مدن موہن: موسیقی کی دنیا کا ایک موہنا

madan mohan music film industry

مدن موہن ہندوستانی فلم انڈسٹری کے ایسے موسیقار ہیں جن کا ہر گیت ہی بے مثال اور یادگار ثابت ہوا۔ انھیں بولی وڈ کے بہترین موسیقاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اپنے وقت کے عظیم موسیقار نوشاد نے مدن موہن کے گیت ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے‘‘ سے متاثر ہوکر کہا تھا کہ اس گیت کی دھن کے بدلے میں وہ اپنی تمام ریاضت مدن موہن کے نام کرسکتے ہیں۔

14 جولائی 1975ء کو موسیقار مدن موہن چل بسے تھے۔ عراق میں پیدا ہونے والے مدن موہن کے والد بسلسلۂ ملازمت وہاں اپنے کنبے کے ساتھ مقیم تھے۔ لیکن مدن موہن کی پیدائش کے بعد ہندوستان لوٹ گئے۔ تاہم یہاں بھی انھیں کاروبار کی غرض سے ممبئی جا کر محنت کرنا تھی، اور یوں مدن موہن کا بچپن چکوال میں گزرا اور ابتدائی تعلیم لاہور میں ہوئی۔ ان کے والد نے کاروبار جمانے کے بعد اپنی فیملی کو ممبئی بلوا لیا تھا۔ 25 جون 1924ء کو پیدا ہونے والے مدن موہن کے دادا کا چکوال کے موتی بازار میں بڑا گھر تھا اور وہ اپنے وقت کے ایک مستند حکیم تھے۔ ان کی وجہ سے یہ گھر علاقے میں یوگ آشرم مشہور ہوگیا تھا۔ مدن موہن کے والد چنی لال کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ لاہور میں‌ مدن موہن نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے دوران کلاسیکی موسیقی کی تھوڑی بہت تربیت حاصل کی۔ لیکن باقاعدہ یہ فن کسی سے نہیں‌ سیکھا۔ مدن موہن کی والدہ شاعری اور موسیقی کا عمدہ ذوق رکھتی تھیں اور مدن موہن کو بھی انہی کو دیکھ کر یہ شوق ہوا تھا۔ بعد میں ممبئی منتقل ہوئے تو سینٹ میری اسکول میں داخلہ لے کر جہاں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا وہیں ریڈیو پر موسیقی اور بچّوں‌ کے پروگراموں میں‌ جانے لگے۔ ان کا فنِ موسیقی کا شوق صحیح معنوں میں‌ اسی دور میں پروان چڑھا۔ اس زمانہ میں ممبئی کی فلمی صنعت عروج پر تھی اور وہاں‌ فلم ساز، اداکار اور بڑے بڑے موسیقار موجود تھے۔ یہی لوگ ریڈیو سے بھی منسلک تھے، اور کبھی کبھار مدن موہن کو بڑے ناموں کو ریڈیو کی عمارت میں دیکھنے کا موقع مل جاتا تھا۔ مدن موہن نے موسیقی کے فن کو بغیر استاد سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش جاری رکھی اور تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ برٹش آرمی میں کمیشن لے لیا، لیکن دوسری جنگِ‌ عظیم کے بعد نوکری چھوڑ کر ریڈیو سے پروگرام اسسٹنٹ کے طور پر منسلک ہوگئے۔ وہ اپنے موسیقی کے شوق کی تکمیل چاہتے تھے۔

آل انڈیا ریڈیو پر ان کی شناسائی جن عظیم موسیقاروں اور بڑے گلوکاروں سے ہوئی ان میں استاد فیاض علی، استاد علی اکبر خان، بیگم اختر، طلعت محمود کے نام شامل ہیں۔ مدن موہن گلوکاری کے بھی شوقین تھے اور چند مشہور شعرا کا کلام بھی گایا مگر پھر بطور موسیقار فلم انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے پر توجہ دینے لگے۔ 1948ء میں انھوں نے فلم شہید کے لیے گانا ریکارڈ کروایا جو بہت مقبول ہوا اور اس کے بعد ایک فلم میں بطور معاون موسیقار کام کیا۔

بالی وڈ میں‌ مدن موہن کو پہلی قابلِ ذکر کام یابی 1950ء میں ملی جب انھوں نے فلم "آنکھیں” کی موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم نے انھیں انڈسٹری میں نام دیا۔ اس زمانے میں لتا اور محمد رفیع جیسے گلوکاروں کا ہر طرف شہرہ تھا اور مذکورہ فلم کا گیت "ہم عشق میں برباد رہیں گے” بہت مقبول ہوا جسے محمد رفیع نے گایا تھا۔ مدن موہن کی اگلی کام یاب فلم "ادا” تھی جس میں لتا منگیشکر نے ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر نغمات ریکارڈ کروائے۔

فلمی موسیقار کی حیثیت سے مدن موہن نے کئی یادگار دھنیں تخلیق کیں اور ان کے نغمات آج بھی ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ موسیقار مدن موہن چار مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے اور بعد از مرگ انھیں "آئیفا ایوارڈ” سے نوازا گیا۔ پچاس کے اواخر میں‌ اپنی کام یابیوں کا آغاز کرنے والے مدن موہن نے اگلی تین دہائیوں میں بطور موسیقار اپنا عروج دیکھا۔

مدن موہن کے چند مشہور اور یادگار فلمی گیتوں میں‌ نیناں برسیں رِم جھم رم جھم…، آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل کے مجھے، لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نہ ہو…، وہ بھولی داستاں لو پھر یاد آگئی، یوں حسرتوں کے داغ جگر میں سمو لیے شامل ہیں۔