نازیہ حسن: پاپ میوزک کی ملکہ کا تذکرہ

پاکستان میں گلوکاری کے شعبہ میں اپنے فن اور انداز کی بدولت شہرت اور بطور پاپ سنگر مقبولیت کی انتہا کو چھونے والی نازیہ حسن کو مداحوں سے بچھڑے 25 برس بیت گئے۔ آج ان کی برسی ہے۔ نازیہ حسن کو گلوکاری کے میدان کی ایک ساحرہ کہا جاتا ہے جنھوں نے پاکستان میں میوزک کی دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔

نازیہ حسن 3 اپریل 1963ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ وہ اپنے والدین یاسر حسن اور منیزہ حسن کی پہلی اولاد تھیں۔ ان کے چھوٹے بھائی زوہیب حسن اور ایک بہن زہرہ تھیں۔ بعد ازاں یہ خاندان انگلینڈ منتقل ہو گیا۔ نازیہ پولیٹیکل سائنس میں گریجوایشن اور بار ایٹ لاء کرنے کے بعد اقوام متحدہ کے ایک ادارے میں ملازمت کی۔ وہ انتہائی قابل اور ذہین تھیں اور تعلیمی میدان سے لے کر عملی زندگی تک ان کا سفر کام یابیوں سے بھرا ہوا ہے۔ پاپ میوزک کی دنیا میں قدم رکھنے والی نازیہ حسن نے پاکستان بھر میں نہ صرف دلوں پر راج کیا بلکہ ان کی شہرت اور فن کو بھارت اور دنیا بھر میں چاہنے والوں نے سراہا۔

وہ لاکھوں پاکستانیوں کی محبوب گلوکارہ تھیں جنھوں نے شوقیہ گلوکاری کا آغاز کیا تھا مگر جلد ہی اپنے بھائی زوہیب حسن کے ساتھ اسے کریئر کے طور پر اپنا لیا۔ ان کے خوب صورت اور دل موہ لینے والے گیتوں کے ساتھ مشرقی انداز اور مغربی سازوں کے امتزاج سے جو گیت سماعتوں تک پہنچے، انھوں نے دلوں کو مسخر کرلیا۔ یہ 1980ء کی بات ہے جب ایک تقریب میں ان کی ملاقات بھارتی اداکار فیروز خان سے ہوئی اور ان کی فلم ’’قربانی‘‘ کا گیت ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے‘ نازیہ کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ اس نے ہر طرف دھوم مچا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے نازیہ حسن شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگیں۔ اس وقت ان کی عمر صرف چودہ برس تھی۔ اس پر نازیہ کو 1981 ء میں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی اور کم عمر ترین گلوکارہ تھیں۔

زوہیب حسن کے ساتھ انھوں نے پاپ گائیکی کو نئی جہت دی اور 1981ء میں پہلا البم ریلیز ہوا جس کا نام ’’ڈسکو دیوانے‘‘ تھا۔ یہ البم اس وقت کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ایشیائی پاپ البم قرار پایا۔ اس کے بعد 1982ء میں ’’بوم بوم‘‘، 1984ء میں ’’ینگ ترنگ‘‘ اور 1987ء میں ’’ہاٹ لائن‘‘ جیسے کامیاب البموں نے ان کے مداحوں کو ان کی آواز اور نئے طرز گائیکی کا دیوانہ بنا دیا۔

نازیہ حسن نے پی ٹی وی پر موسیقی کے پروگراموں کی میزبانی کے فرائض بھی سر انجام دیے۔ 1988 میں وہ معروف موسیقار سہیل رعنا کے ساتھ پروگرام ’’سارے دوست ہمارے‘‘ میں جلوہ گر ہوئیں۔ چودہ ممالک کے ٹاپ ٹین چارٹس پر نازیہ، زوہیب چھائے رہے۔

حکومتِ پاکستان نے 2002ء میں بعد از مرگ نازیہ حسن کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔ ان کی شادی کراچی کے صنعت کار اشتیاق بیگ سے ہوئی تھی۔ نازیہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئی تھیں اور لندن میں دو سال اس بیماری سے لڑنے کے بعد 13 اگست 2000ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ بوقت مرگ ان کی عمر صرف 35 سال تھی۔