ریڈ کراس کا نام ذہن میں آتے ہی جنگی علاقوں میں متاثرین کی مدد کرنے والے ادارے کا نام ذہن میں آتا ہے جو عالمی جنگوں میں اب تک لاکھوں افراد کی جانیں بچا چکا ہے۔
دنیا جب سے وجود میں آئی ہر کچھ عرصے بعد جنگ وجدل کا سامنا رہا ہے لیکن جدید دنیا میں میں پہلی عالمی جنگ آسٹریلیا کے ولی عہد فرائزفرڈینینڈ کے قتل کے ایک ماہ بعد 28 جون 1914 کو چھڑی جس نے چار برس تک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا اور یہ جنگ دو کروڑ سے زائد افراد کی ہلاکتوں اور زخمی ہونے کا سبب بنی۔
پہلی عالمی جنگ صرف جنگ نہیں بلکہ ایک ایسا بحران تھا جس کے شروع ہوتے ہی انٹرنیشنل ریڈ کراس کمیٹی کو بہت بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے ارکان کو مختلف محاذ جنگ پر جا کر زخمیوں کی مدد اور وہاں سے ہجرت کرنے والے خاندانوں کی دیکھ بھال کرنا پڑتی تھی۔
اس بحران سے نمٹنے کے لیے انٹرنیشنل ریڈ کراس سوسائٹی کی جانب سے انسانی بنیادوں پر رضاکاروں سے مدد کی اپیل کی گئی جس کے بعد طبی اور نیم طبی اداروں سے منسلک افراد نے بڑی تعداد میں رضا کاروں کے طور پر اپنی خدمات پیش کیں جن میں امریکی اور جاپانی پیش پیش تھے۔
اسی سال اکتوبر میں ریڈ کراس سوسائٹی نے جنگی قیدیوں کے امور کے لیے 1200 ارکان پر مشتمل ایک خصوصی ونگ تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ اس ونگ کے ارکان مختلف جیلوں کا دورہ کرتے اورقیدیوں کے امور کی نگرانی کرنے کے علاوہ ان کے اہل خانہ کی جانب سے خطوط ان تک پہنچاتے۔ اس ضمن میں پہنچائے گئے خطوط کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ تھی اس کے علاوہ 19 لاکھ پارسل بھی شامل تھے۔ متعلقہ ونگ نے قیدیوں کے اہل خانہ کی امداد کے لیے ایک کروڑ 80 لاکھ سوئس فرانک بھی جمع کیے تھے جن کا تعلق مختلف ممالک سے تھا۔
مذکورہ ونگ نے قیدیوں کے تبادلے کے لیے بھی کافی اہم امور انجام دیئے اور جنگ کے دوران مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 2 لاکھ قیدیوں کو آزادی دلوائی جب کہ 1914 سے 1923 کے درمیان ریڈ کراس کے مذکوہ ونگ نے قیدیوں اور لاپتہ افراد کے حوالے سے تقریباً 70 لاکھ دستاویزات بھی جمع کیں جس کی بنیاد پر ان لوگوں کی شناخت ممکن بناتے ہوئے ان کے اہل خانہ تک رابطے کی سہولت فراہم کی گئی۔
یورپ میں تقریباً 524 جیلوں کے دورے کیے۔ اس کے علاوہ ریڈ کراس کمیٹی نے پہلی جنگ عظیم میں کیمیائی ہتھیارں کے استعمال کی سختی سے مخالفت کی اور اسے منظر عام پر لایا گیا۔ 1918 میں جرمنی کے ہتھیار ڈالنے کے بعد ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کی جانب سے چار لاکھ 20 ہزار قیدیوں کو رہائی دلانے میں تعاون بھی کیا گیا۔