ماہم انگہ: شہنشاہ اکبر کے دربار کی ایک طاقت ور خاتون

maham anga akbar

تاریخِ عالم میں مرد حکم رانوں کے ساتھ ساتھ ان عورتوں کے نام بھی پڑھنے کو ملتے ہیں، جن کا شاہی خاندان اور دربار پر بے پناہ اثر و رسوخ رہا اور کئی امورِ سیاست اور انتظامی معاملات میں ان کا عمل دخل ہی نہیں رہا بلکہ وہ بادشاہوں کے کئی فیصلوں کے راہ میں رکاوٹ بھی بنیں۔ برصغیر میں ماہم انگہ کو مغل بادشاہ اکبر کے دربار کی ایک اہم اور قابلِ‌ ذکر خاتون کہا جاتا ہے جنھیں بادشاہ بڑی امّی کہتا تھا۔

سولہویں صدی عیسوی میں ماہم انگہ نے شاہی خاندان میں چپقلش، بیگمات کی سازشیں اور جانشینی کے جھگڑے، بغاوتیں اور بہت کچھ دیکھا۔ مشہور ہے کہ بعد میں اکبر پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ماہم انگہ نے بھی سچ جھوٹ اور کئی ایسے غلط کام کیے جن کا علم اکبر کو ہوتا رہا مگر وہ انھیں‌ کچھ نہیں‌ کہتا تھا۔ اکبر کے باپ ہمایوں کا عہد، حکومتی سازشوں اور جنگی معرکوں سے بھرا ہوا تھا اور اسی دوران ایک معرکے میں اُسے حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اسی دور میں ماہم انگہ نے اکبر کی پرورش کی تھی۔ اکبر اُسے ماں کا درجہ دیتا تھا۔ وہ ماہم انگہ کو بڑی امّی پکارتا تھا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ ماہم انگہ مغل شہنشاہ ہمایوں کے رضاعی بھائی ندیم خان کی بیوی تھیں اور اسی رشتے سے اُن کی بھابھی تھیں۔

ہمایوں جس زمانہ میں فارس (ایران) کے دورہ پر تھے تو ندیم خان اور ان کی زوجہ ماہم انگہ بھی اپنے دو بیٹوں قلی خان اور ادھم خان کے ساتھ اس قافلے میں شامل تھیں۔ ان کا کام مغل خاندان کے شیر خوار وارث اکبر کو سنبھالنا تھا۔ ماہم انگہ شہزادے اکبر کو دودھ پلانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے والی دس خواتین کی نگراں تھیں۔ ہمایوں کی وفات کے بعد اکبر کو ان کے جرنیل بیرم خان نے تاج پہنایا تھا اور خود وکیلِ سلطنت بنے تھے۔ بیرم خان اور ان کے ساتھیوں کو لگتا تھا کہ ماہم انگہ کو شہنشاہ اکبر سے دور رکھنا ضروری ہے، کیوں کہ وہ آہستہ آہستہ نوجوان حکم راں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہیں۔ لیکن پھر بیرم خان کا قتل ہوگیا۔ اس پر بھی قیاس آرائیاں خوب ہوئیں، مگر منصوبہ ساز کے بارے میں کچھ علم نہ ہوسکا۔

ماہم انگہ ذہین اور قابل عورت تھیں۔ اکبر کی قربت کے سبب شاہی گھرانا اور حرم پر ان کی خوب گرفت تھی۔ امراء اور رئیس ان سے وفادار رہنا چاہتے تھے۔ ماہم انگہ ان کو نوازاتی رہتی تھیں۔ یوں بیرم کے بعد جلد ہی اکبر کے درباری معاملات ماہم انگہ کے ہاتھ میں آگئے۔ ماہم انگہ نوجوان شہنشاہ کی سیاسی مشیر اور سلطنت کی بااثر ترین شخصیت بن گئیں۔ لیکن پھر ان کے عروج کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی۔ ایک طرح سے ماہم انگہ اپنے بیٹے کی وجہ سے انجام کو پہنچیں۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ یہ ادھم خان تھے جن کو اپنی ماں کی وجہ سے شہنشاہ اکبر تک براہِ راست رسائی حاصل تھی اور وہ مغل فوج کے جنرل بن گئے تھے۔ یہ 1561 کی بات ہے جب مغل فوج نے مالوا فتح کیا مگر ادھم خان نے خاصا مال غنیمت اپنے پاس رکھ لیا۔ شہنشاہ نے اس جرم پر بڑی امی کی وجہ سے ادھم خان کو کچھ نہ کہا مگر اسی سال وزیر اعظم کی تقرری پر ماہم انگہ اکبر سے نالاں تھی۔ ادھم خان نے اپنے ساتھیوں سے مل کر اسے قتل کر دیا اور قتل کر کے بھاگے تو ایک خواجہ سرا نے شور مچا دیا۔ اس کی چیخوں پر سب بیدار ہوگئے جن میں شہنشاہ اکبر بھی شامل تھے۔ ادھم کو پکڑ لیا گیا۔ وہ بدترین انجام سے دوچار ہوا۔ اکبر کے حکم سے ادھم کو 10 فٹ کی اونچائی سے سر کے بل نیچے پھینکا گیا۔

شہنشاہ اکبر نے ادھم کی موت کی خبر خود ماہم انگہ کو دی اور کہتے ہیں کہ اسی واقعے کا ماہم انگہ پر بہت اثر ہوا۔ اس کے بعد وہ کچھ ہی عرصہ زندہ رہ سکیں اور 25 جون 1962ء کو انتقال ہوگیا۔ ان کی تدفین دہلی میں کی گئی۔ اکبر کے حکم پر ان کے مدفن پر مقبرہ بھی تعمیر کیا گیا۔ یہ مقبرہ چونے اور پتھر کا ہے۔