سابق وفاقی وزیر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ 5 نومبر کو امریکا میں تبدیلی آ رہی ہے بائیڈن جا جب کہ ٹرمپ واپس آ رہے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق سابق وفاقی وزیر مشاہد حسین سید نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں معاشی استحکام، سیاسی استحکام سے جُڑا ہے۔ سیاسی استحکام نہ ہوا تو باہر سے سرمایہ کاری بھی نہیں آئے گی۔ اس کے لیے تمام سیاسی قوتوں میں اتفاق رائے ہونا چاہیے۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ امریکا میں تبدیلی آ رہی ہے اور 5 نومبر کو موجودہ صدر بائیڈن جا جب کہ ٹرمپ واپس آ رہے ہیں۔ اس سے قبل کہ باہر سے ٹیلیفون آئے ہمیں خود تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دینا چاہیے۔
اس موقع پر انہوں نے مشرف دور کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف جیل گئے تھے تو اس وقت بل کلنٹن امریکی صدر تھے۔ انہوں نے کہا کہ 20 جنوری 2001 کو میری مدت ختم ہو رہی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میری مدت ختم ہونے سے قبل نواز شریف رہا ہو جائیں، جس کے بعد 10 دسمبر 2000 کو نواز شریف کو شاہی جہاز میں سعودی عرب بھیج دیا گیا۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ ہمارا رونا دھونا رہتا ہے کہ سازش ہوگئی لیکن درحقیقت کچھ کر نہیں پاتے، رونا دھونا بند کرکے عملی طور پر کام کرنا ہوگا، یہ کہنا چھوڑ دیں کہ امریکا اور آئی ایم ایف کیا کہے گا۔ فیصلے کرنے کیلیے ہمت اور دم ہونا چاہیے۔ ہماری قوم میں جذبہ موجود ہے لیکن قیادت تھوڑی کمزور ہے۔ پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ بھی ہم کریں گے، ون مین شو کا دعویٰ کرنے والے ناکام ہو جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دو مسلم ممالک ترکیہ اور عمان فلسطینیوں کی مدد کر رہے ہیں۔ 300 سال کی مغربی بالا دستی کا خاتمہ ہو رہا ہے۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر عمان گوادر کو پاکستان کو نہ دیتا تو آج سی پیک بھی نہ ہوگا۔ عمانی وزیر خارجہ سے ملاقات میں سی پیک پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا افریقہ کے ساتھ تاریخی رشتہ ہے۔ افریقہ سے تعلقات وزارت خارجہ تک محدود نہیں ہونے چاہئیں بلکہ باہمی تجارت کو بھی فروغ دینا چاہیے۔