پولیس نے اسلام آباد اور لاہور میں چھاپہ مار کارروائی کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے متعدد رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔
پولیس نے اسلام آباد میں پربت روڈ پر پی ٹی آئی رہنما سینیٹر شبلی فراز کے گھر پر چھاپہ مارا اور تلاشی لی تاہم اس دوران وہ گھر پر مجود نہیں تھے۔
شبلی فراز کی رہائشگاہ پر پولیس چھاپے کا چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے نوٹس لے لیا اور اسلام آباد پولیس سے فوری رپورٹ طلب کرلی۔ انہوں نے پولیس چھاپے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ پولیس چادر اور چار دیواری کا احترام کرے، شبلی فراز رکن سینیٹ ہیں۔
اسلام آباد میں پولیس نے پی ٹی آئی رہنما انجم تنولی کے جی سکس میں قائم گھر پر چھاپہ مارا، اہل خانہ کے مطابق پولیس انجم تنولی کے 10 سال کے بھتیجے کو ساتھ لے گئی۔ سیکٹر جی سیون میں پولیس نے نعمان گجر کے والد کو حراست میں لے لیا۔
پولیس نے پی ٹی آئی کارکن راجہ شاہد کی دکان پر چھاپہ مارا اور انہیں گرفتار کر کے ساتھ لے گئی۔ اس کے علاوہ علاقہ پھلگراں سے پی ٹی آئی رہنما لیاقت طوری کو گرفتار کیا گیا۔
لاہور میں پولیس نے پی ٹی آئی کے سابق رکن پنجاب اسمبلی ظہیر عباس کھوکھر کے گھر پر چھاپہ مارا تاہم وہ گھر پر موجود نہیں تھے۔ ظہیرعباس کھوکھر نے اپنے بیان میں کہا کہ گھروں پر چھاپوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما میاں اسلم اقبال کے ڈیرے، میاں افضل اقبال اور میاں امجد اقبال کے گھر پر بھی پولیس نے چھاپے مارے۔
علاوہ ازیں پولیس نے پی ٹی آئی رہنما چوہدری عمر طالب کے گھر پر چھاپہ مارا اور ان کے بھائی چوہدری عمير اور ملازم حافظ کو گرفتار کر کے لے گئی۔
پی ٹی آئی کے نامز امیدواروں کے گھر بھی پولیس پہنچ گئی
پنجاب کے حلقہ پی پی 146 سے پی ٹی آئی کے امیدوار میاں سلمان شعیب اور پی پی 145 سے امیدوار فاروق خان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔
پی ٹی آئی حماد اظہر نے ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں بتایا کہ میرے حلقے سے کارکنان کی گرفتاری کا عمل شروع ہے، مجھ سمیت تقریباً لاہور کے 500 کارکنان کی فہرست تیار ہے، فسطائی ہتھکنڈوں کا 11 ماہ سے مقابلہ کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
میرے حلقے سے کارکنان کی گرفتاری کا عمل شروع ہے۔ مجھ سمیت تقریباً 500 لاہور کے کارکنان کی فہرست تیار ہے۔ بدھ کے جلسے کے زبردست انتظامات جاری ہیں اور متبادل افراد کو ذمے داری سونپی بھی جا چکی ہے۔ ایسے فاشسٹ ہتھکنڈوں کا پچھلے ۱۱ ماہ سے مقابلہ کر رہیں ہیں اور کرتے رہیں گے۔
— Hammad Azhar (@Hammad_Azhar) March 19, 2023