بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ نفرت انگیز برتاؤ کوئی نئی بات نہیں، آئے دن انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں گئو ماتا کے نام پر مسلمانوں کے قتل عام اور ہتک آمیز برتاؤ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
نریندر مودی کی بی جے پی حکومت کے بعد اس قسم کے واقعات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور اب بات ملسمانوں کو ان کی جائیدادوں سے بے دخل کرنے تک آپہنچی ہے۔
بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ضلع پونے کے ایک گاؤں میں ایک شخص کو اپنا مکان تعمیر کرنے سے محض اس لیے روک دیا گیا کہ اس کا تعلق مذہب اسلام سے ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق امبے گاؤں سے تعلق رکھنے والے 73 سالہ قاسم ملا نامی شخص نے 10 سال قبل 4 ہزار اسکوائر فٹ کا ایک پلاٹ خریدا تھا۔ اس نے ابتدائی طور پر اپریل میں 10×10 فٹ کا ایک ڈھانچہ تعمیر کیا تھا اور جون میں اس کی رجسٹریشن کے لیے درخواست دی تھی۔
قاسم ملا کے 31 سالہ بیٹے جاوید نے میڈیا کو بتایا کہ ہم نے رجسٹریشن اور بجلی پانی کے کنکشن کیلئے مطلوبہ دستاویزات متعلقہ پنچایت کو حوالے کردیے تھے، تاہم رجسٹریشن کے لیے دی گئی درخواست کو مسترد کردیا گیا۔
درخواست گزار نے بتایا کہ ڈپٹی سرپنچ نے درخواست کے پہلے صفحہ پر لکھا کہ ”رجسٹریشن نہیں دی جاسکتی کیوں کہ درخواست گزار کا تعلق مذہب اسلام سے ہے“۔
اس فیصلہ کے بارے میں دریافت کرنے پر ڈپٹی سرپنچ نے میڈیا کو بتایا کہ گاؤں کا کوئی شخص یہاں ”کوئی مسلم“ نہیں چاہتا۔ اس نے کہا کہ ہمارے گاؤں میں کبھی کوئی مسلمان نہیں تھا اور نہ ہی ہم کوئی مسلمان چاہتے ہیں۔ ہم نے رجسٹریشن کی منظوری نہیں دی، کیوں کہ ہم کسی قسم کا تنازعہ نہیں چاہتے۔
اس نے کہا کہ یہ گاؤں کا اجتماعی فیصلہ ہے اور ہم نے ایک قرارداد بھی منظور کی ہے کہ ہم اپنے گاؤں میں کوئی مسلمان نہیں چاہتے، ہم انہیں پنچایت کی خدمات بھی حاصل کرنے نہیں دیں گے۔ میں ان سے کہوں گا کہ وہ پلاٹ بیچ دیں اور کسی دوسرے مقام پر منتقل ہوجائیں۔
ڈپٹی سرپنچ کا مزید کہنا تھا کہ اگر انہوں نے ہماری بات نہ مانی تو مستقبل میں گاؤں والوں کے ساتھ تنازعات کی تمام تر ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوگی۔