دنیا کی تاریخ میں قلوپطرہ کو ایک حسین و جمیل ملکہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس نے اپنی ذہانت اور سیاسی سوجھ بوجھ سے سلطنتِ روم کے نام ور جرنیلوں کو شکست دی۔ کہتے ہیں کہ وہ بالطّبع سیاست داں تھی جس کا جہاں گیری اور جہاں کشائی کا جذبہ بعض اوقات جنون کی حد کو پہنچ جاتا تھا۔ مگر وہ ہوش مندی سے کام لیتی اور اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس کی اولوالعزمی مشہور تھی۔
شہرۂ آفاق قلوپطرہ ایک ایسا نام ہے جس سے کئی قصّے اور کہانیاں منسوب ہیں۔ اسے حسن و عشق کی داستانوں کا موضوع بنایا گیا اور اپنے عہد کی ایک نہایت بااثر اور مضبوط عورت کے طور پر پیش کیا گیا۔ مؤرخین نے قلوپطرہ کی آواز کو بہت دل نشیں بتایا ہے جس کی تقریر دلوں پر اثر کرتی تھی۔ کچھ نے اسے بد دماغ اور ایک بدکار عورت بھی لکھا ہے جو اپنے مفاد کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی تھی۔ اس تاریخی شخصیت کے بارے میں اس قدر تواتر سے اور بے جا لکھا گیا ہے کہ اس سے متعلق دست یاب حقائق بھی مشکوک ہوگئے ہیں۔ یہاں تک کہ قلوپطرہ کی موت کو بھی افسانہ بنا دیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ رہتی دنیا تک قلوپطرہ کا نام ‘زندہ’ رہے گا۔ محققین کی اکثریت کا خیال ہے کہ 10 اگست کو قلوپطرہ اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔
سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی روایات اور قدیم دور کے مؤرخین کی بعض تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ قلوپطرہ کئی لحاظ سے خوش ذوق اور ایک ذی علم عورت تھی۔ وہ علوم و فنون کی دلدادہ رہی اور ہفت زبان بھی تھی۔ کہتے ہیں کہ وہ سائنس، قانون اور صحت کے اپنے دور کے ماہر اور قابل لوگوں کی قدر داں تھی۔
قلوپطرہ نے مصر کی ملکہ بن کر اپنے خاندان کی عظمت اور اپنی آزادی کے لیے سر توڑ کوشش کی اور اس راستے میں چاپلوسی، خوشامد کے علاوہ سازشوں کا ایسا جال پھیلایا جس نے وہاں خوں ریز واقعات کو جنم دیا۔
قبلِ مسیح کا یہ کردار دنیا بھر کے افسانوی ادب کا حصّہ ہے اور جدید دور میں اس پر فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اردو زبان کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اپنے ایک ڈرامے میں قلوپطرہ کے بارے میں لکھا تھا؛
"قلو پطرہ دنیا کی حسین ترین عورت تھی۔ اس کا حُسن کئی انقلابوں، اور خونریزیوں کا باعث ہوا۔ اس ساحرہ کے حُسن و عشق کے قصّے جہاں دریائے نیل کے ملاحوں کو ازبر یاد ہیں، وہاں تمام دنیا کو معلوم ہیں۔”
"قلو پطرہ مصر کے نالائق بادشاہ بطلیموس اولیت کی بیٹی تھی۔ یہ بادشاہ 80 قبل مسیح تک حکمران رہا۔ اپنی سترہ برس کی بیٹی قلوپطرہ کے سر پر اپنا زنگ خوردہ تاج رکھ کر اُس نے دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔”
"ملکۂ مصر قلوپطرہ فاتحوں کی فاتح تھی۔ اس نے جولیس سیزر کو، اس کی موت کے بعد مارک انطونی کو جس کے ہاتھ میں ان دنوں دنیا کی باگ ڈور تھی، اپنے حُسن و جمال سے مسحور کیا۔”
"اس حسین قاتلہ نے انطونی کو تو ہمیشہ کے لیے تباہی کے سیلاب میں بہا دیا۔ تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ انطونی نے اپنی بیوی کے ناپسندیدہ رویّہ سے مجبور ہو کر اس کے بھائی اوکتے ویانوس کی سخت توہین کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہو گئی۔ پارتھنیوں پر فتح حاصل کر کے اوکتے ویانوس نے انطونی کے روم کو مکمل طور پر تاراج کرنے کی کوشش کی اور اسکندیہ کی پرانی عظمت کو زبردست دھکا لگایا۔ اس نے صاف طور پر اعلان کر دیا کہ روم کی سلطنت کا اصل حق دار قلوپطرہ اور اس کا بیٹا سیرزین ہے۔ ان حالات کے پیشِ نظر اوکتے ویانوس اور انطونی کی جماعتوں میں جنگ ناگزیر تھی۔ چنانچہ اکتی ایم کے مقام پر ایک معرکہ خیز جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں قلوپطرہ بھی شریک تھی مگر اپنی جان بچا کر بھاگ نکلی اور اسکندریہ میں پناہ لی۔ انطونی شکست کھا کر واپس چلا آیا جہاں اس نے اپنی وفادار فوجوں کو دوبارہ جمع کرنے کی کوشش کی۔”
