یروشلم (02 اگست 2025): اسرائیل نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے اپنا سفارتی عملہ واپس بلا لیا ہے۔
اسرائیلی میڈیا نے جمعرات کو رپورٹ کیا کہ اسرائیل نے متحدہ عرب امارات سے اپنے متعدد سفارتی عملے کو واپس آنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں، یہ احکامات اسرائیلی نیشنل سیکیورٹی کونسل کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں۔
این ایس سی کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں یہودی اور اسرائیلی افراد کو نشانہ بنانے کی ممکنہ کوششیں کی جا سکتی ہیں۔
روئٹرز کے مطابق یو اے ای 30 سالوں میں امریکا کی ثالثی کے معاہدے (جسے ابراہیمی معاہدہ کا نام دیا گیا ہے) کے تحت اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کرنے والی سب سے نمایاں عرب ریاست بن گئی ہے، جس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات میں اسرائیلی اور یہودی کمیونٹی 2020 کے بعد سے زیادہ نمایاں ہو گئی ہے۔
اسرائیل نے اپنے شہریوں کے لیے اس سفری وارننگ کی وجہ ایرانی، حماس، حزب اللہ اور عالمی جہاد کی تنظیموں کی جانب سے ممکنہ حملوں کا خطرہ قرار دیا ہے، جب کہ اسرائیلی فوج غزہ میں 60 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو بمباری میں مارنے کے بعد اب غزہ کے رہائشیوں کو بھوک سے مار رہی ہے، جس پر عالمی سطح پر اٹھنے والی آوازیں غصے میں بدلنے لگی ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی ہونے والی ہے؟ اسرائیلی آرمی چیف کا اہم بیان
یاد رہے کہ مارچ میں متحدہ عرب امارات نے 3 افراد کو ایک اسرائیلی ربی کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی، جسے نومبر میں قتل کیا گیا تھا۔ یو اے ای میں اس طرح کے جرائم شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں، کیوں یہ مشرق وسطیٰ کا محفوظ ترین ملک ہے۔
خیال رہے کہ غزہ میں اسرائیل کی دہشت گردی جاری ہے، گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 106 فلسطینی شہید اور 270 زخمی ہو گئے ہیں، صہیونی فوج نے امداد کے لیے جمع 38 فلسطینیوں کو بھی شہید کیا، غزہ میں غذائی قلت کا شکار 2 بچوں سمیت مزید 3 فلسطینی دم توڑ گئے ہیں، جس سے بھوک و افلاس کے سبب اموات کی مجموعی تعداد 162 ہو گئی، جن میں 92 بچے بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کا کہنا ہے غزہ میں امداد کی تقسیم کا نظام اب فلسطینیوں کے خلاف قتل عام کے آلے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