گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
جدید اردو اور ہندکو شاعری اور اردو نثر کے منفرد تخلیق کار خاطر غزنوی کا یہ مشہور شعر آپ نے بھی سنا اور پڑھا ہو گا۔ آج خاطر غزنوی کی برسی ہے۔ 7 جولائی 2008ء کو وفات پانے والے خاطر غزنوی پشاور میں آسودۂ خاک ہیں۔
خوب صورت شاعری اور تحقیقی و تخلیقی نثر پر مشتمل متعدد کتابوں کے مصنّف خاطر غزنوی کا اصل نام محمد ابراہیم بیگ تھا۔ وہ 5 نومبر 1925ء کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ خاطر غزنوی نے اردو کے ساتھ ہندکو زبان میں شاعری کے علاوہ بہت سا علمی و تحقیقی کام بھی کیا۔ ان کی عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان، پشاور سے ہوا تھا۔ بعدازاں اردو میں ایم اے کی سند کیا اور پشتو کے ساتھ چینی زبان میں اسناد حاصل کیں۔ ادبی سرگرمیوں اور تخلیقی کاموں کے ساتھ تدریس کا پیشے اختیار کیا اور پشاور یونیورسٹی میں چینی زبان پڑھانے لگے۔ خاطر غزنوی چند اخباروں اور رسالوں کے ایڈیٹر بھی رہے۔ وہ ایک قابل اور منفرد تخلیق کار تھے جنھیں تمغائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔ 1984 میں خاطر غزنوی اکادمی ادبیات پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل مقرر کیے گئے۔ ان کی ادبی سرگرمیوں کے ساتھ تخلیقی سفر کی بات کی جائے تو شعری مجموعوں میں روپ رنگ، خواب در خواب، شام کی چھتری اور نثری کتب میں زندگی کے لیے، پھول اور پتھر، چٹانیں اور رومان، خوش حال نامہ، چین نامہ، اصناف ادب، ایک کمرہ شامل ہیں۔ خاطر غزنوی کو ڈرامہ نگار اور ماہر لسانیات کی حیثیت سے بھی پہچان ملی۔
خاطر غزنوی کی شاعری کے ساتھ شخصی خاکے بھی یادگار ہیں۔ اس صنف میں اپنی صلاحیتوں کو منواتے ہوئے انھوں نے خاص طور پر صوبۂ سرحد (خیبرپختون خوا) سے تعلق رکھنے والے شعرا اور ادیبوں کے شاہکار خاکے لکھے۔ ان شخصیات میں سیّد ضیاء جعفری، قتیل شفائی، فارغ بخاری، رضا ہمدانی، غنی خان، مرتضیٰ جعفری شامل ہیں۔ خاطرؔ غزنوی کا مطالعہ اور مشاہدہ گہرا اور وسیع تھا اور وہ مردم شناس بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تحریر کردہ خاکے ان کے ہم عصروں کی جیتی جاگتی تصویر معلوم ہوتے ہیں۔
بحیثیت شاعر خاطر غزنوی کی غزلیں اور نظمیں جدید طرز احساس کی نمائندگی کرتی ہیں۔ خاطر غزنوی نے غم جاناں اور غم دوراں کو خوبصورتی سے اپنے اشعار میں سمویا ہے۔ ان کا کلام سادہ اور احساسات کا نمونہ ہے۔
ان کا ایک شعر ہے:
قطرے کی جرأتوں نے صدف سے لیا خراج
دریا سمندروں میں ملے اور مر گئے