"انطونی اور قلوپطرہ اب محسوس کرنے لگے تھے کہ انہوں نے ایک دوسرے کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ چنانچہ دونوں کے دلوں پر غم و الم کی گھٹائیں چھا گئیں لیکن ایک آرزو ابھی تک ان کے دلوں میں باقی تھی کہ انجام کار ان کا ملاپ ہو جائے۔”
"انطونی لیبیا سے ناامید ہو کر اسکندریہ آیا۔ اس اثنا میں اوکتے ویانوس کی فوجیں اسکندریہ کے دروازوں تک پہنچ گئیں۔ انطونی نے ایک بار پھر اپنی کھوئی طاقت اور دلیری سے کام لے کر دشمن کا مقابلہ کیا لیکن فوج نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔بالکل تنہا دل میں ہزارو ں حسرتو ں کا خون لیے محل میں آیا تو قاصد نے خبر دی کہ قلوپطرہ نے خو دکشی کر لی۔ یہ دراصل قلوپطرہ کی ایک چال تھی۔ اسے ڈر تھا کہ انطونی اس کی غداری پر خشمگیں ہو گا لیکن قلوپطرہ کو معلوم نہ تھا کہ اس کی یہ چال اس کے عاشق پر بہت مہلک اثر کرے گی۔ انطونی دل میں بہت شرمندہ ہوا کہ ایک عورت کی محبت اس سے بڑھ گئی۔ چنانچہ جوش میں آکر اس نے اپنے سینے میں تلوار بھونک لی۔”
"جب قلوپطرہ کو اطلاع ہوئی تو اس نے بڑی منتوں سے اپنے عاشق کو کہلا بھیجا کہ جس طرح ممکن ہو وہ اس کے پاس چلا آئے۔ چنانچہ انطونی کے ملازم اپنے زخمی آقا کو اُٹھا کر اس عمارت کے دروازے تک آئے جہاں قلو پطرہ نے خود کو چُھپا رکھا تھا۔ قلوپطرہ نے خوف سے دروازہ نہ کھولا۔ ایک کھڑکی سے رسیاں نیچے پھینکی گئیں جن کی مدد سے زخمی انطونی کو کمرے کے اندر لایا گیا۔”
اس افسانوی روداد سے آگے ڈرامہ کے طرز پر مکالمے ہیں جس کے اختتام پر ملکۂ مصر قلوپطرہ کو سانپ ڈس لیتا ہے اور وہ زمین پر گر جاتی ہے۔
زیرِ نظر اقتباسات سعادت حسن کی کتاب بعنوان "جنازے” میں شامل ہیں جو ریڈیو کے لیے تحریر کردہ فیچرز پر مشتمل ہے۔
بعض مصنفین نے لکھا ہے کہ ملکہ نے خودکشی کی تھی اور جب اسے معلوم ہوا کہ انطونی نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا ہے تو اس نے بھی مرنے کا فیصلہ کیا اور خود کو زہریلے سانپ سے ڈسوا کر ابدی نیند سوگئی۔ قلوپطرہ کے عہد اور اس کی شخصیت سے متعلق جتنا کچھ لکھا گیا ہے، وہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی داستانوں کا نچوڑ ہے جن کی صداقت مشکوک ہے۔ ملکۂ مصر قلوپطرہ 30 ویں صدی قبلِ مسیح میں چل بسی تھی۔
محققین کے مطابق قلوپطرہ ساری زندگی سلطنتِ روم میں اقتدار کے جھگڑے میں الجھی رہی۔اس نے اقتدار اور دولت کے لیے سازشیں رچائیں اور ہر جائز اور ناجائز کام کیا۔ قلوپطرہ اپنے حسن و جمال کے دام میں لاکر طاقت ور اور بااثر شخصیات سے اپنا مطلب نکالتی رہی۔اس کے عشق کا پہلا شکار روم کا شہرۂ آفاق حکم راں جولیس سیزر تھا، جو اس عورت کے خاوند سے اس کا ایک جھگڑا نمٹانے کے لیے بطور ثالث مصر آیا تھا، مگر قلوپطرہ نے اسے اپنی زلفوں کا اسیر بنا لیا اور اس کی قربت حاصل کر کے اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے روم چلی گئی۔
تاریخی شہرت کے حامل جولیس سیزر کے قتل کے بعد قلوپطرہ نے اس کے نائب جنرل انطونی سے تعلقات استوار کیے، مگر اسے بھی دھوکا دیا مگر جب انطونی نے خودکشی کی تو ملکہ کو اچانک پچھتاوے نے گھیر لیا اور اس نے بھی
اپنی زندگی ختم کر لی۔