سرمئی شام خاموشی سے محلّے میں اُتر آئی تھی۔ گیانو ابھی تک چھجّے پر جھکی ہوئی سامنے والی خستہ حال حویلی کو دیکھ رہی تھی۔ یہ حویلی ایک مدّت سے ویران پڑی تھی اور اس کا چھجّا تقریباً لٹک سا گیا تھا۔ جیسے اب گِرا کہ اب گِرا۔
کبھی کبھی رات کو اس حویلی کا کوئی مخدوش حصّہ، چھت کی چند اینٹیں یا کسی دیوار کا کُچھ حصّہ بڑی بھیانک آواز سے گر جاتا اور بستر پر پڑی گیانو کا دِل دھک سے رہ جاتا۔ اسے ہر وقت اُس حویلی سے ڈر آتا تھا۔ وہ روز صبح اپنے چھجّے پر آتی اور دیر تک کھڑی حویلی کو دیکھتی رہتی۔ ہر رات وہ دعا کرتی کہ ساری کی ساری حویلی اِک دَم گِر جائے۔ رات کے سنّاٹے میں جب بھی حویلی کے اندر کہیں ملبا گِرنے کی ڈراؤنی آواز گونجتی تو اُسے لگتا جیسے بھوت اچھل کود رہے ہیں۔ پھر کبوتروں کے بچّے اچانک چیں چیں شروع کر دیتے۔ پھر بلّیاں لڑنا شروع کر دیتیں۔ رات کا سنّاٹا اور بھی ڈراؤنا ہو جاتا اور گیانو ساتھ سوئے ہوئے ننّھے کو زور سے چمٹا لیتی۔
آج شام سے ہی حویلی میں ملبہ گرنے اور کبوتروں کے بچّوں کے چیں چیں کرنے کی آوازیں آنے لگی تھیں۔ شیام ابھی گھر نہیں پہنچا تھا۔ رمن اور پپّو اسکول سے آ کر بستہ پھینک، روٹی کھا، گلی میں کھیلنے چلے گئے تھے۔ گھر میں وہ اور ننّھا اکیلے تھے اور گیانو کو حویلی دیکھ دیکھ کر خوف آ رہا تھا۔
دھڑام! دھڑام! حویلی کا کچھ حصّہ گِرا۔ گرد کے بادل اٹھے۔ پرانے ملبے کی بُو دَم گھونٹنے لگی۔ بہت سے کبوتر پھڑپھڑا کر اڑے اور چھت کے سوراخ سے آپس میں ٹکراتے ٹکراتے، باہر آ گئے۔ گیانو کانپتی ہوئی پیچھے ہٹ گئی اور کھڑکی بند کر دی۔ تھوڑی دیر بعد شیام آ گیا۔ اُس نے کھڑکی کھول دی۔ گرد بیٹھ چکی تھی۔ آسمان پر پچھّم کی طرف سے کالی بدلی بڑھی آ رہی تھی اور ہوا میں ٹھنڈک اور نمی بڑھ گئی تھی۔ ننّھا سو گیا تھا۔ گیانو اُسے بستر پر لٹا کر شیام کے قریب آ کھڑی ہو گئی۔ ”یہ کمیٹی والے اس حویلی کو گِرا کیوں نہیں دیتے؟“
”اس کے مالک مِل ملا کر رکوا لیتے ہیں۔ حکم تو ہے کہ ایسی عمارتوں کو گِرا دیا جائے۔“ شیام نے جواب دیا۔
”مجھے تو بڑا ڈر لگتا ہے۔ پھر بچّے گلی میں کھیلتے رہتے ہیں۔“
