نعیم ہاشمی: فلمی اداکار، شاعر اور ادیب

نعیم ہاشمی کی لکھی ہوئی یہ نعت آپ نے بھی سنی ہو گی۔

شاہِ مدینہ، شاہِ مدینہ
یثرب کے والی، سارے نبی تیرے در کے سوالی

نعیم ہاشمی 27 اپریل 1976ء وفات پاگئے تھے، لیکن ان کا یہ نعتیہ کلام شاعر تنویر نقوی سے منسوب ہے۔ اس کی وجہ وہ گرامو فون ڈسک ہے جس پر غلطی سے یا لاعلمی میں تنویر نقوی کا نام تحریر ہو گیا تھا اور یہی نام آگے بڑھتا رہا۔

نعیم ہاشمی کا شمار پاکستان فلم انڈسٹری کے بانیوں اور اوّلین دور کے قابل اور باصلاحیت آرٹسٹوں‌ میں ہوتا ہے۔ وہ اداکار، شاعر، ادیب اور ہدایت کار بھی تھے۔نعیم ہاشمی فلمی صنعت کے ایسے فن کار تھے جنھوں نے متعدد شعبہ جات میں بنیادی کام کیا اور بعد میں دوسرے آرٹسٹ آگے بڑھے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ نعیم ہاشمی کی فن کارانہ صلاحیت کی بدولت پایۂ تکمیل کو پہنچنے والا کام دوسروں سے منسوب ہوگیا یا وہ اس سے پہچان اور شناخت حاصل نہ کرسکے۔ مثلاً پاکستان کی اوّلین فلم بھی دراصل نعیم ہاشمی نے پروڈیوس کی تھی۔ اس کا نام انقلابِ کشمیر تھا اور یہ اس وادیٔ سرسبز کی تحریکِ آزادی سے متعلق فلم تھی۔ لیکن اس فلم کا لاہور کے رٹز سنیما میں پہلا ہی شو ہوا تھا کہ اس کی نمائش پر پابندی عائد کر دی گئی۔ شاید اس کا پرنٹ بھی محفوظ نہیں‌ رہا۔

ان کا تحریر کردہ ایک ملّی نغمہ بھی مذکورہ فلم میں شامل تھا جس کے بول ہیں:

سلام اے قائدِاعظم تِری عظمت ہے پائندہ
ترا پرچم ہے تابندہ، ترا پیغام ہے زندہ

یہ مِلّی نغمہ اردو کے درویش صفت شاعر ساغر صدیقی نے گایا تھا۔

اداکار نعیم ہاشمی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے لاہور میں سب سے پہلا اسٹیج ڈرامہ پیش کیا تھا۔ اس ڈرامے کا نام ’شادی‘ تھا جسے 1948ء میں لاہور کے اوڈین سنیما ہال میں دکھایا گیا تھا۔

ایک دور میں‌ فلموں کا مرکز کلکتہ اور ممبئی ہوا کرتا تھا۔ نعیم ہاشمی نے وہیں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا اظہار کرنا اور اپنے کام کو نکھارنا سیکھا۔ انھوں‌ نے فنّی تربیت کلکتہ میں لی اور وہاں تقسیمِ ہند سے قبل 1946ء میں وہ اپنی پہلی فلم ’چاندنی چوک‘ میں نظر آئے تھے۔ اس دور میں کلکتے میں ٹھاکر ہِمت سنگھ نے ایک گروپ بنا رکھا تھا جس میں‌ ہیرو کے طور پر سلیم رضا کو کام دیا جاتا تھا، لیکن جب شاعر اور مصنّف سیف الدین سیف نے ٹھاکر صاحب کو نوجوان نعیم ہاشمی سے ملوایا تو انھوں نے کچھ سوچ کر خوب رو نعیم ہاشمی کو ہیرو اور سلیم رضا کو اسی فلم میں وِلن کا رول دیا۔ یوں نعیم ہاشمی نے اداکاری کا آغاز کیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد نعیم ہاشمی لاہور میں‌ سکونت پذیر ہوئے۔ یہاں‌ بھی انھوں نے فلم نگری سے ناتا جوڑا اور اداکار، فلم ساز اور ہدایت کار نذیر کے ادارے میں کام شروع کرنے لگے۔ نعیم ہاشمی نے نذیر کے لیے خاتون، نورِاسلام، شمع اور عظمتِ اسلام جیسی فلمیں لکھیں اور کئی فلموں میں‌ بطور اداکار کام کرکے خود کو منوایا۔ بلاشبہ پاکستان کی فلمی صنعت کے لیے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