تقسیمِ ہند سے قبل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یہاں وائسرے کے طور پر قدم رکھا اور ہندوستان کے نئے مالک و مختار کی حیثیت سے کئی اہم اور تاریخ ساز فیصلے کیے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کے باشندوں کی سیاسی اور سماجی حیثیت کا تعین بھی کیا اور وہ اعلان بھی جس کے بعد ہندوستان برطانیہ کے تسلط سے آزاد ہوگیا۔ یہ تقسیمِ ہند کا اعلان تھا۔
تقسیمِ ہند کے فیصلے نے برصغیر میں آلام و مصائب کا ایک ایسا طوفان کھڑا کر دیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ 1947ء میں بٹوارے کا اعلان ہوا تو جہاں بھارت اور پاکستان کے نام سے دو آزاد ممالک دنیا کے نقشے پر ابھرے وہیں سرحدوں کے دونوں اطراف لاکھوں انسانوں کی لاشیں بھی بے گور و کفن پڑی دیکھی گئیں۔ برطانوی دور کا یہ آخری وائسرائے 1979ء میں آج ہی کے دن ایک بم دھماکے میں زخمی ہونے کے بعد چل بسا تھا۔ اسے مغربی آئرلینڈ میں بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
مؤرخین کے مطابق تقسیمِ ہند کا اعلان عجلت میں کیا گیا تھا اور ماؤنٹ بیٹن نے ہندوؤں سے ساز باز کرکے مسلمانوں کو زبردست نقصان پہنچایا۔ اس نے بطور حکم راں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری نہیں کیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی مسلم اکثریتی علاقے بھی بھارت میں شامل کر دیے گئے۔
ماؤنٹ بیٹن 25 جون 1900ء کو ونڈسر برکشائر، انگلینڈ میں پیدا ہوا۔ وہ برطانیہ کے شاہی خاندان کا فرد تھا۔ اس نے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے بحریہ میں اعلیٰ ترین عہدے پر خدمات انجام دی تھیں۔ ملکہ کے منتخب نمائندے کی حیثیت سے ماؤنٹ بیٹن نے 24 مارچ 1947ء کو ہندوستان میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا اور اس کے فوری بعد یہاں کے تمام بااثر قائدین اور اہم سیاسی شخصیات سے ملاقاتوں کے بعد اس نے تقسیم کا وہ فیصلہ کیا جس میں جانب داری اور جھکاؤ واضح تھا۔ اکابرینِ ہند سے ملاقاتوں میں وائسرائے نے متحدہ ہندوستان میں برطانیہ کے لیے انتظامی راستہ نکالنے کی کوشش کی مگر جب اس پر واضح ہو گیا کہ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ناگزیر ہے تو 3 جون 1947ء کو تقسیمِ ہند کا اعلان کردیا۔
ماؤنٹ بیٹن کی ہلاکت کا واقعہ شمالی آئرلینڈ کے ہنگامہ خیز دنوں میں پیش آیا۔ یہ وہ دور تھا جب شمالی آئر لینڈ کے برطانوی بادشاہت کے زیرِ نگیں رہنے یا خودمختار بننے کا تنازع چل رہا تھا۔ برطانوی دستوں اور آزادی کے حامیوں میں تصادم کا سلسلہ جاری تھا۔ اس وقت ماؤنٹ بیٹن کے قتل کی ذمہ داری آئرش ری پبلکن آرمی نے قبول کی تھی اور کہا تھا کہ یہ ہمارے ملک پر قبضے کی کوشش کے خلاف کارروائی ہے۔ اس روز ماؤنٹ بیٹن سیر و تفریح اور شکار کی غرض سے وہاں موجود تھا۔ عملے کے اراکین کے علاوہ 79 سالہ ماؤنٹ بیٹن کے ہمراہ اس کی بڑی بیٹی، داماد، نواسے اور خاندان کے چند دیگر افراد بھی وہاں گئے ہوئے تھے۔ ماؤنٹ بیٹن اور اہلِ خانہ دریا کی سیر کے لیے جب لکڑی کی ایک کشتی پر سوار ہوئے تو اس میں نصب کردہ بم پھٹ گیا۔ کہتے ہیں کہ ماؤنٹ بیٹن کو زندہ حالت میں پانی سے نکال لیا گیا، لیکن اس کی ٹانگیں بُری طرح زخمی ہوچکی تھیں اور وہ زخم اور درد کو برداشت نہ کرسکا اور چل بسا۔