شیام نے حویلی کی طرف دیکھا اور خاموش رہا۔ سیٹھی مٹھن لال کے ڈرائنگ روم میں آج شیام کی بے عزّتی ہوئی تھی۔ اِس لیے وہ اندر ہی اندر تِلملا رہا تھا۔ اُس کے دل میں جیسے اُبال آ رہا تھا۔ اور وه چاہتا تھا کہ سیٹھ مٹھن لال کو اس عمارت میں زندہ جلا دے۔ اس وقت وہ گیانو سے اپنی بے عزّتی کا ذکر کر کے اسے دکھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جب کبھی ایسی کوئی بات ہوتی، وہ اکیلا ہی سہہ جاتا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے غم سے گیانو غمگین ہو جاتی ہے۔ ماں کے ساتھ بچّے بھی اُداس ہو جاتے ہیں۔ معصوم بچّوں کے کملائے ہوئے چہرے دیکھ کر شیام کو رونا آ جاتا۔
”آج سیٹھانی نے مجھے بلایا تھا۔“ گیانو بولی۔
”کیوں۔۔۔ “ ایک دم شیام نے پوچھا۔
”رمن نے رنجن کو مارا تھا۔“
”پھر۔۔۔۔؟“
” میں ہاتھ جوڑ آئی۔۔۔۔ “ گیانو نے کہا۔ ”مجھے تو ان کی کوٹھی میں داخل ہوتے ڈر لگتا تھا۔ دو موٹے موٹے کتّے ہر وقت دروازے پر بیٹھے رہتے ہیں۔ ابھی پرسوں اس نے لیلا کے لڑکے کو مارا تھا۔ بے چاری بیوہ۔۔۔ آگے پیچھے کوئی بولنے والا بھی نہیں۔۔۔ چُپ ہی رہ گئی۔“
”کوئی ہو بھی تو کیا کرے گا۔۔۔! “ شیام بولا: ”اِن امیر آدمیوں نے تو ہم غریبوں کا جینا حرام کر دیا ہے، بھگوان اُنہیں موت بھی نہیں دیتا۔۔۔“ شیام کے دِل میں گھلتا ہُوا زہر اُس کے لفظوں میں آ گیا۔
”سیٹھ جی تمہیں بھی بلا رہے تھے۔۔۔!“ گیانو بولی۔
”مجھے کیوں۔۔۔۔؟“
”شکایت ہی کرنی ہو گی۔“
شیام کے ذہن میں موٹی بھینس کی کھال والے سیٹھ کی صورت گھوم گئی۔ سیٹھ کپڑے کی مِل کا مالک تھا۔ شیام کا باپ اُن کے ہاں نوکر رہ چکا تھا۔ شیام نے وہاں نوکری نہیں کی تھی۔ خود اُس کا باپ بھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ پرائیویٹ نوکری کرے۔ لیکن کمیٹی میں نوکری کر کے بھی شیام ایک طرح سے سیٹھ کا ہی نوکر رہا۔ سیٹھ پچھلے چھ سال سے وہاں کا صدر تھا اور سیاه و سفید کا مالک۔ اُسے اپنا بچپن بھی یاد تھا۔ جب وُہ کبھی کبھی اپنے باپ کے ساتھ سیٹھ کے ہاں جایا کرتا۔ اُسے تب ہی سے سیٹھ سے ڈر آنے لگا تھا۔ وُہ اپنے نوکروں سے کُچھ اس طرح بات کرتا جیسے وہ آدمی نہ ہوں، جانور ہوں۔ اُس کے باپ کی کئی مرتبہ بے عزّتی ہوئی تھی اور وہ سر لٹکا کر چُپ چاپ سب برداشت کر لیتا تھا۔ تب شیام کو اپنے آپ پر بھی غصّہ آیا کرتا تھا۔ وہ سوچتا یہ آدمی میری ماں کو مارتا ہے، ڈانٹتا ہے، ہم بچّوں پر سختی کرتا ہے، گالیاں دیتا ہے، اس سیٹھ پر ہاتھ کیوں نہیں اٹھاتا۔
