علی الصبح ایک غریب کسان رومال میں کھانے کے لیے کچھ باندھے کھیتوں کی طرف چل پڑا۔ کھیت میں پہنچ کر اس نے روٹی چادر میں لپیٹ کر ایک جھاڑی تلے رکھ دی اور ہل چلانے میں مشغول ہوگیا۔
کچھ وقت کام کرنے کے بعد اس کو بھوک محسوس ہوئی تو بیلوں کو ہل سے جدا کرکے وہ جھاڑی کی طرف چل پڑا۔ اس کی حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے چادر اٹھا کر دیکھا کہ روٹی غائب ہے۔ مزید اطمینان کے لیے اس نے چادر کو دوبارہ جھاڑ کر دیکھا مگر روٹی غائب تھی۔ کسان کی عقل اس معمے کو حل کرنے سے قاصر تھی۔
’’یہ کیا معاملہ ہے؟ میں نے اس گرد و نواح میں کسی شخص کو نہیں دیکھا لیکن روٹی چرائی ضرور گئی ہے۔‘‘
یہ سب حرکت ایک خُرد سال شیطان کی تھی جو اُس وقت جھاڑی کے پیچھے بیٹھا اس بات کا منتظر تھا کہ کسان روٹی کو اس طرح کھو کر مغلظات سنائے اور شیطان کو برا بھلا کہے۔
کسان اپنے کھانے کی گمشدگی پر افسردہ ضرور تھا مگر اس نے تحمل کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ کسان نے اپنے دل میں کہا۔’’ مجبوری ہے کسی کو برا بھلا کیوں کہوں بھوک سے مر تو نہ جاؤں گا۔ شاید جو شخص یہ روٹی لے گیا ہے مجھ سے زیادہ بھوکا ہو۔ خدا اس کا بھلا کرے۔‘‘
کسان کو گناہ کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش میں ناکام ہو کر خرد سال شیطان بہت سٹپٹایا اور اس واقعے کو اپنے سال خوردہ سردار کے گوش گزار کرنے گیا۔ بوڑھے شیطان کے پاس آکر اس نے تمام واقعہ من و عن بیان کردیا اور یہ بھی بتایا کہ کسان نے روٹی کی گمشدگی پر بجائے اظہار خشم کے صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا کیا کہ خدا روٹی چرانے والے کا بھلا کرے۔
بوڑھا شیطان یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوا اور بولا’’ اگر تم کسان پر غالب نہیں آسکے تو اس کی وجہ تمہاری کمزوری ہے۔ تم اپنے فرائض سے بالکل بے بہرہ ہو۔ اگر صورت حال یہی رہی تو پھر ہماری خیر نہیں۔ جاؤ اس کمی کو جہاں تک ہوسکے پورا کرو۔ اگر تم تین سال کے عرصے تک اس کسان کو گناہ کی طرف راغب نہ کرسکے تو یاد رکھو میں تمہیں متبرک پانی میں غرق کر دوں گا۔‘‘
خُرد سال شیطان یہ سن کر بہت خوف زدہ ہوا اور اپنے فرض کی انجام دہی کے لیے زمین پر اتر آیا۔ کسان پر غالب آنے کے لیے بہت عرصے تک تدبیریں سوچتا رہا مگر کوئی قابلِ اطمینان نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ آخر بہت غور وفکر کے بعد اسے ایک تدبیر سوجھی۔ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس نے ایک مزدور کا بہروپ بھر کر اس کسان کے ہاں ملازمت اختیار کر لی۔
پہلے سال اس نے کسان کو رائے دی کہ وہ دلدل میں بیج بوئے۔ کسان نے خرد سال شیطان کی رائے پر عمل کرتے ہوئے دلدل میں بیج بو دیے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس سال اس شدت کی گرمی پڑی کے تمام کسانوں کی فصلیں جل کر راکھ ہوگئیں مگر گیلی زمین ہونے کے باعث اس کسان کی فضل خوب بار آور ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سال کا خرچ نکال کر بھی کسان کے پاس بہت سا غلّہ بچا۔
