کراچی والوں کے پاس سڑکیں اور پانی تو پہلے ہی نہ تھا، اب وہ جائیدادوں سے بھی محروم ہونے لگے ہیں۔ پی ای سی ایچ ایس میں اربوں مالیت کی جائیدادیں سرکاری افسران کی ملی بھگت اور جعل سازی سے مالکان سے ہتھیا لی گئیں۔
کراچی کے شہری پہلے پانی بجلی سڑکوں سے محروم تھے، اب اصل وارثوں کی جائیدادوں پر ڈاکا بھی ڈالا جا رہا ہے، وہ بھی قلم اور جعلی دستاویزات کے زور پر-
کراچی کے مہنگے ترین علاقے پی ای سی ایچ ایس کے رہائشیوں سے جائیدادیں چھیننے والے کوئی اور نہیں بلکہ سب رجسٹرار آفس جمشید ٹاؤن کے سرکاری افسران ہیں، جن کی ملی بھگت سے 28 جائیدادوں کے ریکارڈ میں ہیر پھیر کی گئی۔
جائدادوں کی جعل سازی میں جمشید ٹاؤن رجسٹرڈ آفس کے ساتھ ساتھ مرکزی ریوینیو آفس بھی شامل ہے، جہاں حقیقی مالکان کی ابتدائی رجسٹری کو آن لائن ڈیٹا بیس میں جعلی اور غلط جنرل پاور آف اٹارنیز کی کاپیوں سے بدل دیا گیا۔ بورڈ آف ریونیو کے پیشکار منور دھاریجو نے اپنے سگے بھائیوں کے نام 8 دستاویزات رجسٹرڈ کرائیں، پاکستان میں اراضی کے نام پر جعل سازی اب معمول کا حصہ بن گئی ہیں۔
پاکستانی زرعی ماہر کا بڑا کارنامہ، 50 ڈگری تک گرمی برداشت کرنے والی کپاس کی نئی قسم تیار کر لی
ڈسٹرکٹ رجسٹرار کراچی کی سربراہی میں تشکیل دی گئی 4 رکنی انکوائری کمیٹی نے متعلقہ افسران کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے جعلسازی میں ملوث 8 اہلکاروں کو ملازمت سے برطرفی کی سفارش کر دی ہے۔ وزیر اعلیٰ کی انسپکشن ٹیم نے بھی اس معاملے پر الگ سے انکوائری شروع کر دی ہے۔ عدالت نے بھی جعل سازی میں ملوث تمام افسران کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