انگریز مصنّف تھامس کارلائل جس نے رسول اللہﷺ کو اپنا عظیم لیڈر قرار دیا

انگریز مصنّف تھامس کارلائل کی کتاب On Heroes, Hero-Worship, and the Heroic in History چھے لیکچرز کا مجموعہ ہے۔ یہ تاریخ کی اُن شخصیات کا تذکرہ ہے جن سے کارلائل بہت متاثر تھا۔ وہ ان شخصیات کے افکار، کردار اور جدوجہد کا تذکرہ کرتے ہوئے انھیں اپنا ہیرو قرار دیتا ہے۔

کارلائل نے 1840 میں‌ انقلابی قیادت اور عظیم راہ نماؤں‌ کے بارے میں‌ لندن میں‌ جو لیکچر دیے تھے ان کو اگلے سال یعنی 1841ء میں کتابی شکل میں پیش کیا۔ اس نے جن عظیم اور عالی مرتبت شخصیات کا ذکر کیا ہے اُن میں رسول اللہﷺ کا نام بھی شامل ہے۔ مصنّف نے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو ہیرو قرار دیا ہے اور شان دار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔

تھامس کارلائل نے رسول اللہﷺ کی تقدیس اور کردار کو بیان کرنے میں والہانہ انداز میں ایسا رنگ اختیار کیا ہے کہ یہ گمان گزرتا ہے گویا کسی مسلمان مصنّف نے سیرت لکھی ہے۔ تھامس کارلائل لکھتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے انسانیت کو خیرِ عظیم عنایت فرمائی۔

اس کتاب کے مصنّف نے اسکاٹ لینڈ میں 4 دسمبر 1795ء کو آنکھ کھولی۔ اس کا باپ جیمز کارلائل تھا جو غیر تعلیم یافتہ لیکن نہایت مذہبی اور رواداری کا قائل تھا۔ یہی خصوصیت جیمز کارلائل میں منتقل ہوئی اور وہ بھی مذہب و ملّت اور انسانیت کی بنیاد پر انقلاب برپا کرنے والی شخصیات کا معترف اور ان کے اعتقادات سے متاثر رہا۔ تھامس کارلائل کی پہلی مدرس اس کی ماں تھی جس نے اسے مطالعے کی جانب راغب کیا اور پھر اس کے باپ نے اپنے بیٹے میں‌ ریاضی کا شوق ابھارا۔ اس زمانے میں اسکول کی تعلیم کے ساتھ کارلائل نے مطالعہ سے بہت کچھ سیکھا۔ بعد میں‌ وہ ایڈنبرا یونیورسٹی سے تعلیم پاکر وہیں‌ ریاضیات کا استاد مقرر ہوگیا۔

تھامس کارلائل نے 1820ء کے بعد اپنے مشاہدات، اپنے علم اور خیالات کو مضامین کی شکل دینا شروع کی تھی۔ اُس نے جلد ہی انگلستان میں بحیثیت مضمون نگار، مؤرخ اور دانش ور شناخت بنا لی۔ 1834ء میں وہ آبائی علاقہ چھوڑ کر لندن منتقل ہوگیا۔ یہیں تھامس کارلائل کے لیکچرز مشہور ہوئے۔ اس انگریز مصنّف نے رسول اکرمﷺ کے حالاتِ زیست اور سیرتِ مبارکہ پر ایک جگہ لکھا: ’’ان کا گھرانہ سب سے زیادہ کفایت شعار تھا۔ ان کی عام خوراک جو کی روٹی اور پانی پر مشتمل ہوتی تھی۔ بعض اوقات ان کے چولھے میں کئی ماہ تک آگ روشن نہیں ہوتی تھی۔ ان کے سوانح نگاروں کا فخریہ کہنا ہے کہ وہ خود اپنے جوتوں کی مرمت کرتے اور اپنے لبادے میں پیوند لگایا کرتے تھے۔ حضرت محمد ﷺ تو غریب محنتی اور بے اسباب انسان تھے۔ میری رائے میں اگر وہ اعلیٰ صفات کے مالک نہ ہوتے تو عرب کے وحشی اور آپس میں لڑنے جھگڑنے والے کبھی ان کی اتنی تعظیم نہ کرتے کہ ایسے لوگوں کو کوئی شخص اپنی صحیح قدر و قیمت اور صفات کے بغیر اپنا مطیع نہیں بنا سکتا تھا۔ ان کی تیئس سالہ پُر از مشقت اور حقیقی آزمائشوں میں مجھے اپنے لیے حقیقی ہیرو کی خوبیاں نظر آتی ہیں۔‘‘