مائی بھاگی: لوک گلوکارہ کا تذکرہ

کسی بھی خطّے اور علاقہ کی قدیم روایات اور مخصوص ثقافت کو مقامی گلوکار ہمیشہ سے لوک گیتوں کے ذریعے آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے ہیں یہ لوک گیت کسی علاقہ کے لوگوں کے جذبات کا فطری اور براہ راست اظہار ہوتا ہے جو عوام کے ذہنوں میں محفوظ ایک بڑا سرمایہ ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر میں آنکھ کھولنے والی ایک نسل کی سماعتوں میں‌ آج بھی یہ گیت تازہ ہے جس کے بول تھے، ’’کھڑی نیم کے نیچے…‘‘ مائی بھاگی کی آواز میں‌ ہر اُس فرد نے یہ گیت سنا جو اس کی بولی سے بھی ناواقف تھا۔

لوک گلوکارہ مائی بھاگی کی آواز کا لوچ، ترنم اور گیت کے بولوں کے مطابق مسرّت کی چہکار یا درد انگیزی ایسی ہوتی کہ سماعتیں اس کی دیوانی ہو جاتی تھیں۔ آج مائی بھاگی کی برسی ہے۔

مائی بھاگی کا تعلق صحرائے تھر کے شہر ڈیپلو سے تھا جہاں وہ 1920ء میں پیدا ہوئیں تاہم ان کے سنہ پیدائش میں اختلاف ہے۔ والدین نے بھاگ بھری نام رکھا۔ ان کے والد اپنے شہر اور گرد و نواح میں شادی بیاہ، میلوں اور غم کی تقریبات میں‌ سہرے گاتے اور نوحے پڑھتے جو ان کی روزی روٹی کا وسیلہ تھا۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو آٹھ دس سال کی عمر ہی سے اپنے ساتھ ان تقریبات میں لے جانا شروع کر دیا تھا۔ جہاں وہ ڈھول بجا کر اپنے باپ کا ساتھ دیتیں‌۔ کچھ وقت گزرا تو مائی بھاگی نے گانا بھی شروع کردیا۔ لوک گیتوں کو گانے کی تربیت ان کے والد نے کی تھی۔

مائی بھاگی بڑی ہوئیں تو انھیں اپنے گاؤں اور قریبی علاقوں میں‌ تقریبات اور خوشی و غم کے مواقع پر گانے کی اجازت مل گئی۔ مائی بھاگی اَن پڑھ اور شہری زندگی کے طور طریقوں سے ناواقف ضرور تھیں، لیکن خداداد صلاحیتوں کی مالک اس لوک گلوکارہ کو غربت، اور دیہی زندگی کے مسائل نے حالات کا سامنا کرنا اور اعتماد سے جینا ضرور سکھا دیا تھا۔ مائی بھاگی اپنے فن کا مظاہرہ کرتی رہیں اور روزی روٹی کمانے کی سعی جاری رکھی۔ وہ وقت بھی آیا جب وہ اپنی آواز اور فنِ گائیکی کے سبب ملک گیر بلکہ برصغیر میں‌ جہاں‌ جہاں‌ لوک موسیقی سنی جاتی تھی، وہاں بھی مشہور ہوئیں۔ سادہ دل اور منکسرالمزاج مائی بھاگی نے لوگوں‌ کے دلوں میں‌ جگہ پائی۔ انھیں بہت عزّت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کی شادی ہوتھی فقیر سے اس وقت ہوئی جب مائی بھاگی کی عمر سولہ سال تھی۔ ہوتھی فقیر بھی تھرپارکر کے ضلع اسلام کوٹ سے تعلق رکھنے والے لوک فن کار تھے۔

مائی بھاگی اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھنیں بھی خود مرتب کرتی تھیں۔ انھوں نے ڈھاٹکی، مارواڑی اور سندھی زبانوں میں گیت گائے۔ مائی بھاگی کو 1963 میں اس وقت بڑی کام یابی نصیب ہوئی جب وہ اپنے والد کے ساتھ ماروی کے میلے میں موجود تھیں جہاں‌ کئی قابلِ ذکر اور بڑی شخصیات نے ان کو سنا اور ان سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس میلے میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد مرکز سے وابستہ آرٹسٹ اور عملہ بھی موجود تھا جس نے مائی بھاگی کی آواز ریکارڈ کی اور بعد میں ریڈیو پر ان کا ٹیپ نشر کر دیا۔ یوں‌ مائی بھاگی کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ ریڈیو کے سامعین مائی بھاگی کے گیت سننے کی فرمائش کرنے لگے اور تب 1966 میں اس لوک گلوکارہ سے رابطہ کرکے ان کی آواز میں چند گیت ریڈیو پاکستان کے لیے ریکارڈ کیے گئے اور بعد میں مائی بھاگی ٹیلی ویژن پر بھی نظر آئیں۔

صحرائے تھر کی اس گلوکارہ کو کراچی میں پی ٹی وی کے پروگرام میں‌ پہلی مرتبہ لوگوں نے دیکھا اور یوں ان کا سفر آگے بڑھتا رہا۔ مائی بھاگی نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے درجنوں گیت ریکارڈ کروائے اور ان کے انٹرویو بھی نشریات کا حصّہ بنے-

9 جولائی 1986 میں مائی بھاگی کو فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حجازِ مقدس روانہ ہونا تھا، مگر دستِ اجل نے انھیں مہلت نہ دی اور 7 جولائی کو مائی بھاگی سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئیں۔ لوک گلوکارہ کو حکومت نے تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