اسلام آباد ہائی کورٹ نے ارشد شریف کی درخواست شہادت کے باعث غیر مؤثر قرار دے دی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ارشد شریف کی درخواست شہادت کے باعث غیر مؤثر قرار دے دی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ارشد شریف کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنے کے کیس میں مقتول کی درخواست شہادت کے باعث غیر موثر قرار دے دی۔

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کیا پچیس کروڑ عوام نے انٹرویو کے الفاظ سنے تو پچیس کروڑ مقدمات درج ہوں گے، اس طرح ملک بھر میں مقدمات کا اندراج مذاق ہے، یہ اختیارات سے تجاوز ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہی کرنا تھا تو پہلے شخصی آزادی نہ دیتے، اسٹیٹ کو ایسے کام کرنے ہی نہیں چاہییں کہ لوگ اس پر ٹویٹ کریں یا بولیں، یہاں ادارے لوگوں کو اغوا کر رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، حکومت وضاحت دے ایک ایشو پر متعدد ایف آئی آر کیسے درج ہوئیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ارشد شریف سمیت سمیع ابراہیم، عمران ریاض اور معید پیرزادہ کے خلاف ملک بھر میں درج مقدمات کا ریکارڈ 14 فروری تک طلب کر لیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ارشد شریف، سمیع ابراہیم، عمران ریاض اور معید پیرزادوں کی درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ارشد شریف پر کتنے مقدمات تھے؟ بیرسٹر شعیب رزاق نے بتایا کہ آخری اطلاع کے مطابق 16 مقدمات تھے جو گوادر اور ملک کے دور دراز علاقوں میں بیٹھے شہریوں کی جانب سے درج کرائے گئے۔

اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایک اینکر یا صحافی انٹرویو دیتا ہے تو اس کی بنیاد پر بہت سے مقامات درج ہو جاتے ہیں، ایک انٹرویو یا ٹوئٹ پر اس طرح ملک بھر میں ایف آئی آرز کا اندراج مذاق ہے، لوگوں کا کام ہے درخواستیں دے کر پرچے کروائیں مگر کارروائی قانون کے مطابق ہونی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا بھی فیصلہ ہے ایک واقعہ پر ایک سے زائد ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی، کارروائی پہلی ایف آئی آر پر ہی ہوگی، یہ کام تو بھیڑ بکریوں والا ہی ہے ایسے ہی عوام کو ٹریٹ کیا جا رہا ہے، ایک ہی انٹرویو پر اتنے مقدمات کیسے درج ہوں گے؟ یہی کرنا تھا تو پہلے شخصی آزادی دینی ہی نہیں تھی، ریاست کو ایسے کام ہی نہیں کرنے چاہییں کہ اس پر لوگ کمنٹ یا ٹوئٹ کریں اور پھر اس کے ایسے نتائج نکلیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ تربت اور پسنی والے ہی صرف باخبر ہیں جنہوں نے پرچے درج کروائے، اسلام آباد والے نہیں ہیں؟ اس کا دوسرا نکتہ بھی ہے اسٹیٹ وہاں پروٹیکٹ نہیں کر سکتی، یہ کہنا بہت آسان ہے انڈیا اور اسرائیل فنڈنگ کر رہا ہے یا کوئی کسی سے پیسے لے کر یہاں بیٹھا ہوا ہے، ریاست کا کام ہے قانونی کارروائی کرے۔

’اسٹیٹ نے سپریم کورٹ میں کھڑے ہو کر اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔ اغوا پر مجرم کو 7 قید ہو جاتی ہے۔ یہاں اسٹیٹ کے ادارے لوگوں کو اغوا کر رہے ہیں مگر کوئی بات ہی نہیں ہے۔ عدلیہ پر بھی تنقید ہوتی ہے۔ عدالتوں نے اپنا کام کر کے دکھانا ہے اور یہی سب باتوں کا جواب ہے۔