منجو قمر: فن و ادب کی دنیا کا ایک باکمال

منجو قمر ایک شاعر، ڈراما نگار، مصنّف، ہدایت کار اور موسیقار کی حیثیت سے مشہور تھے جنھوں نے موسیقی میں نت نئی دھنیں بھی ایجاد کی تھیں۔ وہ حیدرآباد دکن کی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے جن کو بچپن ہی سے فنونِ لطیفہ میں دل چسپی رہی اور کم عمری میں‌ انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کا اظہار شروع کردیا تھا۔

منجو قمر کا اصل نام سید نجی اللہ یداللہی تھا جو 7 نومبر 1908 کو میسور میں‌ پیدا ہوئے۔ انھوں نے دکن میں‌ 8 اگست 1983 کو وفات پائی۔ منجو قمر کے نام سے فن و ادب کی دنیا میں نام و مقام بنانے والے اس باکمال نے اردو ادب میں ایک نئی صنف "عکسانہ” کو بھی متعارف کروایا تھا۔ اس صنف میں ان کی تصنیف کردہ سات کتابوں‌ میں سے آخری کتاب "امیر علی ٹھگ” بہت مقبول ہوئی تھی۔

منجو قمر کو بحیثیت ادیب سامنے لانے والے نواب بہادر یار جنگ تھے جو اپنے وقت کے شعلہ بیاں‌ خطیب اور تحریکِ آزادی کے عظیم قائدین میں سے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ محمد علی جناح نے نواب بہادر یار جنگ سے کہا کہ مجھے ایک اچھا پرسنل اسسٹنٹ (پی۔اے) چاہیے، تو نواب صاحب نے منجو قمر کو محمد علی جناح کے سامنے یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ ‘حیدر آباد کا کوہِ نور’ ہے۔

ڈاکٹر حبیب نثار منجو قمر کے بارے میں‌ لکھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی کا پہلا مشاعرہ 1932 میں پڑھا جس کی صدارت علامہ نظم طباطبائی نے کی تھی۔ یہ مشاعرہ نظام کالج کے سالانہ جلسہ کا ایک جزو تھا۔ غزل کا مطلع پڑھا اور منجو قمر نے سارا مشاعرہ لوٹ لیا۔

کعبہ جانا نہ تیرے گھر کو کلیسا جانا
پھر ترے جاننے والے نے تجھے کیا جانا

منجو قمر کے طبع شدہ سبھی ڈرامے، تجلیات قمر اور "رنگ و رباب” کا شعری مجموعہ اس بات کے غماز ہیں کہ منجو قمر کی شاعری میں شاعرانہ کمال بہت ہی نکھار کے ساتھ ملتا ہے۔ شاعر نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ حمد نعت، منقبت، غزل، گیت، مخمس، ٹھمری، بھجن یا رقص کے بول (Notation) سبھی اصناف سخن آپ کے کلام میں موجود ہیں۔ روانی، سلاست آپ کے کلام کا خاصہ ہے۔

منجو قمر نے سات عکسانے تحریر کیے جن میں نیل کی ناگن، جلتی جوانی، ڈھلتا سورج، بڑھتا سایہ، کچی کلی تیز کرن، ایک دھماکہ دھیمی آگ، سستا جوبن مہنگا ساز اور امیر علی ٹھگ شامل ہیں۔

حیدرآباد دکن کے آخری نظام میر عثمان علی خان ان کے ڈرامے میں ایک مہمان کے طور پر شریک ہوئے تھے اور ان کی کاوش کو سراہا تھا۔ منجو قمر کے ڈرامے عوام میں بھی کافی مقبول ہوئے اور اس وقت ریڈیو پر بھی پیش کیے گئے تھے۔