انڈونیشیا میں نوجوانوں کیلیے روزگار کا حصول چیلنج بن گیا

انڈونیشیا میں شہریوں کے لیے روزگار کا حصول چیلنج بن گیا ہے اور 16 فیصد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار ہیں۔

دنیا بھر میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم انڈونیشیا میں روزگار کا حصول وہاں کے شہریوں بالخصوص نوجوان طبقہ کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف بن چکا ہے اور 16 فیصد اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ روزگار سے محروم ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے نے انڈونیشیا کے سرکاری اعداد وشمار کو رپورٹ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انڈونیشیا میں 44 ملین نوجوانوں میں سے 16 فیصد بے روزگار ہیں اور ان کے لیے روزگار کا حصول بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ ان میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں، جنہوں نے اچھے روزگار اور ملازمت کا خواب سجا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کی لیکن اب دکانیں چلا رہے ہیں۔

الجزیرہ نے رپورٹ کیا ہے کہ انڈونیشیا میں 56 فیصد سے زائد ورک فورس غیر رسمی شعبے میں کام کر رہی ہے اور اکثر نوجوان موزوں ملازمت کی تلاش میں وقت گزار دیتے ہیں۔

ایسے ہی موزوں روزگار کی تلاش میں ناکامی کے بعد دکان چلانے والا یہ نوجوان آندریس ہوٹاپیا ہے۔ اس نے دو سال قبل قانون کی ڈگری حاصل کی، لیکن قابلیت کے مطابق جاب حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

جس کے بعد یہ نوجوان مایوس ہو کر اپنے آبائی علاقے چلا گیا اور وہاں وہ والدین کے ہمراہ گروسری فروخت کرنے والی ایک سادہ دکان چلاتا ہے۔

دوسری جانب انڈونیشیا کے صدر پرابو سبینٹو نے ملک میں ملازمت کے مواقع کی کمی کا اعتراف کیا ہے اور بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے ٹاسک فورسز قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ سے تجارت پر کامیاب معاہدہ اور محصولات کی شرح 32 سے 19 فیصد کم ہونے پر معاشی حالات میں بہتری کا امکان ظاہر کیا ہے۔