دھیرے دھیرے وہ بھی اپنے باپ کی طرح خاموشی سے برداشت کر لینے کا عادی ہو گیا اور اسے اپنے باپ پر بے حد پیار آیا۔ شیام اُس رات باپ کی تصویر سے لپٹ کر خوب رویا تھا اور اپنے سوئے ہوئے بچّے کو بار بار چوما تھا۔
ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا اور اُس کے بال بکھر گئے۔ گلی کے نکّڑ پر لٹکتا برقی قمقمہ اپنی ایک زرد آنکھ سے چاروں طرف گھور رہا تھا اور گلی میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ وہ کھڑکی بند کر کے اندر آ گیا۔
”رمن اور پپّو کہاں ہیں؟“ اس نے کمرے میں خاموشی دیکھ کر کہا۔
”وہیں ہوں گے پنڈتوں کے طویلے میں۔ بُوا جَے وَتی سے کہانیاں سُن رہے ہوں گے۔“ گیانو بولی۔
”بارش ہونے والی ہے۔“ شیام نے یوں ہی کہا۔
”جا کر اُن دونوں کو لے آؤ، سردی بڑھ گئی ہے۔۔۔ میں توا رکھ کر روٹی تیّار کرتی ہوں۔“ شیام سیڑھیاں اُتر گیا۔
(2)
طویلے کا دروازه ذرا سا کھلا تھا۔ اندر مٹّی کے تیل کی کپّی کی مدّھم سی روشنی ایک کونے کو اندھیرے سے الگ کر رہی تھی۔ بُوا جَے وَتی کی تھکی تھکی، کمزور سی آواز سنائی دے رہی تھی۔ شیام ٹاٹ کا پردہ اٹھا کر اندر چلا گیا۔ بُوا اپنی میلی پھٹی ہوئی رضائی اوڑھے چارپائی پر بیٹھی کہانی سنا رہی تھی۔ دائیں طرف دیوار کے طاقچے میں کپّی جل رہی تھی، برسوں سے دهوئیں نے جم جم کر طاق کے اُوپر سفید دیوار کا کچھ حصّہ سیاہ کر دیا تھا، جیسے ننّھا سا سرو کھڑا ہو۔ شعلہ جیسے انہماک سے کہانی سُن رہا تھا۔ طویلے میں بچّے بُوا کے سامنے خاموش بُت بنے بیٹھے تھے۔ شیام کو لگا جیسے وہ کسی پُراسرار کہانی کو اسٹیج پر دیکھ رہا ہو۔ پوپلے منہ، جھریوں والے چہرے اور سفید بالوں والی بُوا جے وَتی، خود کسی پریوں کی کہانی کا معصوم سا کردار نظر آ رہی تھی۔ شیام نے اس ماحول کو اپنی دخل اندازی سے خراب کرنا مناسب نہیں سمجھا اور چپ چاپ کھڑا کہانی سننے لگا۔
بُوا پپّو کو گود میں بٹھائے کہانی سنا رہی تھی: ”شہزادہ بہت بہادر تها۔ وہ ہمیشہ سچ بولتا تھا اور کِسی سے نہیں ڈرتا تھا۔۔۔“
”بُوا! بھوتوں سے بھی نہیں۔۔۔۔؟“ رمن نے پوچھا۔
”نہیں، وہ رات کو اپنے سفید گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل میں چلا جاتا۔ وہاں ایک خوب صورت سی جھیل تھی۔ اُس میں کنول کے نیلے، سفید اور گلابی پھول کھلتے تھے۔ وہاں پریاں راج ہنسوں پر بیٹھ کر سیر کرنے آتی تھیں اور گانے گاتی تھیں۔ اُن کی شہزادی بھی بہت خوب صورت تھی۔ شہزادے کو شہزادی سے پیار ہو گیا۔ وہ بھی اُسے پیار کرنے لگی۔ وہاں ایک بوڑھے پیپل پر ایک دیو رہتا تھا۔ وہ شہزادی سے بیاہ کرنا چاہتا تھا۔ ایک رات وہ شہزادی کو اٹھا لے گیا۔“
