کل میں سڑک پر جا رہا ہوں تو کیا پولیس مجھے بھی اٹھا لے گی؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

اس سال اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں نے ریکارڈ کیسز نمٹائے، جسٹس عامر فاروق

اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا ہے کہ کل اگر میں سڑک پر جا رہا ہوں تو کیا پولیس مجھے بھی اٹھا کر لے جائے گی؟

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے مذکورہ ریماکس پی ٹی آئی سیکرٹریٹ پر چھاپے اور گرفتاریوں کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران دیے۔ سماعت پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل، ڈائریکٹر ایف آئی اے اور پی ٹی آئی وکیل علی بخاری موجود تھے۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ نے لوگوں کو اٹھا کر 10 گھنٹے بعد چھوڑ دیا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مقدمے میں نامعلوم لوگ بھی تھے اس لیے دیگر لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کس قانون کے تحت اس طرح کسی شخص کو گرفتار کر سکتے ہیں؟ کیا آپ کسی ثبوت کے بغیر کسی بھی شخص کو گرفتار کر سکتے ہیں؟ پی ٹی آئی سیکرٹریٹ میں بیٹھے تمام لوگوں کو گرفتار کیا جانا لازم تھا؟

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورت نے استفسار کیا کہ کیا اُس دفتر میں موجود ہونا کوئی جرم ہے؟ اگر علی بخاری ایڈووکیٹ وہاں موجود ہوتے تو انہیں بھی گرفتار کر لیا جاتا؟ اس پر پی ٹی آئی وکیل علی بخاری نے بتایا کہ پارٹی سیکرٹریٹ سے واٹر ڈسپنسر بھی اٹھا کر لے گئے۔ اس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا پانی پینا تھا؟

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 32 لوگوں کو وہاں سے اٹھا لیا گیا، کیا آپ کو وہ سب مطلوب تھے؟ آپ نے کسی کو گرفتار کرنا ہے تو شک کی بنیاد پر گرفتار کرنا ہے، آپ نے صرف وہاں موجودگی کی بنیاد پر گرفتار کر لیا؟ یہ تو اس کی بدقسمتی ہے، سیکرٹریٹ کے باہر کوئی شخص کسی کا انتظار کر رہا ہوتا تو اسے بھی گرفتار کر لیتے؟ کیا تمام 32 لوگوں کی گرفتاری ڈالی گئی تھی؟ اِدھر اُدھر کی بات نہ کریں، سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے، بلڈپریشر کیوں ہائی کر رہے ہیں؟ اگر گرفتاری نہیں ڈالی تو 32 لوگوں کو 10 گھنٹے کیسے وہاں رکھا؟ آپ نے 10 گھنٹے کیلیے اُنہیں وہاں کیسے رکھا یہ اغوا نہیں ہے؟ میں اپنی عدالت کے دروازے بند کر دوں اور کسی آرڈر کے بغیر آپ کو باہر نہ جانے دوں تو یہ اغوا نہیں ہے؟

انہوں نے مزید استفسار کیا کہ اٹھائے گئے تمام لوگوں کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا؟ اگر غیر قانونی حراست میں رکھا گیا تو پھر اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ کل میں سڑک پر جا رہا ہوں تو پولیس مجھے بھی اٹھا کر لے جائے گی؟

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حبس بے جا کی درخواست غیر مؤثر ہوگئی اسے نمٹا دی جائے۔ جسٹس عامر فاروق نے ریماکس دیے کہ نہیں، یہ درخواست ابھی غیر مؤثر نہیں ہوئی، کیا گرفتار کیے گئے تمام لوگوں کی گرفتاری ڈالی گئی؟ 10 گھنٹے تک لوگوں کو وہاں کیسے رکھا گیا؟ میرے خیال سے کسی کو 10 گھنٹے حراست میں رکھ کر مقدمہ درج نہ کرنا غلط ہے، 32 میں سے 10، 12 لوگوں کی گرفتاری ڈالی گئی، باقیوں کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا، گرفتاری تفتیشی افسر کی خواہش پر نہیں کی جا سکتی، کوئی وجہ ہونی چاہیے۔

پی ٹی آئی وکیل علی بخاری نے عدالت کو بتایا کہ تمام لوگوں کے موبائل فون بھی واپس نہیں کیے گئے۔ اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ کیا اِن لوگوں کے موبائل فون ایف آئی اے کے پاس ہیں؟

عدالت میں موجود ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائمز نے بتایا کہ 10 لوگوں کے موبائل ہمارے پاس ہیں واپس کر دیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جن لوگوں کو گرفتار نہیں کیا گیا ان کے موبائل فون کس قانون کے تحت رکھ لیے گئے؟ ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ٹیکنیکل انالیسز کرنا تھا اس لیے موبائل فون رکھ لیے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریماکس دیے کہ جس بندے کو گرفتار نہیں کیا گیا ان کا موبائل کیسے رکھ لیا گیا؟ کوئی قانون قاعدہ دیکھا کریں، اسی مواد کے اوپر ٹرائلز چلتے ہیں، آپ بڑا آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو پکڑتے ہیں لیکن عدالتیں چھوڑ دیتی ہیں، آپ نے کسی کی چیز اپنے پاس رکھ لی کوئی پتا نہیں کس قانون کے تحت رکھی۔

’کیا ایف آئی اے کے پاس کوئی وکیل ہے، مشورہ کرتے ہیں، مشورہ لیا تھا؟ اگر وکیل نے مشورہ دیا ہو تو میں اس کا لائسنس تو منسوخ کروں نا۔ آپ کو پتا ہے کسی کی پراپرٹی اپنے پاس رکھ لینا چوری ہے؟ جن لوگوں کی جو چیزیں ہیں اُن کو واپس کریں۔‘

چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ایف آئی اے حکام سے مکالمے میں کہا کہ کوئی قاعدہ قانون دیکھیں، کیا آپ کو قانون کا پتا نہیں ہے؟ اب معاملہ میرے سامنے آ گیا تو اِس پر کچھ آرڈر تو لکھوں گا نا، پولیس اور ایف آئی اے کی تعریف تو کرنے سے رہا کہ انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے، اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ پولیس اسٹیٹ بن گئی ہے جو دل چاہتا ہے کر لیتے ہیں، پولیس اسٹیٹ یہی ہوتی ہے نا کہ کوئی کام قانون قاعدے کے تحت نہ کریں، کیا میں لکھوا دوں کہ چوری کا مقدمہ درج کروا دیا جائے؟ جو عدالتی فیصلوں کے حوالے دینے ہیں دے دیں میں آرڈر لکھوں گا۔

عدالت نے کہا کہ اس کیس میں مناسب حکم نامہ جاری کیا جائے گا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