حرمین شریفین سے متعلق سعودی حکومت کا اہم فیصلہ

سعودی کابینہ نے مسجد الحرام اور مسجد نبوی ﷺ مذہبی امور کی پریذیڈنسی کے نام سے دو نئے خودمختار اداروں کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔

سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی کابینہ کا اجلاس جدہ کے قصر السلام میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی زیر صدارت ہوا جس میں مسجد الحرام اور مسجد نبوی ﷺ کی مذہبی امور پریذیڈنسی کے نام سے خود مختار ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم یہ ادارہ انتظامی اعتبار سے سعودی بادشاہ کے ماتحت ہوگا۔

مسجد الحرام و مسجد نبوی امور کی نگراں جنرل اتھارٹی کی مجلس انتظامیہ ہوگی جس کے سربراہ اور ممبران کی تقرری شاہی فرمان سے ہوگی۔

حرمین شریفین میں آئمہ اور موذن کے امور کی نگرانی اور دونوں مساجد میں مذہبی امور سے متعلق تمام معاملات، اختیارات اور فرائض نئے ادارے کو منتقل ہو جائیں گے جب کہ جنرل پریذیڈنسی سے منسلک علمی اسباق اور وعظ و نصیحت کی مجالس کے انتظامات بھی نئے ادارے کے حوالے کیے گئے ہیں۔

کابینہ نے مسجد الحرام و مسجد نبویﷺ امور کی جنرل پریذیڈنسی کو مسجد الحرام و مسجد نبوی امور کی نگراں جنرل اتھارٹی میں تبدیل کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

کابینہ کے ماتحت ماہرین بورڈ کو متعلقہ اداروں کی شراکت سے یہ ذمے داری تفویض کی گئی ہے کہ وہ دونوں نئے اداروں کے لیے انتظامی ضوابط تیار کرے۔

مکہ مکرمہ و مشاعر مقدسہ رائل کمیشن، مدینہ منورہ ڈیولپمنٹ اتھرٹی، وزارت حج و عمرہ، وزارت خزانہ، وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود مسجد الحرام و مسجد نبوی امور کی نگراں جنرل اتھارٹی، مسجد الحرام و مسجد نبوی مذہبی امور کی پریذیڈنسی اور ضیوف الرحمن سروس پروگرام کمیٹی کے نمائندوں پر مشتمل تکنیکی کمیٹی تشکیل دی جائے اور اس کی صدارت مسجد الحرام و مسجد نبوی امور کی نگراں جنرل اتھارٹی کے چیئرمین کریں۔

کمیٹی مالیاتی وعہدہ جاتی مسائل حل کرنے کے لیے ضروری طریقہ کار تجویز کرے گی۔ اسامیوں، ملازمین، اثاثہ جات اور حرمین شریفین کی جنرل پریذیڈنسی کے بجٹ میں درج مالیاتی منظوریوں سے متعلق ضروری ضوابط طے کرے گی۔ مسجد الحرام و مسجد نبوی امور کی نگراں جنرل اتھارٹی نئی ضابطہ سازی کی تکمیل تک وہ تمام فرائض انجام دے گی جو حرمین شریفین جنرل پریذیڈنسی کے دائرہ اختیار میں آتے تھے۔

مسجد الحرام و مسجد نبوی امور کی نگراں جنرل اتھارٹی کے چیئرمین کو اتھارٹی کی تشکیل مکمل ہونے تک حرمین شریفین انتطامیہ کے اختیارات حاصل ہوں گے تاہم سربراہ کو مالیاتی و انتظامی ضوابط اور پالیسیوں کی منظ؍وری کا اختیار نہیں ہوگا۔