”پھر!“ بچّوں نے ایک ساتھ پوچھا۔
”شہزادے نے اُس کی چیخ سنی۔۔۔۔“
”بُوا جھوٹ بولتی ہے۔۔۔“ سیٹھ ہردیال کے لڑکے رنجن نے کہا۔
”چُپ۔۔۔!“ رمن نے ڈانٹا۔ ”کہانی سننے دے۔“
”شہزاده دیو سے لڑنے چل پڑا۔ بڑی سخت لڑائی ہوئی، شہزادے نے دیو کو مار دیا اور شہزادی سے بیاہ کر لیا۔“
”دیو کو کوئی نہیں مار سکتا۔“ رنجن پھر بولا۔ بُوا مسکرائی اور بولی:
”بیٹے! جو بہادر ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ جیت کر آتے ہیں۔۔۔“
بُوا! مَیں مار سکتا ہوں دیو کو۔۔۔“ پپّو بولا۔ ”میں بہادر ہوں۔“ ”ہاں! تُو بڑا بہادر ہے۔۔۔“
”کوئی نہیں مار سکتا۔“ رنجن بولا۔ ”میرے ڈیڈی کہتے ہیں۔۔۔“
”میں مار سکتا ہوں دیو کو۔“ رمن اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
”بُوا جھوٹ بولتی ہے۔“ رنجن بھی کھڑا ہو گیا۔
”خبردار! جو بُوا کو جھوٹی کہا۔۔۔!“
”کہوں گا۔۔۔ کہوں گا۔۔۔“ رنجن نے اکڑ کر گہا۔
رمن نے آگے بڑھ کر رنجن کی چھاتی پر گھوسنا دے مارا۔ ”اب کہہ۔۔۔“
رنجن فرش پر گِر گیا۔ لڑکے ہنسنے لگے۔ اُس نے روتے ہوئے کہا۔ ”ہمارا نوکر تجھے مارے گا۔“
”میں اُس کا سَر توڑ دوں گا۔۔۔!“ رمن بولا۔ شیام نے آگے بڑھ کر رمن کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ”لڑتا ہے، بے ایمان! چل گھر۔۔۔!“
”شیام! بچّے کو مارنا نہیں۔“ بُوا جے وَتی نے کہا۔ ”اس کا دِل ٹوٹ جائے گا۔۔۔ بچّوں کو پیار سے سمجھانا چاہیے۔ جاؤ رمن! لڑتے نہیں۔“
”یہ تمہیں جھوٹی کہتا ہے۔ کل اِس نے مجھے ماں کی گالی دی۔ بڑا سیٹھ کا لڑکا بنا پھرتا ہے۔“ رمن نے کہا۔
”اچھّا، چل گھر۔۔۔!“ شیام دونوں بچّوں کو گھر لے آیا۔ شیام نے گھر آ کر بیوی کو بتایا۔
”یہ تیرا رمن پھر لڑ آیا ہے، سیٹھ کے لڑکے سے۔“
”کیوں رے۔۔۔؟“
”ماں! وہ تمہیں گالی دیتا ہے، بُوا کو جھوٹا کہتا ہے۔“ رمن نے بوری پر بیٹھے ہوئے کہا۔
”ہاں، ماں اور گندی گندی گالیاں دیتا ہے۔ میں بھی اُسے ماروں گا۔ اور ہاں! میں بہادر شہزادہ بنوں گا۔ پھر پری سے بیاہ کروں گا۔“ وہ ماں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا۔ گیانو مسکرا دی۔
