پیمرا ٹی وی چینلوں کو کچھ نشر کرنے سے کیسے روک سکتا ہے؟ جسٹس فائز عیسیٰ کے ریمارکس

چیف جسٹس گاڑیاں نیلام

اسلام آباد : جسٹس فائز عیسیٰ نے ججوں کے کنڈکٹ سے متعلق خبر نشر نہ کرنے کے پیمرا خط پر تنقید کرتے ہوئے ریمارکس دیئے پیمرا ٹی وی چینلوں کو کچھ نشر کرنے سےکیسے روک سکتا ہے؟

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں میڈیکل طلبا کو حافظ قرآن ہونے پر اضافی 20 نمبر دینے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے اسپیشل بینچ بنانے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے اسپیشل بینچ میں کیس سننےسےانکارکردیا۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ رولزمیں کہاں درج ہےکہ اسپیشل بینچ بنایاجاسکتاہے؟ سپریم کورٹ کاریگولر بینچ کیسز کیوں نہیں سن سکتا؟ اتنا بھی کیا ضروری معاملہ تھاکہ لارجربینچ یا فل کورٹ کے بجائے خصوصی بینچ بنایا جائے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب کیااسپیشل بینچ بنائےجانےچاہئیں؟ ہاں یا نامیں جواب دیں، جس پر اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے کہا کہ اگر عدالت اس معاملے پر نوٹس کرے گی تو جواب دے دوں گا۔

وکیل پی ایم ڈی سی نے بتایا کہ روایت پربھی عمل ہوتاہے،ضروری نہیں کہ ہر چیز رولز یا آئین میں درج ہو،جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سوال کیا کیامارشل لاء لگ جائےتواس کوبھی روایتی عمل سمجھ کر قبول کر لیں گے ؟ جو آئین وقانون میں درج ہو اسی پر عمل کرنا ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ کے جج نے کہا تین ججزکوتین مختلف ججزسےاکٹھا کر کےاس بینچ میں بٹھادیاہے، یا توکچھ اتنا اہم ہوتا کہ چھٹی کے دن عدالت لگتی اورخصوصی بینچ بنایاجاتا ، میڈیکل طلباکوحافظ قرآن ہونےپر20اضافی نمبردینےکاحکم 14ماہ پراناہے، 20 اضافی نمبرحافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر دینےہیں توپارلیمان سےقانون سازی کرائیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کیا پارلیمان کا احتساب نہیں ہوتا؟ کیا ججز قابل احتساب نہیں؟میرے علم کے مطابق ججز کا کوئی احتساب نہیں ہوتا،چیف جسٹس قتل کےایک ملزم کا کیس کل فکس کر دیں،ویسا ہی دوسرا کیس مقرر نہ کریں توکیا ہو گا؟ ججز پرغیر ضروری الزامات لگنے نہیں چاہئیں۔

دوران سماعت جسٹس فائز عیسی کی ججز کے کنڈکٹ سے متعلق خبر نشر نہ کرنے کے پیمرا خط پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں پیمرا نے ججز سے متعلق کوئی لیٹر ایشو کیا ہے، پاکستان میں سب آزاد ہیں جس کے دل میں جو آتا ہے وہ کرتا ہے۔

سپریم کورٹ کے جج نے سوال کیا کوئی میڈیا کی آزادی کیسے دبا سکتا ہے؟ تاثر یہ جاتا ہے کہ شاید عدالت نے لوگوں کا گلا گھونٹ دیا ہے، پیمرا نے اپنے خط میں سیٹلائٹ چینلز کو ججز کے کنڈکٹ اور ریاستی اداروں پر خبر چلانے سے روکا ہے۔

انھوں نے مزید استفسار کیا یہ ریاستی ادارے کیا ہوتے ہیں؟سپریم کورٹ ریاستی ادارہ نہیں آئینی ریگولیٹری باڈی ہے، پیمرا نے تو سپریم کورٹ کے اسٹیٹس میں ترقی کر دی۔

جسٹس فائز عیسی نے سوال کیا کیا پیمرا نے عدلیہ کا بیڑا اٹھا رکھا ہے؟ پیمرا ٹی وی چینلز کو کچھ نشر کرنے سے کیسے روک سکتا ہے؟سول جج کو گالیاں دے دی جائیں پیمرا نہیں بولتا، کیا ماتحت عدلیہ کے ججز کم تر مخلوق ہیں؟ اگر میں اٹارنی جنرل کو کچھ دے ماروں اور کورٹ رپورٹرز خبر دے دیں تو ان کا چینل بند ہو جائے گا؟

جج کا کہنا تھا کہ پیمرا چینلز پر پابندی لگا کر ٹی وی انڈسٹری تباہ کر رہا ہے، یمرا انہی ٹی وی چینلز کے لائسنسوں پر کماتا ہے،جب ٹی وی خبریں نہیں چلا سکے گا تو لوگ سوشل میڈیا ہی دیکھیں گے۔

جسٹس فائز عیسی نے مزید ریمارکس دیئے پیمرا کا یہ خط شرعی عدالت میں جائے تو اسلام کے منافی ہونے پر بھی معطل ہو جائے، اگر کوئی جھوٹی خبر دے تو اس کے خلاف پیمرا کارروائی کرے، پیمرا کیوں سیشن،سول ججز یا مجسٹریٹ کے خلاف بولنے پر ایکشن نہیں لیتا؟

پچھلے سال جنوری میں یہ کیس لگانے کو کہا اور رجسٹرار صاحب نے مقرر کرنے کی زحمت ہی نہیں کی، کیا سپریم کورٹ کے جج بن جاو تو کوئی آپ کو پوچھ نہیں سکتا؟ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عدلیہ کا نمبر 140 کے قریب ہے۔