انگمار برگمین: فلم کی دنیا کا ایک ناقابلِ فراموش نام

ingmar film award

انگمار برگمین نے عالمی سنیما کو شاہکار فلمیں دیں اور فلم بینوں‌ کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے فن و کمال کی بدولت فلم سازی کے شعبہ میں مثالی اور قابلِ تقلید ٹھیرے۔ عالمی سنیما کی اس معتبر شخصیت نے 30 جولائی 2007ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

برگمین کی شاہکار تخلیق میں ’کرائم اینڈ وسپرز‘، ’دی سیونتھ سیل‘ اور ’وائلڈ سٹرابری‘ شامل ہیں جنھیں فلمی دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ ان فلموں کے علاوہ کئی بہترین دستاویزی فلمیں‌ اس ہدایت کار کے فن و کمال کا ثبوت ہیں۔

سنیما سے پہلے انگمار برگمین نے اسٹیج اور ریڈیو کی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کو نکھارا اور فنی مہارت کو منوایا۔ ان کی فلموں کا موضوع عام حالات، ازدواجی زندگی کے مسائل اور مذہبی فکر پس منظر رہا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سنیما اور جدید دنیا سے تعلق جوڑنے والے انگمار برگمین نے ایک قدامت پسند اور شاہی دربار سے وابستہ پادری کے گھر میں‌ آنکھ کھولی تھی اور وہ ایسے ماحول کے پروردہ تھے جس میں مذہبی تعلیمات اور روایات کو مقدم رکھا جاتا تھا۔

14 جولائی 1918 کو سویڈن کے ایک شہر میں پیدا ہونے والے برگمین کے والد ایک سخت مزاج شخص تھے۔ والدہ پیشے کے اعتبار سے نرس تھیں۔ انگمار نے اپنے انٹرویوز میں بتایا تھا کہ ان کے والد کے غصّے سے سبھی ڈرتے تھے، ان کی حکم عدولی تو درکنار، ان کے کسی اصول کو توڑنا یا مزاج کے خلاف کچھ کرنے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا، لیکن برگمین نے اس ماحول میں پروان چڑھنے کے باوجود الگ ہی راستہ چنا۔ وہ اپنی خود نوشت The Magic Lantern میں لکھتے ہیں: چرچ میں اُن (والد) کی مصروفیت کے دوران ہی گھر میں کچھ گایا اور سنا جاسکتا تھا۔

برگمین فلم کی دنیا سے وابستہ ہوئے تو اسی سخت گیر مذہبی سوچ اور روایتی فکر کے حامل افراد، ان کی ازدواجی زندگی کے نشیب و فراز، تضاد اور انسانوں کی محرومیوں کو بڑے پردے پر پیش کیا۔ یہاں Winter Light کا ذکر ضروری ہے، جو 1962 میں سنیما پر پیش کی گئی۔ اس کا اسکرپٹ ہی نہیں ڈائریکشن بھی انگمار برگمین کی تھی۔ یہ دیہی علاقے کے ایک گرجا اور پادری کی کہانی ہے، جسے مذہب سے متعلق سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برگمین بھی نوعمری میں‌ من مانی مذہبی تشریح پر سوال اٹھانے لگے تھے۔ 1937 میں انھوں نے اسٹاک ہوم یونیورسٹی میں آرٹ اور لٹریچر کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا اور یہاں تھیٹر اور فلم ان کا محبوب موضوع رہا جس نے ان کے ذہن کو مزید سوچنے، کھوجنے اور سوالات قائم کرنے پر اکسایا۔ یہیں انگمار برگمین اسٹیج ڈراموں کے اسکرپٹ لکھنے لگے۔ 1942 انھیں تھیٹر اور بعد ازاں اسسٹنٹ فلم ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے اگلے برس، یعنی 1943 انھوں نے ایلس میری فشر سے شادی کی جو چند برس ہی چل سکی۔ 1946 میں ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی تھی۔ برگمین نے پانچ شادیاں کیں جن میں‌ سے چار ناکام رہیں۔

1944 میں برگمین کا پہلا اسکرین پلے Torment سامنے آیا تھا۔ یہ انسان کے جنون اور ایک قتل کی کہانی تھی، جسے بعد میں امریکا اور لندن میں بھی مختلف ٹائٹل کے ساتھ پیش کیا گیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ انھوں‌ نے درجنوں فلموں کے اسکرپٹ تحریر کرنے کے ساتھ ہدایت کاری بھی کی۔ 1955 میں Smiles of a Summer Night سامنے آئے جس کے وہ ہدایت کار تھے۔ یہ کامیڈی فلم کانز کے میلے تک پہنچی تھی۔ اس کے فوراً بعد سیونتھ سیل نے برگمین کو خصوصی انعام دلوایا اور ایک مرتبہ پھر وہ کانز کے میلے تک پہنچے۔

1960 کی ابتدا میں برگمین نے مذہب کو اپنی فلموں کا موضوع بنانا شروع کیا۔ اس ضمن میں تین فلموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جن کے ہدایت کار برگمین ہی تھے۔ یہ فلمیں خدا، انسان کے کسی نادیدہ ہستی پر یقین اور اس حوالے سے شکوک و شبہات پر مبنی تھیں۔

1976 میں انگمار برگمین نے بدسلوکی کے ایک واقعہ پر بددل ہوکر سوئیڈن چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ انھیں ٹیکس فراڈ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جو بعد میں‌ جھوٹا ثابت ہوا۔ اس پر متعلقہ اداروں نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے انگمار برگمین سے معافی بھی مانگی تھی۔ لیکن برگمین اس پر نہایت دل برداشتہ تھے اور اپنا اسٹوڈیو بند کرکے ملک چھوڑ‌ دیا۔ وہ امریکا میں مختلف پروڈکشن ہاؤسز کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 1982 میں وہ فلم Fanny and Alexander کی ہدایت کاری کے لیے سوئیڈن گئے اور پھر ان کا آنا جانا لگا ہی رہا۔ اس فلم کو بہترین غیرملکی فلم کے زمرے میں آسکر بھی دیا گیا تھا۔ برگمین انفرادی طور پر نو مرتبہ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کیے گئے۔ ان کی فلموں کو تین اکیڈمی ایوارڈ ملے۔

1970ء برگمین کو آسکر ایوارڈ اور 1997ء میں کانز کے فلمی میلے میں ’پام آف دا پامز‘ ایوارڈ دیا گیا تھا۔ برٹش اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن آرٹس، بافٹا ایوارڈ اور گولڈن گلوب ایوارڈ بھی انگمار برگمین کے حصّے میں‌ آئے۔