”رمن لڑتے نہیں۔۔۔!“ شیام نے سمجھایا۔ ”اُس کا نوکر گنیشا مارے گا۔ اُس روز اُس نے کریم کو مارا تھا۔“
”ہاں! مارے گا۔۔۔! میں نہیں ڈرتا۔ گلی کے سارے لڑکے ہمارے ساتھ ہیں۔“
شیام سوچنے لگا کہ یہ بچّے کتنے نڈر ہیں اور وہ خود کتنا ڈرپوک ہے۔۔۔! کِسی دِن غریبی اُنہیں بھی کمزور اور ڈرپوک بنا دے گی۔۔۔۔ وہ اُداس ہو گیا۔
باہر بارش شروع ہو چکی تھی۔
(3)
رات بھر حویلی دھڑام دھڑام گِرتی رہی تھی۔ آج آسمان صاف تھا۔ جنوری کے شفاف، نیلے کانچ کے نکھرے نکھرے آسمان کے پوربی کنارے سنہری ہو چلے تھے۔ جیسے کِسی نے وہاں گوٹ ٹانگ دی ہو۔ گیانو نے چھجّے پر آ کر حویلی کی طرف دیکھا۔ وہ تقريباً ساری گِر گئی تھی۔ بس دیواریں کھڑی رہ گئی تھیں۔ مٹّی اور نانک شاہی اینٹوں کا ڈھیر کافی اونچا ہو گیا تھا۔ لٹکتا ہُوا چھجّا گلی میں پڑا تھا۔ حویلی کے اندر اور کچھ نہیں تھا۔ گیانو نے جیسے سُکھ کا سانس لیا۔ اُسے اب پچھلے مکان بھی نظر آ رہے تھے۔ اور وہ مکان تو اب جیسے سامنے آ گیا تھا جس میں اُس کی سہیلی رہتی تھی۔ اب وہ اس کی کھڑکی دیکھ سکتی تھی۔ اس شکستہ حویلی نے اُس کی سہیلی کے مکان کو چھپا رکھا تھا۔
بچّے بھی بہت خوش تھے اور ملبے پر گھومتے پھر رہے تھے۔ رمن سب سے آگے تھا۔ عورتیں ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھیں۔ آدمی بھی اُس حویلی کا ذکر کر رہے تھے۔
رنجن گنشے کے ہمراہ آیا۔ ”وہ ہے رمن!“ اُس نے گنیشے کو بتایا۔
”کاکا جی کو کیوں مارا تھا بے!“ گنیشے نے رمن کے سامنے جا کر پوچھا۔
”اُس نے گالی کیوں دی تھی۔۔۔!“
”پھر مارا تو۔۔۔!“ گنیشے نے ڈانٹا۔ گلی کے تمام آدمی ایک دم وہاں پہنچ گئے۔
”کیوں تنگ کر رہا ہے بچّوں کو۔۔۔!“ دودھ والا آگے بڑھ کر بولا۔
”یہ کاکا جی کو مارتا ہے۔۔۔!“
”سنبھال کے رکھ اپنے کاکا جی کو۔۔۔ خبردار جو بچّوں کو کچھ کہا۔۔۔ بہت ہو لیا۔“ رمن اور بھی اکڑ کر کھڑا ہو گیا۔
”جا چلا جا، نہیں تو ملبے میں گاڑ دوں گا۔ آیا بڑا سیٹھ کا نوکر۔“ رُلدو بولا۔
بچّوں نے تالیاں بجائیں۔ گنیشا رنجن کو لے کر واپس چلا گیا۔
کھڑکی میں کھڑی گیانو نے گردهادی کی بیوی سے کہا۔ ”موئی، یہ دیواریں بھی گریں تو ریوڑیاں بانٹوں۔“
”بس، اب گِری سمجھ۔۔۔!“
”یہاں ہم نیا مکان بنائیں گے۔“ رمن نے ماں سے کہا۔
”اب تو پچھلے کمرے تک دھوپ آیا کرے گی۔“ گیانو بولی۔
بچّے تالیاں بجا رہے تھے۔
(مصنّف: شرون کمار)