دوسرے سال خرد سال شیطان کی رائے پر عمل کرتے ہوئے کسان نے پہاڑی پر بیج بوئے۔ اس سال معمول سے بہت زیادہ مینہ برسا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کسانوں کی فصلیں تو بارش سے تباہ ہوگئیں مگر اس کسان کی فصل پر جو سطح زمین سے بہت اونچی اور ڈھلوان تھی بارش کا کوئی اثر نہ ہوا اور اس نے پہلے سال سے بھی زیادہ غلہ پیدا کیا۔ اب کسان کے پاس اس قدر غلّہ ہوگیا کہ اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ اسے کس طرح استعمال میں لائے۔
خرد سال شیطان نے، جو اسی موقع کی تلاش میں تھا، کسان کو ایک طریقہ سجھایا جس سے وہ باقی ماندہ غلّے کو کام میں لاسکتا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ طریقہ شراب کشید کرنے کا تھا۔
کسان نے خرد سال شیطان کے حسبِ ہدایت اپنے باقی ماندہ اناج سے شراب کشید کی اور اپنے پینے کے علاوہ اپنے دوستوں کو بھی اس کا طریقہ استعمال بتایا۔ اتنا کام کرکے شیطان اپنے سردار کے پاس دوڑا گیا اور یہ خبر کہہ سنائی کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا ہوں۔ بوڑھا شیطان یہ سن کر خوش تو بہت ہوا مگر وہ چاہتا تھا کہ اپنی آنکھوں سے اس بات کی تصدیق کرے۔ چنانچہ وہ دونوں کسان کے گھر آئے اور دیکھا کہ کسان نے اپنے دوستوں کو مدعوکررکھا ہے جام پر جام چل رہا ہے، اور ساقی کے فرائض اس کی بیوی انجام دے رہی ہے۔
ایک مہمان کو شراب کا پیالہ پکڑاتے وقت بد قسمتی سے وہ میز سے ٹکرا گئی جس پر پیالے سے شراب اچھل پڑی۔ یہ دیکھ کر کسان آگ بھبوکا ہوگیا اور غضب ناک لہجے میں چلایا’’ اوندھی کھوپڑی! تم نے اس کو موری کا پانی سمجھ رکھا ہے؟ جو اس طرح زمین پر گراتی پھرتی ہو۔۔۔ نابکار۔‘‘
خرد سال شیطان اپنی کامیابی پر خوش ہوا اور فاتحانہ انداز میں بولا!’’ دیکھ استاد یہ وہی شخص ہے جس نے آج سے کچھ عرصہ قبل اپنی روٹی کی گمشدگی پر اظہار افسردگی کرنے کے بجائے بھوکا رہنا قبول کیا تھا۔‘‘ کسان نے بڑبڑاتے ہوئے اپنی بیوی سے صراحی لے اور شراب خود بانٹنی شروع کی۔
اسی اثنا میں ایک غریب مزدور دن بھر کی محنت سے چُور اس خیال سے کہ شاید مجھے بھی ایک قطرہ نصیب ہو جائے اندر داخل ہوا۔ وہ بے چارہ ناخواندہ مہمان کی طرح ایک کونے میں بہت عرصے تک پانی بھرے منہ سے بیٹھا رہا مگر کسی شخص نے بھی اسے نہ پوچھا۔
تھوڑی دیر کے بعد کسان نے بجائے کچھ دینے کے صرف اس قدر کہا’’ کوئی کارخانہ تھوڑا کھول رکھا ہے میں نے کہ ہر ایک کو شراب بانٹتا پھروں۔‘‘ یہ دیکھ کر بوڑھا شیطان بہت خوش ہوا مگر اس کے شاگرد نے کہا’’ ابھی آپ نے کیا دیکھا ہے تھوڑا عرصہ اور ٹھہریے اور دیکھیے کیا گل کھلا چاہتا ہے۔‘‘
