بھارتی عدالت نے گھریلو تشدد کے کیس کو مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ شادی شدہ خاتون کو گھریلو کام کرنا نوکرانی کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی اسے ظلم میں شمار کیا جائے گا۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ممبئی ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے دوران سماعت ریمارس دیے کہ اگر کسی شادی شدہ عورت سے گھر کا کام یقینی طور پر خاندان کے مقصد کے لیے کرنے کو کہا جائے تو یہ نہیں کہا جاسکتا ہے وہ نوکرانی کی طرح ہے۔
دوران سماعت جج نے ریمارس دیے کہ ’اگر خاتون گھریلو کام کرنے کی خواہش نہیں رکھتی تو اسے شادی سے پہلے بتانا چاہیے تھا تاکہ دولہا خود نکاح کے بارے میں دوبارہ غور کرسکے۔
خاتون نے الزام عائد کیا تھا کہ دسمبر 2019 میں اس کی شادی کے تقریباً ایک ماہ بعد سے اس کے شوہر اور سسرال والے اس کے ساتھ نوکرانی جیسا سلوک کر رہے تھے۔
خاتون نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انہوں نے گاڑی خریدنے کے لیے اس سے 4 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تھا۔ جب بتایا کہ اس کے والد کے پاس پیسے نہیں ہیں تو اس کے شوہر نے اسے جسمانی اور ذہنی طور پر ہراساں کیا اور نوکرانی جیسا سلوک کرنے لگے۔
جسٹس ویبھا کنکن واڑی اور جسٹس راجیش پاٹل پر مشتمل دو رکنی ڈویژن بینچ نے 21 اکتوبر کو درج ہونے والے مقدمے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ گھریلو کام کاج کرنا نوکرانی کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی اسے ظلم شمار کیا جائے گا۔