اردو فکشن کا نام بلند کرنے والوں میں کشمیری لال ذاکر کا نام نمایاں ہے جن کے ناولوں اور افسانوں میں اعلٰی انسانی اقدار اور زندگی کے صحت مند عناصر پوری توانائی کے ساتھ موجود ہیں۔ ذاکرنے شاعری بھی کی ہے لیکن ان کے ناول اور افسانے اردو ادب کے لئے ایک بیش بہا دین ہیں اور سرمایہ افتخار۔
کشمیری لال کا بچپن کشمیر کی رنگین اور تازگی بخش فضاؤں میں کھیلا اور تخلیقی ادب کی طرف مائل ہوا تھا۔ شاید اسی لیے ایک دل کشی، حسن افروزی اور فرحت بخش چاندنی اُن کی ادبی کاوشوں میں بھی اٹھکیلیاں لیتی ہے۔ وہ 31 اگست 2016ء میں چل بسے تھے اور اسی مناسبت سے ہم اج ان کا تذکرہ کر رہے ہیں۔
کشمیری لال ذاکر نے جہاں ایک آزمودہ کار ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے معاشرے کی اصلاح و بہبود میں ہاتھ بٹایا، وہیں ہندوستان میں اپنی مسلسل لگن اور ریاضت سے اردو فکشن کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنا خونِ جگر جلاتے رہے۔ ان کی تصانیف اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ ادب برائے زندگی اور ادب برائے مقصدیت پر ایمان رکھنے کے باوجود ذاکر نے نہ تو ترقی پسند تحریک کی انتہا پسندانہ روش اور نعرہ بازی کا ساتھ دیا اور نہ جدیدیت اور اشاریت جیسی کسی نام نہاد تحریک کا دُم چھلّا بن کر اپنے فن کی سچائی اور کھرے پن کو مجروح کیا۔
کشمیری لال ذاکر ۱۷ اپریل ۱۹۱۹ میں ضلع بیگا بنیان، گجرات میں پیدا ہوئے۔ ایم اے انگریزی کیا اور تاحیات محکمۂ تعلیم سے منسلک رہے۔ پرنس آف ویلز کالج جموں میں طالب علم تھے تو خود بھی کالج کے ادبی میگزین کے مدیر رہے۔ تعلیم کے شعبہ کے ساتھ ہریانہ اردو اکادمی کے لیے بھی خدمات سر انجام دیں۔ ابتدائی تعلیم ریاست پونچھ اور سری نگر کے اسکولوں میں حاصل کی تھی۔ ذاکر صاحب نے اپنے ادبی سفر کا آغاز تو شاعری سے کیا تھا لیکن پھر فکشن کی طرف آگئے۔ وہ ان ادیبوں میں سے تھے، جو تقسیم کے بعد ملک بھر میں بھڑک اٹھنے والے فسادات اور کشمیر کی الم ناک صورت حال پر بہت رنجیدہ تھے اور بہت سے واقعات نے انھیں کرب و اذیت میں گرفتار کیا جن پر ان کی کہانیاں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ان کی کتابیں ’جب کشمیر جل رہا تھا‘ ’انگھوٹھے کا نشان‘ ’اداس شام کے آخری لمحے‘ ’خون پھر خون ہے‘ ’ایک لڑکی بھٹکی ہوئی‘ وغیرہ اسی تخلیقی کرب کا اظہار ہیں۔ کشمیری لال ذاکر کی مختلف اصناف پر مشتمل سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ کشمیری لال ذاکر نے سیندور کی راکھ کے نام سے ناول لکھ کر ناول نگاری کا آغاز کیا۔ ذاکر کو کئی اہم ترین اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
۱۹۴۱ میں ان کی غزل لاہور کے ادبی جریدے "ادبی دینا” میں چھپی تھی جس کے بعد یہ سلسلہ فکشن تک پھیل گیا۔ انھوں نے ۲۹ ناول لکھے۔ ان کی چند دیگر تصانیف میں "میری شناخت تم ہو” ، "آدھے چاند کی رات” ، ہارے ہوئے لشکر کا آخری سپاہی”، اس صدی کا آخری گرہن”، بنا چھت گھر” اور ” خوابوں کے قافلے” شامل ہیں۔