترامیم اعتراض ہوگا تو انتخابات میں نئے لوگوں کو منتخب کریں گے۔
جسٹس منصور نے مزید کہا کہ سب سے بڑی خلاف ورزی یہ ہے کیسے ایک شخص اپنی مرضی سے پارلیمنٹ چھوڑ کر چلا گیا، پارلیمنٹ کا فورم موجود تھا، کیسے اپنے حلقے کی نمائندگی چھوڑ دی؟ درخواست گزار کی نیک نیتی کیا ہے؟ پارلیمنٹ کا فورم چھوڑ کر عدالت آنے سےنیک نیتی کا سوال تو آئے گا، ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے اسے چلنے دیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ یہ سیاسی فیصلہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھنا ہے یا چھوڑنا ہے۔ وہ ان کا سیاسی فیصلہ تھا وہ مستعفی ہونے کا حق رکھتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب قانون کا کاروباری شخصیات کےخلاف غلط استعمال کیا گیا، میرے پاس ایسے کاروباری شخصیات کے نام بھی موجودہیں جن کو نقصان پہنچایا گیا، ایسے نہیں ہونا چاہیے کہ کسی اکاؤنٹنٹ کو بٹھا کر 10 روپے کی غلطی نکالی جائے۔ کرپشن معاشرے اور عوام کے لیے نقصان دہ ہے لیکن کسی جرم کی نوعیت تبدیل کرنا درست نہیں۔
خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ کرپشن مقدمات میں متاثرہ فریق عوام ہوتی ہے، شکایت کنندہ بھلے نیب ہو لیکن پیسہ عوام کا غبن ہوا ہوتا ہے، کرپشن مقدمات کا بنیادی عوامی حقوق سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا اپنے فائدے کیلیے بنائے گئے قانون کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں؟ پارلیمان اپنے فائدے کیلیے قانون بنا بھی لے تو عدالت کیا کر سکتی ہے؟
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 9 کے تحت عدالت ایسے قوانین کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ انور مجید نے ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھا کر کالا دھن سفید کیا، ایمنسٹی اسکیم کا اطلاق کرپشن کے پیسے پر نہیں ہوتا تھا اس لیے نیب میں ترمیم کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ ترامیم سے نیب والوں کا غلط استعمال روکنے میں مدد ملے گی، لیکن صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں اور بدنیت لوگوں کے ہاتھ میں اتھارٹی دی جاتی رہی، کئی لوگوں کے پاس منشیات و دیگر ذرائع سے حاصل داغدار پیسہ موجود ہے، جس کا تحفظ کر کے سسٹم میں بہت سے لوگوں کو بچایا جاتا ہے۔ ریاست کی ذمے داری ہے کہ منصفانہ معاشرہ قائم کرے اور مجرمان آزاد نہ گھومیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معاشی مواقع چھیننے کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، معیشت کے شعبے کو سیاسی طاقتوروں کیلیے مختص کر دیا گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ بنیادی حقوق کے براہ راست تعلق کا سوال اٹھا رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں بہت سے بنیادی حقوق نیب ترامیم سے متاثر ہو رہے ہیں، نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی لیکن بلا واسطہ حقوق متاظر ہونے کا پہلو ضرور ہے۔
نیب ترامیم سے کس کس ملزم کو فائدہ پہنچا، تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں آمدن سے زائد اثاثوں کے اصول کا استعمال کم کیا جاتا ہے اور اس میں براہ راست ثبوتوں کو دیکھا جاتا ہے۔ ماضی میں نیب قانون کا غلط استعمال کیا جاتا رہا اور قانون سازی کے ذریعے سرکاری افسران کو نیب سے تحفظ فراہم کیا گیا، آڈیٹر جنرل اہم آئینی ادارہ ہے، مضبوط آڈیٹر جنرل آفس صوبوں کےاکاؤنٹس کو بھی دیکھ سکتا ہے،
چیف جسٹس نے نیب ترامیم کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