کسان اور اس کے مہمان خوب جی کھول کر پی رہے تھے۔ اب سرور جو آیا تو لگے واہی تباہی بکنے۔ کسانوں کو اس طرح گفتگو کرتے دیکھ کر شیطان اور بھی خوش ہوا اور کہنے لگا’’ اگر شراب ایسے نتائج پیدا کرسکتی ہے تو وہ دن قریب ہے جب یہ سب لوگ ہمارے مطیع ہو جائیں گے۔‘‘
خرد سال شیطان نے فاتحانہ انداز میں کہا’’ ٹھہریے استاد! ایک ایک پیالہ اور پی لینے دیجیے پھر دیکھیے کیا گل کھلتا ہے۔ اب تو یہ محض بیہودہ گوئی پر اکتفا کر رہے ہیں۔ ایک اور پیالے کے بعد یہ جنگلیوں کی طرح آپس میں لڑیں گے۔‘‘
ایک اور دور کے بعد ان کی یاوہ گوئی گالی گلوچ میں تبدیل ہوگئی اور گالی گلوچ لڑائی میں۔۔۔۔۔۔ اب اسی کمرے میں لڑائی جھگڑے کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ میزبان نے اس لڑائی میں حصہ لیا اور خوب پِٹا۔
یہ دیکھ کر سردار نے اپنے شاگرد کو تھپکی دیتے ہوئے کہا’’ خوب ہے!‘‘ شاگرد نے پھر فخریہ لہجے میں کہا ’’سب سے قابلِ دید حصہ ابھی باقی ہے۔۔۔۔۔۔ تھوڑی سی اور پی لینے دیجیے انہیں، اور پھر دیکھیے تماشا۔‘‘
آخری دور کے اختتام پر اُن کی حالت وحشیوں سے بھی بدتر ہوگئی اور ان میں سے ہر ایک نشے میں مست اپنی اپنی ہانکنے لگا۔
تھوڑی دیر کے بعد مجلس برخاست ہوئی اور انہوں نے افتان و خیزاں اپنے اپنے گھر کا رخ کیا۔
میزبان ان کو دروازے تک پہنچانے کے لیے اٹھا کہ دہلیز پر منہ کے بل گر پڑا اور سؤر کی طرح وہیں لیٹ کر خر خر کرنے لگا۔
اس واقعے کو دیکھ کر بوڑھا شیطان اور بھی خوش ہوا اور اپنے شاگرد سے کہنے لگا ’’خوش رہو میرے بچے! یہ شراب کی ایجاد خوب رہی۔ ہاں بتاؤ تو سہی اس میں کیا ڈالا تم نے؟ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے یہ چیز وحشیوں اور درندوں کے خون سے تیار کی ہے۔ تبھی تو وہ پہلے وحشیوں کی طرح گفتگو کرتے تھے اور بعد ازاں لڑنے مرنے پر اتر آئے۔‘‘
’’نہیں استاد! اس میں درندوں وغیرہ کا خون نہیں۔ میرے لیے سب سے ضروری چیز یہ تھی کہ کسان کے پاس ضرورت سے زیادہ اناج ہو۔ وحشیوں اور درندوں کا خون تو انسان میں پہلے ہی سے موجود ہے مگر اس کے پاس ضرورت سے زیادہ چیز ہوتو وہ خون اپنی اصلیت ظاہر کردیتا ہے۔‘‘
’’اب دیکھیے، پہلے کسان کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنی روٹی کی گمشدگی پر اظہارِ خشم نہ کیا۔ مگر جب اس کے پاس ضرورت سے زیادہ اناج ہوا تو اس نے چاہا کہ اس کے ذریعے سے عیش کرے۔۔۔۔۔۔ چنانچہ عیش کا طریقہ میں نے بتایا۔‘‘
اور جب اس نے اپنے عیش کی خاطر خدا کی بہترین نعمت کو بگاڑ کر شراب بنا لی تو درندوں اور وحشیوں کا خون جو اس میں پہلے سے موجود تھا اپنی اصلیت دکھانے لگا۔ اب یہ شراب پیتا رہا تو ہمیشہ اسی حالت میں رہے گا۔‘‘
بوڑھا شیطان یہ سن کر بہت شادماں ہوا اور اپنے شاگرد کی پہلی خطا کو معاف کر کے اسے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز کر دیا۔
(عالمی شہرت یافتہ روسی مصنف اور ناول نگار لیو ٹالسٹائی کی مختصر کہانی جس کا ترجمہ اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے کیا ہے)